پطرس بخاری نے کہا تھا کہ لاہور کے کاٹے کا علاج نہیں… کرشن چندر نے لکھا کہ لاہور آدمی کو بوڑھا نہیںہونے دیتا… لاہور کے بارے میں یہ بھی سچ ہے کہ یہ ایک بڑا شہر ہے جو چھوٹے لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے، بلکہ حکیم جی تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ کھچا کھچ لوگوں سے بھرا ہوا ہے… یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور جیسی رنگا رنگی شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے شہر میں پائی جاتی ہو کیونکہ جو بھی اس شہر سے بہ امر ِمجبوری و مغروری نکلا، وہ تمام عمر اس کافر حسینہ کے لیے مجنوں و فرہاد کی مانند آہیں بھرتا نظر آیا… لاہور باغوں، باغیوں، کالجوں، نالجوں، کھابوں، ڈھابوں، بابوں، خوابوں، خرابوں سے اٹا ہوا شہر تو ہے ہی لیکن اس شہرِ بے مثل کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ اس نے باہر سے آنے والے ہر کہ و مہ کو ہنس کے سینے سے لگایا … لوگ طلب ِعلم کے لیے آئے اور عالم بن کے نکلے… مولانا محمد حسین آزاد کو اسی لاہور نے مستقل گلے سے لگایا… اس نے سیالکوٹ کے محمد اقبال کو شاعرِمشرق بنا دیا… منشی غلام حسن کے میٹرک فیل بیٹے سعادت حسن کو منٹو کی شبیہ بخش دی… کالا قادر کے وکیل سلطان تتلہ کے فرزندِ ارجمند کو فیض احمد فیض کا روپ عطا کر دیا… خوشاب کا احمد شاہ یہاں احمد ندیم قاسمی بن کے جیا… ڈبائی کے ایک بے یارو مددگار مہاجر کو انتظار حسین میں ڈھال دیا… انبالہ کا ناصر رضا اس کی آنکھوں کے سامنے ناصر کاظمی بنا… منٹگمری کے محمد منیر کو کھلے دل سے منیر نیازی کی شناخت دی… غرض یہ کہ دلاور علی کو میرزا ادیب، شیر محمد کو ابنِ انشا، قدسیہ چٹھہ کو بانو قدسیہ، محمد اختر کو ساغر صدیقی، ملک واصف کو واصف علی واصف، عبدالحئی کو ساحر لدھیانوی، اورنگزیب خان کو قتیل شفائی،اللہ وسائی کو نورجہاں، رگھو پتی سہائے کو فراق گورکھپوری، غلام مصطفی کو صوفی تبسم اور حفیظ منہاس کو حفیظ تائب کی پہچان اسی شہرِ طلسمات کی دین ہے… پھر یہ بات بھی آپ سب جانتے ہیں کہ مولانا ظفر علی خاں، حمید احمد خاں، حفیظ جالندھری، مولانا صلاح الدین احمد، استاد دامن، کرشن چندر، فکر تونسوی، کنہیا لال کپور، احسان دانش، اشفاق احمد، مستنصر حسین تارڑ،سید عبداللہ، وحید قریشی، احمد مشتاق، حبیب جالب، ظفر اقبال، خورشید رضوی، عطاالحق قاسمی، خواجہ زکریا، رفیع الدین ہاشمی، تحسین فراقی جیسے اہلِ کمال کو علمی و ادبی عظمت اسی شہرِ دل پذیر کی بخشی ہوئی ہے۔ ناصر کاظمی نے سچ کہا تھا: شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو لاہور کی انھی ادبی فتوحات کی بنا پر یونیسکو نے حال ہی میں نہایت بجا طور پر اس شہر کو ’’ شہرِ ادب‘‘ قرار دیا ہے۔… لیکن اس کے ساتھ ہی ایک سروے میں اسے دنیا کے گندے ترین شہر کے لقب سے بھی نوازا گیا ہے … ایسی بلندی، ایسی پستی!! لاہور سے متعلق اس طرح کی متضاد خبریں کافی دیر سے سننے میں آتی رہتی ہیں۔اس کے لیے جہاں اربابِ بست و کشاد کو ہر ممکن مثبت اقدامات کرنے چاہئیں ، وہاں اس امر کی طرف بھی دھیان دینا از حد ضروری ہے کہ کیا یہ بھی کہیں ہماری گندی سیاست، بھارت کے مکروہ پن یا کسی بین الاقوامی سازش کا شاخسانہ تو نہیں؟ اس سلسلے میں دو نہایت ضروری امور کی سانجھ اپنے قارئین کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں… ایک تو یہ کہ گزشتہ برس کرونا سے ذرا پہلے جاپان سے مسٹر اور مسز چھِکارا جو جاپانی ایئر لائن میں پندرہ بیس برس پائلٹ رہے اور زیادہ تر ٹوکیو سے رنگون، ڈھاکا اور ممبئی ہی کی طرف محوِ پرواز ہوئے۔ یہ مہمان جوڑا میرے جاپان میں مقیم احباب کے ساتھ پاکستان کی سیاحت کے لیے آیا تھا، لاہور کے دیدار کی طلب میں یہ دونوں میاں بیوی ایک دن کے لیے ہمارے مہمان ہوئے۔ مَیں نے انھیں لاہور کے جدید و قدیم علاقے دکھائے۔ اس سلسلے میں ان کی بہت سی مزے دار باتیں اور تبصرے کسی وقت احباب کو بتائیں گے۔ فی الحال ایک متعلقہ بات یہ کہ ہم نے باتوں ہی باتوں میں ان سے دریافت کیا کہ ’لاہور آپ کو واقعی بہت گندا لگا؟‘ اُنھوں نے فوراً جواب دیا: ’’نہیں نہیں! دنیا کا سب سے گندا شہر تو ممبئی ہے۔‘‘ دلیل کے طور پر انھوں نے بتایا کہ جب ہم نے ممبئی میں لینڈ کرنا ہوتا تھا تو پانچ کلومیٹر اوپر سے ایک شدید بدبو کا احساس ہونے لگتا اور ہم ممبئی کو آنکھوں سے نہیں ناک سے پہچان لیتے۔ دوسری بات حال ہی میں لاہور کے بعض مقامات پر آلودگی کا انڈیکس جانچنے کے لیے نصب مشینوں کی مخدوش حالت اور مشکوک نتائج سے متعلق مختلف اخبارات میں شایع ہونے والی خبریں ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس رپورٹ کا مقصد کسی کے مذموم عزائم کو تسکین پہنچانا یا اس خوبصورت ترین تاریخی شہر یا شاید حکومت کو بدنام کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ اب چلتے چلتے ذرا اسی شہرِ لاہور سے متعلق رحمان فارس کا یہ خراج بھی سن لیں۔ رحمان فارس ہمارے چھوٹے بھائی، من موہنے شاعر اور ہونہار افسر ہیں، لاہور کی محبت میں گوڈے گوڈے غرق رہتے ہیں، وہ لکھتے ہیں: ڈھونڈتا پھرتا ہوں لوگوں سے بھرے لاہور میں کچھ پرانے یار مل جائیں نئے لاہور میں دانہ پانی ڈھونڈنے سب جا بسے ہیں دُور دیس کیا زمانہ تھا کہ سارے دوست تھے لاہور میں فیض ، منٹو اور منیر ، اقبال ، ناصر اور ندیم ہائے کیا کیا ولولے آباد تھے لاہور میں دو ہی شہروں میں ہیں اچھی آنکھیں ہندوستانیو! یا تمھارے لکھنو میں یا مِرے لاہور میں یہاں تک تو سب مزے دار، طرح دار، ٹھسّے دار تھا۔ اس پہ یقیناً لاہور سے دور اور لاہور سے محبت کرنے والے ہر ذی روح کا جی بھر آیا ہوگا لیکن ان کے اس شعر: مَیں نے مَنّت مان لی ہے آج داتا کے حضور دیکھنا تم جلد واپس آؤ گے لاہور میں کے بعد معاملہ اس وقت لاہور کے سٹیٹس ہی کی طرح مشکوک ہو گیا جب فارس نے فیس بک پہ جناب عطا الحق قاسمی سے منسوب بیان شیئر کیا کہ یہ شعر لندن میں بیٹھے ان لوگوں کو سب سے زیادہ پسند آیا ہے کہ ’جن کی پاکستان تو کیا دنیا کے کسی ملک میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔‘ اس پوسٹ پہ بڑے بڑے دلچسپ اور خطرناک تبصرے دیکھنے کو ملے۔کسی نے کہا کہ یہ وہی پیدائشی لاہوری ہیں جنھوں نے یہاں سے سب کچھ حاصل کرنے کے باوجود یہاں مشن اور کمشن اورینٹڈ میٹرو بس، اور کک بیک والی اورنج ٹرین تو بنائی لیکن کوئی ایسا ہسپتال نہ بنایا جس میں ان کا اپنا ہی علاج ہو سکے۔ اس پر سب سے مزے دار تبصرہ اپنے حکیم جی کا تھا، جنھوں نے فرمایا: یہ مَنّتوں سے نہیں ہمیشہ کی طرح مِنّتوں سے لاہور آئیں گے یا پھر دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کل کلاں کو لندن ہی کا کوئی ڈاکٹر بھائی پھیرو والے ڈاکٹر کی سی شکل بنا کے کہے: اینے نئیں جے بچنا، اینوں لہور لَے جاؤ !!!