جس دن مجھے ان کے موت کی منحوس خبر موصول ہوئی؛ اس دن میں نے اس شام کو بہت یاد کیا تھا جس شام ہم کراچی آرٹس کونسل میں شیخ ایاز کے اردو کلام کو ضیاء محی الدین کی آواز میں پیش کرنے کا پروگرام منعقد کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ انہوں نے پروگرام میں شرکت کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ میری ڈاکٹر سے اپوائنٹمینٹ ہے۔ میں وہاں سے سیدھا آرٹس کونسل آؤں گا اور وہ اپنے خطاب سے چند لمحے قبل پہنچ گئے۔ وہ جن کو ہم نے کراچی کے اس تعلیمی ادارے میں شیخ ایاز کے پروگرام میں شرکت کرنے کی دعوت دی تھی؛ جہاں وہ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کو اردو پڑھاتے تھے۔ اس ملاقات میں انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ضرور آؤں گا اور اپنے ساتھ اپنے چند اسٹوڈنٹس کو بھی لاؤں گا۔ انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ انہوں نے یونیورسٹی کے اردو سلیبس میں شیخ ایاز کے بھی چند اشعار شامل کیے ہیں۔ وہ شخص اب اس دنیا میں نہیں رہا جو ادب کے معرفت پورے ملک میں بکھرے ہوئے لوگوں کو جوڑنے کی کوشش کرتا تھا۔ عالمی ادب کی کلاسیکل کتابیں اس نے کتنی پڑھیں تھیں؟ مجھے نہیں معلوم مگرمجھے اس بات کا علم ہے کہ اس کی جدید عالمی ادب پر گرفت تھی۔ اس نے یورپ اور ایشیامیں شائع ہونے والے جدید ناولوں کو خوبصورت اردو میں ترجمے کی صورت پیش کیا۔ اس لیے کہ انہیں اردو پر بھی بڑا عبور تھا۔ ان کی انگریزی بہت اچھی تھی مگر انہوں نے اپنے اظہار کے لیے اردو کا انتخاب کیا۔ وہ دبتلا پتلا شخص جس نے ادبی الفاظ میں احساسات کی طاقت کو اپنے وجود میں مکمل طور پر سمایا تھا وہ شخص اتنا اصول پرست اور ایماندار تھا کہ اس نے ادب کے بارے میں کبھی کسی قسم کا سمجھوتہ برداشت نہیں کیا۔ وہ ادب کو غیرمعمولی طاقت سمجھتے تھے۔ وہ الفاظ سے آشنا تھے ۔ ان کو یہ بھی علم تھا کہ الفاظ کی بڑی حرمت ہوتی ، بڑی عزت ہوتی ہے۔ انہوں نے الفاظ کی عزت کے تحفظ میں کبھی کوئی قدم پیچھے نہیں ہٹایا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی ادب کے لیے وقف کر دی تھی۔ وہ ملازمت بھی کرتے رہے اگرچہ انہوں نے کسی ملازمت کو اپنے لیے مستقبل کی منزل بننے نہیں دیا۔ اس کی چاہت ادب سے تھی۔ انہوں نے آخری دم تک اس چاہت کو نبھایا۔ وہ چاہتے تو اپنے آپ کو بہت زیادہ مشہور کر سکتے تھے۔ اس دور میں تو اپنی شہرت کا بیڑہ اٹھانا اکثریت نے شروع کیا ہے مگر وہ اس اقلیت سے تھے جو ہمیشہ مقصد کو اہمیت دیتی ہے۔ ان کے بارے میں جب میں سوچتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کوشش اردو ادب کو جدید دور میں داخل کرنے کی تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے شہرزاد کے نام سے سہہ ماہی ادبی میگزین کی ابتدا کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے نوبل انعام یافتہ ادیبوں کی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس میں ملازمت کرتے ہوئے اس ادارے کے معرفت کتابوں کے عشاق کو بڑی خوبصورت تراجم کا تحفہ دیا۔ اردو ادب کی دنیا اس شخص کو کس طرح فراموش کر سکتی ہے جس کا نام آصف فرخی تھا۔ جس نے اس دور میں ادب کا پرچم اوپر اٹھایا جس دور میں ادب کے بارے میں زوال کے نظریات پیش کر رہے تھے۔ ان حالات میں جب انہوں نے کراچی لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کیا تو لوگوں نے اس عمل کو ان کی دیوانگی قرار دیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے چند برسوں میں ثابت کیا دنیا کو صرف دیوانے تبدیل کر سکتے ہیں۔ وہ KLF یعنی کراچی لٹریچر فیسٹیول کے بانی تھے۔ اس ادبی میلے کاتصور آصف فرخی کا تھا انہوں نے اس میلے کو کامیاب کرنے کے لیے بڑی محنت کی۔ انہوں نے بظاہر ایک ناممکن کام کو ممکن کرکے دکھایا۔ اتنی محنت اور مشقت کا سبب کیا تھا۔ انہوں نے پوری زندگی دولت کا پیچھا نہیں کیا۔ وہ ادب کے عاشق تھے اس لیے انہوں نے جو بھی محنت کی وہ ادب کے لیے کی۔ ان کو معلوم تھا کہ ادب میں دولت نہیں ہے مگر ان کی محبت دولت سے نہیں ادب سے تھی۔ وہ اس محبت میں سچے تھے۔ اس لیے وہ مختصر عرصے میں کمال کرنے میں کامیاب ہوئے۔ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کی کسی بھی طرح ادب اور عوام کا آپس میں سنگم کرائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کبھی زباں کا تعصب نہیں رکھا۔ جہاں بھی خوبصورت ادب حاصل ہوا انہوں نے اس طرف اپنا قدم بڑھایا۔ اس سلسلے میں وہ مرزا غالب کی مانند تھے۔ آصف فرخی بھی ادب کی دنیا میں تعصب کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔انہوں نے جس بھی شاعر میں یا ادیب اور ناول نگار میں صلاحیت دیکھی؛ اس کو دنیا کے سامنے بھرپور انداز سے پیش کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ان کی وفات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کراچی لٹریچر فیسٹیول کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی سابقہ سربراہ امینہ سید نے کہا ہے کہ آصف فرخی کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ KLF کے اسٹیج پر ان باصلاحیت نوجوانوں کو آگے لائے جن کو لوگ کم جانتے تھے۔وہ اپنے کام میں محو رہتے تھے۔ انہوں نے ایک شخص ہوکر ایک ادارے جتنا کام کیا۔ جب انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کو خیرآباد کہا تب انہوں نے کراچی میں ایک اور ادبی میلا سجانے کے لیے کمر کس لی۔ وہ دن رات کام کرنے والے شخص تھے۔ جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ کیوں نہیں تھکتے؟ تب وہ مسکرا کر کہتے کہ میں اس لیے نہیں تھکتا کیوں کہ میں اپنی پسند کا کام کرتا ہوں۔ آصف فرخی کو اپنے ملک سے محبت تھی مگر وہ ادیبوں اور شاعروں کی طرح اپنے شہر سے عشق کرتا تھا۔اس کا خواب تھا کہ وہ کراچی کو ایک مہذب اور آرٹ سے محبت کرنے والے شہر میں تبدیل کرے۔ اس لیے انہوں نے اپنے پہلے ادبی میلے کا نام کراچی لٹریچر فیسٹیول رکھا تھا۔ جب کراچی بدامنی کی آگ میں جلتا تھا اس وقت آصف فرخی بہت اداس رہتے تھے مگر انہوں اس اداسی میں بھی کراچی کو آگ میں جھونک دینے والے اسباب کو ادب کے معرفت عوام کے سامنے لانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ بڑی عام سی بات ہے کہ لوگ ادب یا صحافت کو سیڑھی کی طرح استعمال کرتے ہیں مگر آصف فرخی اس وبا سے پاک تھے۔انہوں کی پہلی اور آخری محبت ادب کو بنایا اور وہ اس محبت کے ساتھ وفا کی علامت بن کر جیتے رہے۔ انہوں نے کبھی دولت؛ شہرت اور طاقت کے لیے ادب کا سودا نہیں کیا۔وہ ادب کی عصمت کے بارے میں بڑی جذباتی تھے۔ دنیا میں جہاں بھی ادب پر زوال آیا ہے اس کا سبب یہ رہا ہے کہ ادب کی عزت اس طرح سے نہیں کی گئی جس طرح سے کی جانی چاہئیے۔جب ادب کی عزت نہیں کی جاتی تب ادب کی روح ختم ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں ادب اثر انداز نہیں ہوتا۔ ادب میں اثر پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ادب کو وہ حیثیت دی جائے جس کا ادب حقدار ہے۔ آصف فرخی نے پوری زندگی ادب کا حق ادا کیا۔ان کے جانے سے اردو ادب میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے۔ وہ خلا ممکن ہے کہ کوئی بھرنے میں کامیاب ہو ۔ اس وقت تو ان کے جانے کے بعد کراچی کے ادبی حالات پر فیض احمد فیض کا یہ شعر بہترین تبصرہ ہے: ’’ہم سہل پسند کون سے فرہاد تھے لیکن اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے؟‘‘