معزز قارئین! پرسوں ( 3 جون کو) سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاںثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل 2 رُکنی بنچ نے 56 کمپنیوں میں بے ضابطگیوں کے کیس کی سماعت شروع کی تو، چیف جسٹس نے کہا کہ ’’ شہباز شریف خُود پیش ہو کر وضاحت کریں کہ ، سرکاری افسروں کو بھاری تنخواہوں میں کیسے بھرتی کِیا گیا؟‘‘ اِس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامد نے کہا کہ’’ وزیراعلیٰ کا کمپنیوں میں براۂ راست کوئی کردار نہیں تھا‘‘۔ چیف جسٹس نے استفسار کِیا کہ ’’ یہ کیسے ممکن ہے؟ کہ صوبے کی 56 کمپنیوں میں کرپشن کابازار گرم رہا اور اُس کی رپورٹ وزیراعلیٰ کو نہیں ملی۔ اُن کے کردار کے بغیر تویہاں مکھی بھی نہیں اُڑتی۔ پوچھیں اپنے وزیراعلیٰ سے کہ وہ کہاں ہیں اور کِس وقت عدالت میں پیش ہوں گے ؟‘‘ ۔ 

بعد ازاں جب وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف سپریم کورٹ میں پیش ہُوئے تو اُنہوں نے کہا کہ ’’ مَیں نے اِس صوبے (پنجاب) کے لئے خُون دِیا ہے ‘‘ ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’’ اِس کا اجر اللہ دے گا۔ مَیں نے آپ کو ایک مخصوص سوال کے جواب کے لئے بُلایا ہے ۔ پینے کے صاف پانی کی کمپنیوں میں کروڑوں روپے لگ گئے ہیں لیکن عوام کو پینے کے صاف پانی کی ایک بوند بھی میسر نہیں ۔ یہ بتائیں کہ کمپنیوں کے سربراہوں کو لاکھوں روپے تنخواہ کیوں دِی گئی؟‘‘ اِس پر میاں شہباز شریف جذباتی ہوگئے اور کہا کہ ’’ مجھے کِسی کُتے نے نہیں کاٹا تھا جو ترقیاتی منصوبوں میں بچت کرتا رہا اور مَیں نے قومی خزانے کو نقصان سے بچایا؟‘‘ جواب میں چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ’’ مجھے نہیں پتا کہ آپ کو کِس نے کاٹا؟۔ آپ کو ایسے الفاظ زیب نہیں دیتے !‘‘۔ جِس پر شہباز شریف نے اپنے الفاظ واپس لیتے ہُوئے معذرت کرلی۔ 

معزز قارئین!۔ کُتے دو قِسم کے ہوتے ہیں ۔ بھونکنے ؔوالے اور کاٹنے ؔوالے۔ انگریزی زبان کا محاورہ (Idiom)  ہے کہ "A barking dog never bites"۔ (یعنی ۔ بھونکنے والا کُتا کبھی نہیں کاٹتا) ۔ کُتیا ( Bitch) سے متعلق بھی یہی محاورہ کام آتا ہوگا؟۔ ’’مسدس حالی‘‘ کے مصنف مولانا الطاف حسین حالی ؔ نے متحدہ ہندوستان میں انگریز حکومت کے دَورمیں ترقی کو کُتیا (Bitch) قرار دیتے ہُوئے کہا تھا کہ …

