وفاقی کابینہ نے مہنگائی اور عام آدمی کے معاشی بوجھ میں کمی کے لئے گیس اور بجلی کے نرخوں کو کچھ مدت تک منجمد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں وفاقی کابینہ نے پٹرول و ڈیزل کی موجودہ قیمتوں کو چندماہ تک برقرار رکھنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے اراکین کابینہ سے کہا کہ انہیں عوام کی مشکلات کا احساس ہے اور اب حکومتی فیصلوں میں عام آدمی کے لئے ریلیف نظر آئے گا‘ عوام پر نئے ٹیکس نہیں لگیں گے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ دالوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی چھوٹ کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ فی زمانہ معاشی پالیسیوں کی اہمیت دفاعی حکمت عملی جیسی ہو گئی ہے۔ مسلح افواج کسی ریاست پر حملہ کرتی تھیں‘ہزاروں اور لاکھوں لوگ مر جاتے تھے۔ ریاست کے حکمران تبدیل ہو جاتے‘ کئی بار جغرافیہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ آج کے دور میں کسی ریاست کی معیشت کمزور ہو تو اس کی خود مختاری دائو پر لگ جاتی ہے۔ وہ اپنے عوام کی بہبود کے لئے فیصلے کرنے سے قبل آئی ایم ایف کو راضی کرتا ہے۔ معاشی پسماندگی ایک ریاست کے لئے خارجی و داخلی سطح پر جس طرح کے مسائل پیدا کر سکتی ہے وہ سب مشکلات پاکستان کو گھیرے ہوئے ہیں۔ ان مشکلات سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت بدخواہ قوتوں کے ہدف پر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو عشرے پہلے جب ملک میں بجلی کی قلت نمودار ہونے لگی اور اس وقت کی حکومت نے نجی کمپنیوں کو بجلی پیدا کرنے کے لائسنس دیے تو باخبر حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان کی صنعتی مصنوعات کی پیداواری لاگت بڑھ جائے گی اور یہ اشیا بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔ تب سے لے کر آج تک کے برآمداتی اعداد و شمار کی پڑتال کریں تو وہ خدشات حقیقت معلوم ہوتے ہیں۔ گزشتہ دس بارہ برسوں کے دوران ایک عجیب روایت پروان چڑھی۔ حکومت کو عالمی اداروں کی ہدایت پر تیل‘بجلی اور گیس کی قیمتوں کے تعین پر اپنا کنٹرول ریگولیٹری اداروں کو منتقل کرنا پڑا۔ حکومت کو اس کا کچھ فائدہ بھی ہوا کہ ایندھن کی قیمتوں میں ہر پندرہ دن بعد ہونے والی کمی بیشی کا سارا الزام ان ریگولیٹری اداروں کے سر پر ڈال دیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ6ارب ڈالر کے بیگ آئوٹ پیکیج کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کی وجہ سے پاکستان کو مالیاتی مشکلات میں وقتی طور پر سہولت میسر ہوئی ہے لیکن ایک نقصان یہ ہوا کہ آئی ایم ایف نے بجلی‘ گیس اور تیل کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے والے اداروں کے لئے ایسے ضابطے لانے کا مطالبہ کر رکھا ہے جس سے یہ ادارے حکومت سے زیادہ آئی ایم ایف کی ہدایت کے پابند ہو سکتے ہیں۔ تیل‘گیس اور بجلی کا صنعتی استعمال آسان اور بلاتعطل ہو تو صنعت ترقی کرتی ہے۔ وقفے وقفے سے پاکستان میں ایسی پالیسیاں متعارف کرائی جاتی رہی ہیں جن کی وجہ سے یہ تینوں ایندھن مہنگے ہوتے رہے۔ پالیسی ساز حلقوں نے ایندھن کے شعبے میں کسی ایک کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے مکس فیول پالیسی لانے کی بات کی۔ اس پالیسی کے تحت تیل پر سارا انحصار کرنے کی بجائے بجلی پیدا کرنے کے لئے ہوائی‘آبی سولر اور ایٹمی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جانا تھا۔ مسلم لیگ کی سابق حکومت نے کھربوں روپے اس پالیسی میں بلا منصوبہ بندی کے جھونک دیے۔ بہاولپور میں قائد اعظم سولر پارک قائم کیا گیا۔ بتایا گیا کہ یہ 1000میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ تیاری کے بعد یہاں سے چند میگاواٹ بجلی ملی۔ ہر ماہ اور پندرہ دن کے بعد ایندھن کی قیمتوں میں تبدیلی کی جانے لگی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ پہلے جن منصوبوں کے لئے سالانہ بنیادوں پر منصوبہ بندی کی جاتی تھیں اب ہر پندرہ دن بعد نئی قیمتوں کے اعلان کے باعث اس منصوبہ بندی پر عمل کرنا ممکن نہ رہا۔ جلدی جلدی قیمتوں میں تبدیلی ایک بھونچال کی طرح ہوئی ہے جس نے ٹرانسپورٹ کرایوں‘اشیاء کی پیداواری لاگت‘ برآمداتی حجم اور روزمرہ گھریلو اخراجات کو بری طرح متاثر کیا۔ وزیر اعظم نے ڈیڑھ سال تک خارجہ اور سفارتی معاملات پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی سفارتی تنہائی ختم ہوئی‘ امریکہ سے ورکنگ ریلیشن شپ بحال ہوئی۔ ملائشیا اور ترکی کے ساتھ مل کر ترقی کے اہداف حاصل کرنے پراتفاق ہوا اور تنازع کشمیر پر عالمی برادری کی حمایت حاصل ہوئی۔ داخلی سطح پر حکومت کے سامنے متعدد مشکلات ہیں۔قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت نے وسائل ہڑپ کرنا شروع کر دیے ہیں۔ وہ رقوم جو عوام کی زندگی میں آسانیاں لانے کے لئے مختص کی جا سکتی تھیں وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں جا رہی ہیں۔ یہ صورت حال کسی لحاظ سے اچھی نہیں۔ اس بری صورت حال میں جو چیز قوم کو حوصلہ دیتی ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عوام کی مالی مشکلات کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ بجلی‘تیل اور گیس کے نرخ اگر چند ماہ تک ایک سطح پر برقرار رہتے ہیں تو معیشت کو بحال کرنے کے دوسرے منصوبوں میں اس کے مثبت اثرات ضرور ظاہر ہوں گے۔ تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی‘ پیداواری عمل میں وسعت آئے گی۔ روپیہ گردش میں رہے گا اور معیشت کی سست رفتاری کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ وزیر اعظم کے محروم طبقات کے لئے فیصلے قابل ستائش ہیں تاہم ان فیصلوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ضروری ہے کہ نگرانی کا عمل کڑا بنایا جائے تاکہ حکومتی رعائتوں کا فائدہ مستحق افراد تک پہنچے۔