شہزاد اکبر نے شہباز شریف سے 18 سوال کیے ہیں یہ اٹھارہ کے اٹھارہ سوال ایسے ہیں جن کے جوابات شہباز شریف کی طرف سے اگر ’’ہاں‘‘ میں نہ دیے گئے تو نیب کے پاس تمام دستاویزات موجود ہیں جو شہباز شریف کو جھوٹا ثابت کر سکتی ہیں اسی لیے امکان یہی ہے کہ چونکہ شہباز شریف کے لیے ان سوالوں کے جواب میں’’نہیں‘‘ کہنا ممکن نہیں اس لیے وہ خاموش رہنے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے ان سوالوں کا جواب دے دیا تو مزید اٹھارہ سوال پیدا ہوں گے جو عوام ان سے پوچھنا چاہیں گے۔وہ سوالات یہ ہو سکتے ہیں ۔ شہباز شریف صاحب یہ بتائیے کہ آپ نے اپنے مبینہ فرنٹ مین نثار گل کو کن صلاحیتوں کی بنیاد پر ڈائریکٹر برائے سیاسی امور مقرر کیا اور آپ کے مبینہ فرنٹ مین ملک علی احمد سٹریٹجک افیئرز اور پالیسی میکنگ میں امریکہ کی کس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر کے آئے تھے کہ آپ نے انہیں ڈائریکٹر برائے سٹریٹیجی اینڈ پالیسی لگایا ۔کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ ان دونوں کی تعلیمی قابلیت کیا تھی اور عوام کے پیسوں سے مراعات دے کر انہیں یہ عہدے کیوں بانٹے گئے ؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ آپ نے منی لانڈرنگ کے لیے انہی کمپنیوں کی خدمات حاصل کیں جن کمپنیوں کی خدمات زرداری گروپ اور اومنی گروپ نے لے رکھی تھی اس کے باوجود آپ نے ان کے لیے ’’زر بابا چالیس چور‘ ‘ کا نعرہ لگایا ۔ آپ کو خیال نہ آیا کہ آپکا اور ان کا طریقہ واردات ایک سا تھا پھر آپ نے ان کا پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنے کا نعرہ کیوں لگایا، آپ کو اپنے پیٹ کا خیال نہ آیا؟ شہباز شریف صاحب اگر آپ کے گھر سے بوریاں بھر کے پیسے نکل سکتے ہیں جنہیں ایلیٹ فورس کی گاڑیوں کی حفاظت میں آپ کی بلیٹ پروف لینڈ کروزر میں بھر کر آپ کے گھر یعنی کیمپ آفس سے آپ کے ذاتی دفتر تک پہنچایا جاتا تھا جنہیں قاسم قیوم کے بھیجے گئے کیش بوائز گننے کا کام کرتے تھے،جب آپ یہ کر رہے تھے تو آپ کے ایک وزیر کی گاڑی سے ہیروئین نکل آنا کونسی حیرت کی بات ہے۔ہو سکتا ہے مال کی اس انداز میں ترسیل کا آئیڈیا آپ کے وزیر کو آپ ہی سے ملا ہو۔ شہباز شریف صاحب کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ دوران تحقیقات نیب نے آپ کے کاروبار سے جڑے چھ افراد کا سراغ لگایا جو آپ کی مختلف کمپنیوںمیں اہم ذمہ داریاں سر انجام دیتے تھے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان32 کاغذی کمپنیوں کا کاروبار کیا تھا؟کیا یہ سب کمپنیاں انڈے اور مرغیوں کی خرید و فروخت کا حساب رکھنے کا کام کرتی تھیں۔ شہباز شریف صاحب آپ کا ڈائریکٹر برائے سیاسی امور نثار گل اپنی ایک کمپنی گڈ نیچر کا مالک بھی تھا اور یقینا یہ کمپنی آپ کی نہیں تھی کیونکہ اس کا سی ای او نثار گل تھا ۔ تو پھر آپ بتا سکتے ہیں کہ اس شخص نے اپنی ذاتی کمپنی کے ایڈریس کے طور پر چیف منسٹر آفس کا پتہ کیوں لکھوا رکھا تھا؟ یہ سب کر کے آپ عوام کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک رہے تھے؟ شہباز شریف صاحب آپ کے بیٹے سلمان شہباز کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیںان کی سب سے بڑی دلیل بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ تو کبھی پبلک آفس ہولڈر نہیں رہے اور کبھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا توپھر آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کا غیر سیاسی بیٹا آپ کے سیاسی امور کے ڈائریکٹر کے ساتھ ان ملکوں کے دورے کیوں کر رہا تھا جہاں پر آپ نے اپنے دفاتر بنا رکھے ہیں۔ شہباز شریف صاحب آپ تو پہلے بھی ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے پھر آپ نے مزید پیسے کی ہوس میں جعلی کمپنیوں اور ٹی ٹیوں کا کاروبار کیوں کیا ۔شہباز شریف صاحب ایک با عزت اور عش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے کتنی رقم کافی ہوتی ہے اور کیا آپ کے پاس پہلے سے موجود یہ رقم کافی نہ تھی۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پولیس کا نظام ٹھیک کرنے کے لیے کتنے پیسوں کی ضرورت تھی اور اگر آپ ایک ٹی ٹی پولیس کی ری سٹریکچرنگ کے لیے منگوا لیتے تو اس سے آپ کے پاس موجود دولت کچھ کم ہو جاتی؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ 96-H ماڈل ٹاؤن اور 55-K ماڈل ٹاؤن میں کتنے کلومیٹرز کا فاصلہ ہے اور ایک عام آدمی کو یہ فاصلہ طے کرنے میں کتنی نسلیں لگتی ہیں جو آپ کے ذہین بچوں نے محض چند سال میں طے کر لیا ؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ آپ کے داماد علی عمران نے آپ کی بنائی ہوئی صاف پانی کمپنی کو اپنی ایک بلڈنگ کا تیسرا فلور کرائے پر دے رکھا تھا اور یہ کہ ان کے اکاؤنٹ میں کوئی نوید اکرام نامی شخص 120 ملین روپے ڈال کر چلا گیا اور علی عمران بتا بھی نہ سکے یہ پیسے ان کے اکاؤنٹ میںکیوں ڈالے گئے ، میرا سوال ہے یہ اتفاقات ہمارے ساتھ کیوں نہیں ہوتے؟ کیا کوئی پڑھا لکھا نوجوان اگر چاہے تو ایک ٹریڈنگ کمپنی بنا کر 12 سال میں انہیں 32 کمپنیوں میں تبدیل کر کے اپنی تمام بیویوں کو دو دو اپارٹمنٹس اور اپنے بچوں کو بیرون ملک جائیدادیں اور کاروبار بنا کر دے سکتا ہے؟کیا چیف منسٹر ہاؤس معاونت کرے گا؟ شہباز شریف صاحب اگر اپنی تمام رہائش گاہوں کو کیمپ آفس کا درجہ نہ دیا جائے تو کیا تب بھی روپوں کا کاروبار، نوٹوں کو گننے اور بوریوں میں بھرنے کا عمل اسی خوش اسلوبی سے سر انجام پا سکتا ہے؟ یہ بارہ سوالات ہیں جن کے جوابات کی باری شہزاداکبر صاحب کے سوالات کے جوابات دینے کے بعد آئے گی۔ مگر ان تیس سوالوں کے جواب شہباز شریف کو دیے بغیر اگلی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینا زیب نہیں دیتا۔ان سوالوں کے جوابات اتنی ہی تفصیل سے دیے جانے چاہیے جتنی تفصیل ان پر لگائے جانے والے الزامات میں موجود ہے تا کہ ان کی سیاست کو شفافیت کی دلیل میسر آ سکے اگر ایسا نہ ہواتو سوالات ہوا میں معلق رہیں گے۔ ادارے بھی اگر ان سوالوں کے جواب لینے میں ناکام رہے تو جعلی کاغذی کمپنیاں بنانے کے کلچر کی ایسی حوصلہ افزائی ہو گی کہ سیاست محض ایسے ہی نفع بخش کاروبار کے لیے کی جانے لگے گی جیسا کہ پچھلے تیس برس سے ہو رہا ہے۔