نہیں اب تک اصلاخبر یہ بھی ؟

کہ ہے کون مُردار کُتیا ترقی؟

لیکن، معزز قارئین! جب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے (پنجاب )میں ترقی ہو رہی ہو تو، ہم اخلاقاً اُسے کُتیا ؔتو نہیں کہہ سکتے؟ ۔ ہمارے اکثر سیاستدان اِس طرح کی پوزیشن میں جذباتی ہو ہی جاتے ہیں ۔ تقریباً پانچ سال پہلے ایک کالم نویس نے تحریکِ پاکستان کی مخالف جماعت ’’ مجلس احرار اسلام‘‘ کے ( امیر شریعت کہلانے والے ) مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کا تذکرہ کرتے ہُوئے لِکھا تھا کہ ’’ امیر شریعت نے جوش ِجذبات میں آ کر یہ کہہ ڈالا کہ’’ مَیں اُس کا مُنہ چوم لوں گا جو، انگریز کو دیکھ کر بھونکے !‘‘۔ اِس پر 9 نومبر 2013ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں مَیں نے اپنے کالم میں ۔ برادر کالم نویس سے، پوچھا تھا کہ’’ کیا ’’امیر شریعت ‘‘ کو کسی انگریز کو دیکھ کر بھونکنے والا کتا ملا تھا یا نہیں ؟‘‘ ۔

اور ہاں ! ’’ امیر شریعت ‘‘ کے مُنہ سے اِس طرح کا جملہ کیوں نہیں نِکلا کہ ’’ مَیں اُس کُتے کا مُنہ چُوم لوں گا جوکسی انگریز کو کاٹ کھائے ؟‘‘۔ ایک ضرب اُلمِثل کے مطابق ’’ کُتے کی دُم کو 12 سال نلکی میں رکھا، پھر بھی ٹیڑھی کی ٹیڑھی رہی‘‘۔ اِس طرح کا تجربہ کِس ’’سائنسدان ‘‘ نے کِیا ؟ فی الحال اُس کا نام صیغہ ٔ راز میں ہے۔ تاہم ’’پہلوانِ سُخن ‘‘ اُستاد امام بخش ناسخ سیفی ؔ نے اِس ضرب اُلمِثل کو شعر کا لبادہ پہناتے ہُوئے کہا کہ …

ہے کجی میں مردَ مِ کج طبع بھی کُتے کی دُم!

راست اُن کو کیجئے سو بار ہوں سو بار کج!

حضرت مرزا داغ ؔدہلوی نے اپنے محبوب سے گِلہ کرتے یا اُسے اطلاعاً عرض کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …

بھونکتے ہیں ، ساتھ کُتوں کے ، تیرے دربان بھی!

معزز قارئین! مجھے خادم اعلیٰ پنجاب سے ہمدردی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اُنہیں کسی کُتے نے نہیں کاٹا بلکہ کسی مُوذی مچھر ڈینگی نے کاٹا ہے ۔ جِس کے باعث اُن کے ’’ذہنِ رَسا ‘‘ میں پنجاب میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے نے جنم لِیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب کئی سال پہلے ’’ ڈینگی قوم‘‘ نے پنجاب پر یلغار کی تو، خادمِ اعلیٰ پنجاب نے اُس کا ڈٹ کر مقابلہ کِیالیکن، ڈینگی مار ادویات جعلی ہونے کے باعث ناکامی ہُوئی۔ خادمِ اعلیٰ نے 14 اگست 2013ء کو پنجاب بھر میں’’ یوم ڈینگی‘‘ ( Dengue Day)منانے کا اعلان کِیا لیکن جب اُنہیں اُن کے کسی مُشیر خاص نے یہ بتایا کہ ’’ خادمِ اعلیٰ صاحب! 17 اگست 1988ء کو تو صدر جنرل ضیاء اُلحق ہوائی حادثے میں جاں بحق ہُوئے تھے ؟ تو، ’’ یوم ڈینگی‘‘ 18 اگست 2013ء کو منایا گیا۔ اُس کے بعد بھی خادمِ اعلیٰ کی کوششیں جاری رہیں لیکن، موذی ڈینگی قوم باز نہیں آئی۔ علاّمہ اقبال نے ملک اُلموت کو’’ صیّاد ِ اجل‘‘ قرار دیتے ہُوئے کہا تھا کہ …

مارتا ہے تِیر ، تاریکی میں صیّاد اجل!

