اس میں کوئی شک نہیں کہ اپوزیشن نے یوسف رضا گیلانی کی جیت کی صورت میں ایک معرکہ سر کیا ہے۔ حالیہ سیاسی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو یوسف رضا گیلانی کی جیت کسی سرپرائز سے کم نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آج حکومت صادق سنجرانی کو کامیاب کروا کر ایک اور سرپرائز دے دے۔ بہرحال یوسف رضا گیلانی صادق سنجرانی دونوں کامیابی کے لئے پرامید ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اپنی اس عددی برتری کی وجہ سے پراعتماد ہیں ، جو انہوں کچھ دنوں پہلے حفیظ شیخ کے حق میں مسترد ہوئے 7 ووٹوں کے بدولت حاصل کی۔ دوسری طرف صادق سنجرانی بھی اس لئے مایوس نہیں ہوں گے کہ اقلیت میں ہو جانے کے باوجود، 2019 میں ان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی ۔ کس کی جیت ، کس کی ہار سے بالاتر ہو کر یہاں پر جشن کا ڈھول پیٹتے وقت وہ اخلاقی تھاپ ’’قابل فکر‘‘ ہے ، جس کے سنتے ہی ملک کی ہر پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے چہرے آنکھوں کے سامنے منڈلانے لگتے ہیں۔ حالیہ سینیٹ الیکشن کے بعد وزیراعظم کو الیکشن کمیشن کو 16 بکے ہوئے ارکین کے خلاف ایجنسیوں سے مدد لے کر کچھ اخلاقی پیمانے مقرر کرنے کی تجویز دیتے سنا جا سکتا ہے۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن نے ملک کی جمہوریت اور اخلاقیات کو نقصان پہنچایا ہے۔پر ابھی سزا اور جزا کا مرحلہ باقی تھا کہ خان صاحب نے انہی بکاٗو مال سے اعتماد کا ووٹ لے لیا اور جیت کی خوشی سے سرشار ہو کر مزید پراعتماد ہوئے۔ خان صاحب عوام ، میڈیا اور اپوزیشن کو اخلاقیات کا درس دیتے وقت وہ یہ بھول گئے کہ انہیں اخلاقیات کے کتاب کے چند اوراق خود اور پارٹی کو بھی ازبر کروانے ہوں گے۔ کچھ روز قبل ہی بلوچستان سے منتخب ہونیوالے سینیٹر عبدالقادر کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد خان صاحب انہیں پارٹی کا پرچم پہناتے نظر آئے ، یہ وہی عبدالقاد صاحب ہیں جن کو ٹکٹ دینے پر خان صاحب کی نظریاتی پارٹی کی مقامی قیادت نے احتجاج کیا۔ جے یو آئی ف جس کے سربراہ کے متعلق خان صاحب کے منہ سے کبھی کوئی خیر کا جملہ نہیں سنا گیا، جانے کیوں عبدالغفور حیدری کو بطور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نامزد کرنے کی پیشکشوں کی خبریں ان کے اپنے وزیردفاع کے منہ سے نکلتی سنی گئیں۔ پرویز خٹک صاحب تو خود اس آزادی مارچ کے ہر اول دستے کے سپاہی تھے، جہاں سے مولانا عبدا لغفورر حیدری صاحب کے سربراہ کے خلاف نعرے لگوائے جاتے تھے۔ پرویز خٹک سے ایسی بھول چوک کیوں اور کیسے ؟ اور ہو گئی تو اس کا اخلاقی احتساب کیوں نہیں کیا جاتا؟فیصل واوڈا کا معاملہ دیکھا جائے، تو قومی اسمبلی کی سیٹ پر نا اہلی کے خوف سے موصوف کو سینیٹ کی ٹکٹ پر منتخب کروانے کے عمل کو پارٹی خدمات کا صلہ کا تو کہا جا سکتا ، لیکن اس میں سے کوئی اخلاقی پہلو نکالنا بھوسے کے ڈھیر سے سوئی ڈھونڈنے کے ہی مترادف ہے۔ سیاسی اخلاقیات پر تو 2018 کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے وقت بھی سوال آٹھائے جا سکتے ہیں جب انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے صادق سنجرانی کو منتخب کروایا۔ جن کو چور ، ڈاکو اور مسٹر ٹین پرسینٹ کے القابات سے نوازا جاتا تھا انہی کے پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین کی سیٹ پر براجمان ہونے میں مدد دی گئی۔ ووٹ ڈالتے وقت ہال میں زرداری سب پر بھاری کے ساتھ نیازی، زرداری بھائی بھائی کے نعرے گونجے ‘۔ لیکن پشیمان ہونے کی بجائے اخلاقی محاذ پر تحریک انصاف نے یہ کمزور دفاعی دلیل کا سہارا لیا کہ ’زرداری صاحب کے بارے میں ہمارے موقف تبدیل نہیں ہوئے۔ اخلاقیات کا جناز ہ تو تب بھی نکالا گیاجب 2019 میں جب صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی تو تحریک کی حمایت میں اپوزیشن کے 64 ارکان کھڑے ہوئے ، لیکن جب ووٹ ڈالنے کی باری آئی تو صرف 50 افراد نے ووٹ ڈالے۔ تحریک انصاف کے مطابق اس عمل سے سینیٹ کا وقار بھی بلند ہوا اور یہ ارکین کا ضمیر کا فیصلہ بھی تھا ۔ اس موڑ پر جس کو اخلاقی نقطہ یاد آیا وہ مریم نواز تھیں جنہوں نے ان 14 ارکان کو بنیاد بنا کر حکومت کو خوب صلواتیں سنائیں۔ ایسا نہیں کہ تحریک انصاف ہی اس اخلاقی میدان میں کچھ اضافی نمبروں کے ساتھ سامنے نظر آتی ہے۔ ملک کے دیگر جماعتیں بھی اس اخلاقی محاذ میں تحریک انصاف کے ہم پلہ ہی ہیں۔ آج ملک کی دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جس طرح گیلانی کی فتح پر صبر و شکر کا مظاہرہ کر رہی ہیں ، اخلاقیات کو ملحوظ خاص رکھ کر ان کے اخلاقی اپوزیشن پر کچھ سوالات پوچھنے ضرور بنتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ میمو گیٹ اسکینڈل میں نوازشریف خود کالا کوٹ پہن کر پیپلز پارٹی کے خلاف سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نوازشریف صاحب جب کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے تو بلاول بھٹو نے ان کو نظریاتی اور اصولوں پر قائم لیڈر قرار دیا۔ اسمبلی اجلاس میں مسلم لیگ ن ’’مسٹر ٹین پرسنٹ ‘‘ جیسے القابات کا استعمال کرتی رہی تو پیپلز پارٹی کی جوابی کارروائی میں نوازشریف کو بھی ضیاالحق کا بیٹا کہا جاتا رہا ۔ ماضی کو مزید کریدیں تو شہباز شریف، زرداری صاحب کے خلاف پیٹ پھاڑ کر پیسہ نکالیں گے، سڑکوں پر گھسیٹیں گے، الٹا لٹکادیں گے جیسے غیر اخلاقی جملوں کے تخلیق کار کے طور پر بھی نظر آئے۔ جبکہ دوسری طرف زرداری صاحب بھی یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ نواز شریف صاحب سے کبھی صلح نہیں ہوسکتی اور ان سے جنگ جاری رہے گی۔ اور تو اور نوازشریف صاحب کو مخالفین پر ملک کا سب سے بڑا بد دیانت اِنسان اور انگریزوں کے کْتے نہلانے والے لو گ جیسے فقرے کستے سنا گیا۔ جبکہ مسلم لیگ ن پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی کی نازیبا تصویریں کو جہازوں سے گرایا۔ تاریخ کے صفحات کو پلٹائیں تو ملکی سیاست اخلاق پستی کی ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہیں اور بے چاری اخلاقیات کو بھی نظریہ ضرورت کے تحت کر دیا گیا ہے ہا ئے رے اخلاقیات! شاید پاکستانی سیاست میں ہم تمہیں جگہ نہیں دے سکتے !