بات ہو رہی تھی اخلاص کی کہ یہ بابِ صدق سے ہے کہ یہی اسلام کی اساس ہے۔ کیسی خوبصورت بات ہے کہ نیت کی تہہ میں بھی صدق ہے اور ہمیں بتایا گیا کہ اصل چیز نیت ہے کہ یہ انسان کو بعض اوقات پانی منزل تک بغیر عمل کے بھی پہنچا دیتی ہے۔ یعنی نیت اور عمل تو لازم و ملزوم ہیں مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مگر نیت کو عمل کی مہلت نہ بھی ملے مقصد براری ہو جاتی ہے۔ آپؐ نے ایک غزوہ کے بعد صحابہ سے کہا کہ کچھ لوگ نے ہمارے ہر ہر عمل میں کہ جب ہم نے سفر کیا‘ مشقت اٹھائی اور برسر پیکار ہوئے‘ ہمارے شریک اجر ہیں۔ صحابہ نے پوچھا تو آپؐ نے فرمایا یہ ان کی سچی نیت کے باعث ہوا۔ حمید حسین بتا رہے تھے کہ ہر شریعت کا اپنا اختصاص اور اساس ہے مثلاً یہود میں تشریح یعنی قانونی دانی کا غلبہ تھا شریعت عیسوی میں انکساری اور عاجزی شیوہ ٹھہرا۔ مگر اسلام کی بنیاد مکمل طور پر اخلاص کے اوپر ہے یہی اخلاص عمل کو خیر بناتا ہے وگرنہ خیر بغیر رضائے الٰہی کے کچھ نہیں۔ قبولیت اور باریابی تو اسی عمل کو ملے گی جو دل سے اور سچی نیت سے کیا جائے گا۔ نام و نمود دکھاوا اور واہ واہ کے لیے کیا جانے والا عمل تو ہے مگر اس کی روح جو کہ حصول رضائے الٰہی مفقود ہو تو یہ سب فضول ہے۔ ایک واقعہ علامہ برہان احمد فاروقی صاحب کا انہوں نے سنایا کہ ان کے کوئی جید دوست ان کو کراچی بلانا چاہتے تھے کہ علم کا کام ہو سکے۔ برہان احمد فاروقی صاحب ٹالتے رہے جب ان بزرگوں نے اصرار فرمایا کہ آخر ان کی میرے ساتھ مل کر کام نہ کرنے کی وجوہ کیا ہیں۔ برہان صاحب نے کہا کہ ’’بس آپ کی یا میری طباع نہیں ملتیں انہوں نے کہا یہ کیا بات ہوئی یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا۔ برہان صاحب نے ان کے نوکر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ آپ اس کا رہن سہن دیکھیں اور اپنا شاہانہ انداز۔ وہ بزرگ بھی بہت عالم فاضل تھے فوراً کہنے لگے’’جناب یہ تو امرتکوینی ہے۔ یعنی میرے لیے ایسی ہی زندگی لکھ دی گئی جس میں آرام و آسائش ہے اور ملازم کے لیے ذرا کمتر زندگی کہ مشقت ہے۔ بظاہر تو یہ بات اپیل کرنے والی تھی۔ دوسری طرف برہان احمد فاروقی کا ذہن نارسا اور دل بیدار تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا امرتکوینی کہ جو خلاف سنت ہو اور اس پر رضا مندی ہو تو میں اسے کفر سے کم نہیں سمجھتا۔ مولانا نے کہا کہ نفس شرارت اور چھیڑ چھاڑ تو کرتا ہے کئی غلط باتوں کو دین بنا کر پیش کرتا ہے وہی کہ ایک بزرگ سے شیطان نے کہا تھا’’آپ اپنے علم کے زور پر مجھ سے بچ گئے۔ اللہ والے نے کہا تمہارا کہنا درست نہیں میں کیا میرا علم کیا میںتو اللہ کی توفیق سے بچا ہوں معزز قارئین! مجھے معلوم ہے کہ میں علم کے حوالے سے تہی داماں ہوں‘ اسی لیے میں کبھی کہیں کہیں سے خوشہ چینی کرتا رہتا ہوں اور جو بھول جاتا ہوں اپنے سے انداز میں آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں ویسے بھی اچھی بات کو امانت سمجھتا ہوں کہ سننے والوں تک پہنچ جاتے اللہ نیت کی درستگی نصیب فرمائے۔ وہی جو امام غزالی نے کہا کہ جب کوئی نماز کے لیے نیت کرتا ہے کہ اس نے سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا اور اب وہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے خالق کے سامنے حاضر ہے۔ اس نیت کے بعد اگر وہ نماز میں یکسو نہیں تو پھر اسے اپنی نیت پر غور کرنا چاہیے کہ اس نے جھوٹ بول بولے ۔ خیر یہ تو بڑے تقوے کی باتیںہیں ہم تو اپنے کاروبار کا حساب بھی نماز میں کرتے ہیں پرانی بات یاد آئی کہ کسی مقتدی نے کہا کہ امام صاحب نے تین رکعت پڑھائی ہیں ایک رہ گئی ہے استفسار پر پتہ چلا کہ اس نے دلیل میں کہا کہ میری چار دکانیں ہیں‘ ابھی تو میں نے صرف تین کا حساب کیا تھا۔ نیت کے ضمن میں یہود کا ذکر آیا کہ ان کے ہاں قانون کی وائی لیشن کے بھی انداز تھے کہ قانونی گرفت میں آئے بغیر کام بھی کر لیا جائے۔