لیکن مُوذی ڈینگی ۔ رات کی تاریکی کا انتظار نہیں کرتا۔ صُبح ۔ دوپہر اور شام نہیں دیکھتا۔ وہ کوئی "Classical Singer" تو نہیں کہ مقررہ وقت پر کوئی راگ الاپے یا راگنی چھیڑے؟۔ ’’ڈینگیا راگ ‘‘ تو ہوتا ہی نہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور لاہور کی احتساب عدالت کی طرف سے پینے کا صاف پانی فراہم نہ کرنے پر اور ایک ایک لاکھ روپے تنخواہ دار افسروں کو 12،12 لاکھ روپے تنخواہ دینے پر خادمِ اعلیٰ پنجاب سے کیا سلوک ہوگا؟ مجھے کچھ اندازہ نہیں لیکن مجھے تو، ایک دو روز میں مقرر ہونے والے نگران وزیراعلیٰ پنجاب پر ترس آ رہا ہے۔ اِس لئے کہ ہر سال ماہ جون میں ’’ڈینگی قوم‘‘ پنجاب پر یلغار کرتی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ ’’ جون کے مہینے میں پنجاب کے ہر ضلع ، شہر اور تحصیل پر حملہ آور ڈینگی ، ہر پنجابی خاتون اورمرد کے خواب میں آ کر اُسے ڈرایا کرتا تھا کہ …

ہر گھر سے ڈینگی نکلے گا !

 تُم کتنے ڈینگی مارو گے!

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا 2 رُکنی بنچ اور احتساب عدالت کی طرف سے ’’مہمان وزیراعلیٰ ‘‘ پنجاب میاں شہباز شریف سے کیا سلوک ہوگا؟ مَیں نہیں جانتا؟ لیکن ، مجھے میاں شہباز شریف سے گِلہ ہے کہ ’’ جون 2013ء میں مَیں نے اپنے کالم میں اُنہیں مُفت مشورہ دِیا تھا کہ’’ آپ اعلیٰ سطح کے ڈاکٹروں سے ایک تحقیقی رپورٹ مرتب کرائیں کہ ’’جس مچھر نے حضرت ابراہیم ؑ کے دَور کے بابل کے بادشاہ نمرود ؔکی ناک میں گُھس کر اُس کی جان لی تھی ، کہیں وہ ’’ڈینگی ‘‘ تو نہیں تھا؟‘‘۔ مَیں نے یہ بھی عرض کِیا تھا کہ ’’اُس رپورٹ کی ایک نقل صدر آصف علی زرداری کو بھی بھجوائی جائے!‘‘ لیکن، میاں شہباز شریف نے میرے مفت مشورہ پر توجہ نہیں دِی۔ 

کیا یہ ممکن ہے کہ جو صاحب بھی پنجاب کی نگران وزارتِ عُلیہ کا منصب سنبھالیں وہ میری اِس تجویز کے مطابق نامور سائنسدان ڈاکٹروں سے اِس طرح کی تحقیقی رپورٹ مرتب کرا کے اُس سے فائدہ اُٹھائیں اور رپورٹ کی ایک کاپی صدر ِ پاکستان جناب ممنون حسین کو بھی بھجوا دیں؟۔ معزز قارئین! میرا خیال ہے کہ ’’ مَیں موضوع سے بہت ہٹ گیا ہُوں ۔ شاید بہک گیا ہُوں؟۔ اِس کے باوجود مَیں تصّور میں دیکھ رہا ہُوں کہ ’’ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد پنجاب کی ایک بہادر سی لڑکی ، مردانہ وار گھر سے نکلتے ہُوئے مشہور پنجابی لوک گیت کی دُھن پر یہ شعر گُنگنا رہی ہوگی کہ …

 کِیہہ ہویا ؟۔جے میں ، کلّی آں!

مَیں تاں، ڈینگی مارن، چلّی آں!

لیکن اِس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی ہائی کمان کو تحقیق کرنا ہوگی کہ ’’ اُن کے قائد میاں شہباز شریف کو کُتے نے کاٹ تھا یا ڈینگی نے ؟۔