جب ان کی اس روش کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے تو ہمدردی بٹورنے کیلئے اظہار آزادی رائے کو آڑ بناکر مسلمانوں کے رویہ کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ ناموس رسالت ؐکے حق میں مسلمانوں کے ردعمل کو جمہوریت کے لئے خطرناک بتاتے ہیں۔ مگر یہی نام نہا ددانشور‘ ادیب ‘ مصنفین اور ٹی وی اینکر اپنے ملک کے اندر ہی اظہار رائے کی آزادی کا گلاگھونٹے جانے کے متعدد واقعات پر چپ سادھ لیتے ہیں ‘ گویا انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ابھی جس طرح پورے ملک میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر انکو حراست میں لیا گیا، اسکو یہ حق بجانب ٹھہرا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ملکی سلامتی کا معاملہ ہے ،کیونکہ یہ افراد دلتوں، قبائلیوں اور مسلمانوں کے خلاف ہورہے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ چار سال قبل فلم ساز نتیشا جین ‘ صحافی پرینکا بورپوجاری اور ستین باردولائی کو جب چھتیس گڑھ کے دانتے واڑہ میں گرفتار کیا گیا تو کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔وہ قبائلیوں پر ہونے والے مظالم اور نکسلی اور نکسل مخالف کارروائیوں کا جائزہ لینے گئے تھے۔ اظہار رائے کی آزادی کے یہ ’’مجاہد‘ ‘اس وقت بھی خاموش رہے جب 2010 ئمیںامریکی مصنف اور دانشور پروفیسر Richard Shapiro کو حکومت بھارت نے کوئی وجہ بتائے بغیر ویزا دینے سے انکار کردیا۔2010ء میں ہی جب مشہور براڈکاسٹر David Barasmian اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلے میں بھارت پہنچے تو حکومت نے انہیں اندرا گاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے سے ہی بیرنگ واپس لوٹا دیا۔کشمیر جانے کیلئے تو اب بھارتی وزارت خارجہ نے غیر ملکی نامہ نگاروں کے داخلہ پر ہی پابندی عائد کی۔ حقوق انسانی کے مشہور کارکن گوتم نولکھا، جن کے گھر پر ریڈ کرکے انکو فی الحال حراست میں لیا گیا ، اس سے قبل وہ 2011 ء میں بھی عتاب کا نشانہ بنے تھے۔ جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ چھٹیاں منانے گلمرگ جانا چاہ رہے تھے تو سری نگر ہوائی اڈہ پر انہیں رات بھر حراست میں رکھنے کے بعد دہلی لوٹنے کے لئے مجبور کردیا گیا۔2015 ء میں بھارت میں ایک اور ادیب اوراس کے ناول پر پابندی لگادی گئی ہے۔یہ تامل زبان کے ناول نگار رپرومل موروگن تھے۔ان کے ناول کے انگریزی ترجمے پر اس وجہ سے پابندی لگادی گئی ہے کہ اس میں موروگن نے ہندو مذہب کی قدیم رسم ’’نیوگ‘‘ کے بارے میں لکھا ہے۔ ناول نگار نے اس رسم پر نکتہ چینی کی ہے۔نیوگ رسم کے مطابق کوئی بے اولاد عورت بچہ پیدا کرنے کے لیے کسی غیر مرد یا پنڈ ت سے جنسی تعلقات قائم کرتی تھی اورا س رسم کو سماجی قدیم بھارت میں قبولیت حاصل تھی۔موروگن نے اس ناول میں ذات پر مبنی طبقاتی کشمکش اور ظلم اور معاشرے کی برائیوں پر نکتہ چینی کی ہے جس سے ایک خاندان بکھر جاتا ہے اور ان کی ازدواجی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ان پر اتنی نکتہ چینی ہوئی اور ہوا ا س قدر برہم ہوئی کہ انہوں نے نہ صرف آئندہ قلم نہ اْٹھانے کی قسم لی بلکہ ناول کے ناشرین کو اس کی تما م کتابیں جلانے کی استدعاکی ۔ یہ تو صرف چند واقعات ہیںجن کا ذکر برسبیل تذکرہ آگیا ہے ورنہ ایسے واقعات کی گنتی مشکل ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا سب سے بڑا علم یورپ میں بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے اس کی سب سے واضح مثال ہولوکاسٹ ہے۔ یہودیوں کے خلاف کوئی بات لکھنا یا ان کی مخالفت کرنا یا ہولوکاسٹ کو مفروضہ قرار دیناانتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ یورپی یونین نے تو اپنے رکن ملکوں کے لئے باضابطہ ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے کہ ہولوکاسٹ کو غلط قرار دینے والے ادیبوں یا مصنفین کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ جس میں ایک سے تین سال قید بامشقت کی سزا بھی شامل ہے۔ 2003 ء میں اس حکم نامے میں ایک اضافی پروٹوکول شامل کیا گیا جس میں ہولوکاسٹ کے خلاف انٹرنیٹ پربھی کچھ لکھنا قابل گردن زدنی جرم قرار پایا ہے۔ جن ملکوں میں ہولوکاسٹ کے خلاف کچھ بھی لکھنا انتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے ان میں آسٹریا‘ ہنگری‘ رومانیہ اور جرمنی شامل ہیں۔ حالانکہ المیہ یہ ہے کہ یہی ممالک یہودیوں کے خلاف کارروائیوں میں آگے آگے رہے تھے۔ آزادی اظہار کے حق کے تعلق سے زیادہ دیر تک تعصب اور منافرت اور دوہرے معیار کی عینک نہیں لگائی جاسکتی۔ سب سے اول میڈیا کی آزادی کے حدود کا تعین کرنالازمی ا مر ہے۔صحافت کومحض اسلام کی تضحیک سے یامسلم مخالف جنون کو مزید ہوا دینے کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر بقائے باہم ، کشادہ ذہنی اور مذہبی رواداری اور ایک دوسرے کے تئیں احترام کے جذبہ کو فروغ دیا جائے۔ مگر اس کے ساتھ بڑی ذمہ داری مسلمانوں پر خود عائد ہوتی ہے، جنہوں نے اسلام کے سماجی، معاشی نیز افکار و نظریات کے انقلاب کو عام کرنے کے بجائے اسکو مسئلکوں کے کوزے میں بند کرکے رکھ دیا ہے۔ مزید یہ کہ آوٹ ریچ کے ذرائع کو بند کرکے اپنے آپ کو ایک خول میں بھی بندکیا ہوا ہے۔ بائیں بازو کے ایک مفکر کوبڈ گاندھی جو دہلی کی تہاڑ جیل میں پارلیمنٹ حملہ میں پھانسی کی سزا پا چکے کشمیر ی نوجوان افضل گورو کے ساتھ کئی ماہ سیل میں ساتھ تھے، کا کہنا ہے کہ افضل کے ساتھ گفتگو کے دورا ن ان کو پتہ چلا کہ کمیونزم کے سماجی انصاف و برابری کا سبق تو اسلام 1400سال قبل سنا چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کو تفرقوں کے کوزے سے باہر نکال کر اپنے کردار و اعمال سے ثابت کریں کہ اسکے افکار و نظریات ہی واقعی انسانیت کی معراج ہے۔