اللہ پاک بھی تو آزماتے ہیں جب ان کو ہفتہ کے روز مچھلی پکڑے سے منع کیا گیا اور قدرت خدا کی ہفتہ کے روز ہی مچھلیاں کثرت سے آئی تھیں۔ عام دنوں میں نہیں۔ وہ اس راز کو نہ پا سکے اور اپنی چالاکی اور ڈپلومیسی دکھاتے ہوئے انہوں نے یوں کہا کہ ہفتہ کے روز آنے والے مچھلیوں سے بھرے پانی کو الگ تالات میں جمع کر لیا اور اگلے روز وہاں سے مچھلیاں پکڑیں بظاہر تو انہوں نے حکم کی تعمیل کی مگر ان کے ارادے اور نیت میں تو فتور تھا وہ چکر دینا چاہتے تھے خود چکر میں آ گئے اللہ تو دلوں کی چوریاں جانتا ہے۔ وہ تو اپنی رضا چاہتا ہے مجید امج یاد آئے: سلام ان پر تہہ تیغ بھی جنہوں نے کہا جو تیری مرضی‘ جو تیری رضا جو تو چاہے کمال کی بات یہ ہے کہ آج بھی وہ رویہ روبہ عمل ہے کہ قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے پورے پورے محکمے موجود ہیں جو آپ کو ہر غلط کام کا طریقہ بتائیں گے اور پھر قانون سے بچنے کے حربے‘ گویا کام بھی ہو جائے اور قانون بھی انہیں پکڑ نہ سکے۔ اوپر سے نیچے تک کھیل تو کھیلا جا رہا ہے ۔نیت سب کی مفاد اور اقتدار ہے قانون کو کون مانتا ہے۔ ویسے بھی قانون امیروں اور صاحبان حیثیت کی حفاظت کے لیے ہے سزا اسی کو ملتی ہے جس کے گلے میں پھندا پورا آ جائے۔ یہ قانونی مشیروں کا اور کیا کام ہے جو قدم قدم پر حکمرانوں کی ’’رہنمائی‘‘ فرماتے ہیں۔ اب دیکھیے قانون کتنا بے بس ہے کہ اس کی گرفت سے نہ صرف یہ کہ زرداری بچ نکلے بلکہ صادق اور امین ٹھہرے۔ رائو انوار کا معاملہ دیکھ لیں یا ایان علی کا کیس دیکھ لیں‘ ہر جگہ قانون بے یارو مددگار نظر آتا ہے۔ ایان کو پکڑنے والا انسپکٹر تو خود جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ بات کدھر سے کدھر نکل گئی۔ بات ہو رہی تھی اخلاص کی اور نیت کی حال نے کہا تھا ’’جی چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں!‘‘ خلوص کا ذکر آیا تو ہمارے دوست عارف واسطی کے انکل شوکت واسطی یاد آئے جو میرے کالج آئے تو انہوں نے اپنا شعر سنایا: بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی ہے بڑے خلوص سے ہم بھی فریب کھاتے ہیں معاً میرے ذہن سورۃ اخلاص آ گئی کہ یہ کیسے ہمارے ایمان کی تطہیر کرتی ہے۔ بات اصل میں رمضان شریف کے حوالے سے ہو رہی تھی کہ ہمیں اسے اچھی طرح گزارنے کی بڑے خلوص کے ساتھ نیت کرنی چاہیے پھر اس کے بعد تھوڑی بہت کمیاں عمل میں رہ بھی گئیں تو نیت ہمیں وہ ثمر عطا کر دے گی جو مقصود ہے اصل میں ہماری کیمسٹری ہی دین فطرت پر ہے۔ وہی پرانی بات کہ مسلمان سب سے پہلے نقصان سے بچتا ہے اور منافع کے حصول کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ لاالہ الا اللہ ہی تو یہی ہے ان کا اور پھر انتخاب۔ وہی کہ جو سلطان باہو کا کہنا ہے ؎ الف اللہ چنبے دی بوٹی مرے مرشد من وچ لائی ہو نفی اثبات دا پانی ملیا ہر جگہ ہر جائی ہو اندر بوٹی مشک مچائیوں جان پھلن پر آئی ہو جیوے میرا مرشد باہو جئیں ایہہ بوٹی لائی ہو ہمارے صوفی شعرا بھی اسی اخلاص کی تبلیغ کرتے رہے۔ اس کے لیے انہوں نے بہت ریاضتیںکیں چلیے اگر خلوص کا ذکر فراز نے اپنے سے انداز میں کیا ہے تو اسے بھی دیکھ لیتے ہیں: تم مروت کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا آپ ذرا دیکھیے تو سہی عام زندگی میں دنیا داری میں اور تعلقات میں کوئی اخلاص کا طلب گار ہے اللہ تو حاکم الحاکمین ہے وہ اخلاص کے بغیر کسی کو کیسے قبول کر سکتا ہے۔ بہرحال یہ اخلاص ہی ہے جو آپ کے عمل کو خیر بلکہ خیر کثیر بنا دیتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اللہ کا معاملہ تو بعد میں ہے ہم آپس میں کیسی کیسی mutual cunningnessدکھاتے ہیں یعنی باہمی منافقت ایک دوسرے کو معلوم ہوتا ہے مگر ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ جب تک اندر اخلاص نہیں آئے گا عمل خالص نہیں ہو گا۔ اللہ ہمیں اخلاص نیت کی توفیق نصیب فرمائے آمین: میں جو سربسجود ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں