یہ تین سال پرانی بات ہے میں کراچی کے علاقے صدر میں ٹریفک جام میں پھنسا ہوا تھا ،کیمرہ مین بھی میرے ساتھ ہی تھا ہم گاڑی میںبیٹھے انتظار کر رہے تھے کہ کب یہ گاڑیاں حرکت میں آئیں اور کب ہم نکلیں ،اتنے میں ہمارے ڈرائیور نے مخالف سمت سے آنے والی ٹریفک کی پرواہ کئے بغیر گاڑی آگے بڑھا دی کہ آگے موڑ پرجہاں تیس گاڑیاں ٹریفک کا قانون توڑے کھڑی ہیں وہاں اکتسویں ہم ہو گئے تو کیا ہوگا، ویسے بھی وہ جانتا تھا کہ نیوز چینل کی گاڑی پر ہے چالان ہو گا نہیں ،لیکن اس دن کچھ اور ہو گیا ،ہم وہاں سامنے سے آنے والی ٹریفک کا راستہ روکے کھڑے تھے کہ ایک ساٹھ ستر برس کے سفید ریش بزرگ آستینیں چڑھائے بڑبڑاتے ہوئے آئے اوراس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھتے انہوں نے آتے ہی ہماری گاڑی کے ڈرائیور کو مکا جڑ دیا اسکے بعدوہ پیچھے بیٹھے کیمرہ مین کی طرف بڑھے لیکن وہ ہوشیار ہو چکا تھا اسکی بچت ہوگئی میں گاڑی کا درواز ہ کھول کر نیچے اترا کہ پوچھوں ہوا کیا ہے اتنے میں آس پاس کھڑے لوگ بھی آگئے انہوں نے بابا جی کو قابو کر لیاوہ بپھر ے ہوئے چلانے لگے نہیں چھوڑوں گا کسی کو بھی نہیں چھوڑوں گا ،سارا روڈ جام کیا ہوا ہے ،انسانیت نہیں ان میں…یہ بظاہر ایک معمولی سا واقعہ تھالیکن معاشرے میں پھیلے ہوئے غصے اضطراب اور بے چینی کا اظہار کر رہا تھا۔ ہماری پوری سوسائٹی اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے ،ایک جانب مہنگائی کا عفریت ہے دوسری جانب ضروریات زندگی کا فقدان ہے ۔پھر معاشرے میں پھیلی ناانصافی جلتی پر تیل کاکام کر رہی ہے۔ ہر آنے والا دن اس دباؤ میں اضافہ ہی کرتا ہے اور معاشرے میں بننے والی اسٹیم بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔ معاشرے کا ہر فرد اپنی اپنی جگہ یہ دباؤ محسوس کر رہا ہے اگرچہ اس دباؤ کی نوعیت ہر جگہ مختلف ہے۔ راولپنڈی کے دس جماعت پاس دودھ فروش شاہد عباسی کے اشو ز کچھ اور ہوں گے اور بہاولپور میں زرعی ادویات بیچنے والے مڈل پاس شاہدعباسی کے اس سے بالکل مختلف، وہ ان کا اظہار بھی مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔ دودھ فروش کسی کو منہ بھر کر گالیاں دے لے گا ،کسی گاہک سے الجھ پڑے گا اور زرعی ادویات بیچنے والا کسی کاشت کار سے لڑتے ہوئے اپنا جوتا اتار کر غصہ نکال لے گا یہ عام سی بات ہے۔ ہم اپنے اردگرد اس طرح کے کئی واقعات دیکھتے رہتے ہیں لیکن اسے کیا کہا جائے کہ لارنس کالج مری ،یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اورجارج یونیورسٹی واشنگٹن سے فارغ التحصیل شاہد خاقان عباسی بھی اب اسی طرح بات کریں گے ؟ تھڑوں ، گلی کے نکڑوں پر کھڑے لونڈے لپاڑوں کی طرح ابے تبے کریں گے اور ملک کے ایوان کا تقدس ہوا میں اڑا کر اسپیکر قومی اسمبلی کو جوتے مارنے کی تڑی لگائیں گے! میرے لئے شاہد خاقان عباسی سے منسوب ان الفاظ پر یقین کرنا مشکل تھا ،میں نے انہیں ہمیشہ ایک سلجھا ہوا،شائستہ انسان پایا ہے ،وہ پڑھے لکھے سیاستدان ہیں سب سے اچھی بات یہ کہ انہوںنے جس مسلم لیگ سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا تھا آج بھی اسی پلیٹ فارم پر ہیں۔ انکے دامن پر لوٹے کے پانی کی کوئی چھینٹ نہیں ۔میں نے انہیں کبھی چیختے چلاتے دیکھا نہ ذاتیات پر اترتے دیکھا۔ اس لئے جب ایک نیوز چینل پر ان سے منسوب یہ جملے دیکھے تو حیران رہ گیا ،یقین نہ آیا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کی وہ فوٹیج نکالی ور جب دراز قامت عباسی کو اتنے پست انداز میں بات کرتے دیکھا توحیرت اور دکھ کے ساتھ یقین نہ کرنے کی وجہ نہ رہی پھر بھی میں نے خود سے کہا کہ بندہ بشر ہے روزہ لگ گیاہوگا۔ان ہی کی طرف سے یہ عذر بھی تراش لیا کہ سو طرح کے مسائل ہوتے ہیں ان پر احتساب عدالت کا کیس بھی ہے ،پی ڈی ایم کے اہم ذمہ دار ہیں ،اپوزیشن کے اس جوڑ میں جیالوں کے ’’کلٹی ‘‘ مارنے سے بھی دل برداشتہ ہوئے ہوں گے ،کورونا کی وجہ سے بزنس ٹھپ ہوگا خود ہی سے یہ بھی کہا کہ غصہ اترجائے گا تو یقینا ایک اچھے باظرف انسان کی طرح معذرت کرلیں گے لیکن افسوس کہ میرا یہ حسن ظن گھنٹوں سے زیادہ نہ رہ سکا۔ 23اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس پھر بلایاگیا،اجلاس سے پہلے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا ،اجلاس میں لیگی اراکین اسمبلی نے اسپیکر سے کی جانے والی ’’جرتمندی ‘‘ پر ان کی کمر ٹھونکی انہیں کہا کہ اسپیکر اسمبلی کے شوکاز پر معذرت مانگنے کی قطعاضرورت نہیں ،اسپیکر کی یہ مجال نہیں کہ وہ سابق وزیر اعظم اور پی ڈی ایم کے مرکزی رہنما کو اجلاس سے نکال دے،ارکان نے کہا کہ آپ کو نکالا تو ہم بھی ساتھ ہوں گے اس ہوا بھرائی کا وہی نتیجہ نکلا جو نکلنا چاہئے تھا، شاہد خاقان عباسی صاحب اپنی بات پر ڈٹ گئے کہا کہ میں نے جو کہا تھا درست کہا تھا معافی کس بات کی ؟ یہی نہیں شاہد خاقان عباسی صاحب نے اجلاس کے بعد نیوزکانفرنس میں بھی کہا کہ قومی اسمبلی اسی طرح سے چلائی گئی تو جو کہا ہے کر گزروں گا۔دوسرے لفظوں میںجوتا اتار کر دے ماروں گایعنی اب قومی اسمبلی میں دو مزے ہوا کریں گے قانون سازی کے ساتھ ساتھ تن سازی کے مقابلے بھی منعقد ہوں گے، کبڈی ملاکھڑا بھی ہوگا، جوتے ماری بھی ہوگی۔۔۔ایسا ہے تو اسمبلی اجلاس کو آن ائیر کرنے کے حقوق مارکیٹ میں رکھ دیئے جائیں ،اچھا خاصا دھندا ہوجائے گا ۔۔۔یقین نہیں آتا کہ ایک سنجیدہ متین پڑھا لکھا شخص جو وزارت عظمٰی کے منصب پر بھی بیٹھ چکا ہو وہ اس طرح کی سطحی گفتگو کیسے کرسکتا ہے ؟ اپوزیشن اور حکومت کا تعلق کہیں بھی کسی بھی ملک میں خوشگوار نہیں ہوتا۔ اپنے وطن عزیز میں تو ہمیشہ ہی سے حکومت اور اپوزیشن میں اینٹ اور کتے کا بیر رہا ہے جس میں طرفین دوسرے کو موخرالذکرہی سمجھتے ہیں لیکن یقین نہیں آتا کہ نوبت ایوان میں ایک دوسرے کو جوتے مارنے کی دھمکیوں تک کی آجائے گی ،حکومت کے درشت رویے کی وجہ سے ایوان چلانے کے لئے ضروری ورکنگ ریلیشن شپ پہلے ہی نہیں تھی اب شاہد خاقان عباسی صاحب جیسے معتدل سیاست دانوں کی طرف سے ایسے بیانات کیا گل کھلائیں گے اسکا اندازہ دو تین روز میں ہی ہوجائے گا۔ یقینا بات بڑھے گی اتنی تو بڑھ ہی چکی ہے کہ عباسی صاحب کا نام معتدل ،بردبار ،سنجیدہ مزاج سیاست دانوں کی فہرست سے رانا ثناء اللہ ،طلال چوہدری ،خواجہ آصف ،فیاض الحسن چوہان اورشہباز گل کی فہرست میں آگیا ہے۔ تبدیلی سرکار سے معرکے میں یہ تبدیلی انہیں مبارک ہو !