میں 2012 میںیورپ سے پاکستان شفٹ ہوا لیکن یہاں آکر پرہجوم سڑکوں، بازاروں، گلیوں، ہاؤسنگ سوسائٹیز کی کھچڑی اور ہوٹلوں میں بے ذائقہ اورغیر معیاری کھانے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ میں نے لوگوں کو نظم و ضبط کے بغیر بڑے بڑے مالز اور شاپنگ سینٹرز میں خریداری کرتے اور نوجوانوں کو سکولوں اور کالجوں کی جانب بے ہنگم انداز میں بھاگتے ہوئے دیکھا۔ میں نے بس اسٹینڈ تک پہنچنے کے لیے ٹیکسی لی، سفر دھویں سے بھرا ہوا تھا اور بس اسٹینڈپر پہنچنے تک مجھے سانس لینے میں خاصی دشواری محسوس ہوئی۔ 10 کلومیٹر کا فاصلہ ایک بڑا چیلنج تھا جسے میں نے بھاری ٹریفک کی وجہ سے 40 منٹ میں طے کیا۔ راستے میں مجھے پیدل چلنے والوں کیلیے کوئی فٹ پاتھ/ واکنگ ٹریک نہیں دکھائی دیا اور نا ہی کوئی ٹریفک سگنل ملے اور اگر کہیں موجود بھی تھے تو لوگوں نے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ میں نے لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر جی ٹی روڈ سے طے کیا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ لاہور کہاں ختم ہوا اور گوجرانوالہ یا گجرات کی حدود کہاں سے شروع اورکہاں پر ختم ہوئی۔ جی ٹی روڈ بہت مصروف تھی اور لوگ عجلت میں تھے۔ مجھے سرسبز و شاداب کھیت اور زرعی زمینیں کہیں دکھائی نہیں دیں، جو میں نے ماضی میں اکثر دیکھی تھیں۔ بلکہ میں نے جا بجا ہاؤسنگ سوسائٹیز اور مختلف رہائشی اسکیموں کے بہت زیادہ بورڈ دیکھے۔ یورپ میں قیام کے دوران مجھے اکثر پاکستانی کھانوں کی بہت کمی محسوس ہوتی تھی لیکن میں نے پاکستان واپسی پر اپنے روایتی کھانوں میںوہ پہلے جیسا مزہ اور ذائقہ محسوس نہیں کیا۔ میں نے اپنے ایک دوست سے اسکی وجہ دریافت کی، جس نے زرعی علوم میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے اس نے بتایا کہ کیڑے مار ادویات، کھاد، زہریلے اسپرے اور ہائبرڈ بیج نے کھانوں کا ذائقہ بدل دیا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اگر ہم کیڑے مار ادویات، جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں کی کھادیں استعمال نہیں کریں گے تو ہمارے پاس اتنی پیداوار نہیں ہے کہ وہ اپنی آبادی کی خوراک کوپورا کرسکے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز نے زرخیز زرعی زمینوں پر قبضہ کر کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو تو خوب چمکا دیاہے لیکن نتیجہ خوراک کی کمی اور غیر معیاری کھانوں کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ بچ جانے والی زمین سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کیلئے کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے مزید ستم یہ کہ اس خوراک کو سیوریج کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے نتیجتاً ہماری آبادی کی اکثریت غیر معیاری اور مضر صحت کھانا کھانے پر مجبور ہے۔ 2000 کے اوائل میں، پاکستان میں 140 ملین کی آبادی بڑھتے بڑھتے بالآخر 2019 میں 220 ملین تک پہنچ گئی۔ 20 سالوں میں تقریباً 60 سے 80 ملین افراد کا اضافہ ہوا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اس خطے میں آبادی کی شرح باقی خطوں کی نسبت÷3.65 زیادہ ہے لہٰذا یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2050 میں آبادی 310 ملین یا اس سے زیادہ ہوگی اور یہ بغیر کسی کنٹرول کے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ نتیجتاً ہمارے پاس غیر منظم ہاؤسنگ سوسائٹیزکی بھرمار اور معیاری خوراک کی شدید قلت ہے۔ بہرحال یہ امر طے ہے کہ اگر ملکی آبادی میں نوجوان طبقہ اکثریت میں ہوتو یہ آبادی ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور یہ نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، چین نے اپنے نوجوانوں کو ملک کی تعمیر و ترقی کا اہم ستون جانتے ہوئے انکو صحیح سمت پر گامزن کیا،انکی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور آج وہ دنیا کی بڑی اقتصادی طاقت بن گئے ہیں۔ چین نے نوجوان آبادی کو تکنیکی مہارتیں فراہم کیں اور ان نوجوانوں نے معاشی پیداوار میں اپنا حصہ ڈالا۔ تاہم، مالتھوسیئن نے اس شدید اندھا دھند بڑھتی ہوئی آبادی کو دنیا کیلئے ایک خطرناک دھماکہ قرار دیا ہے۔ مالتھوسیئن تھیوری آف پاپولیشن، شرح آبادی میں اضافہ اور خوراک کی فراہمی میں صحیح تناسب کا نظریہ ہے۔ یہ نظریہ تھامس رابرٹ مالتھس نے پیش کیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ احتیاطی تدابیر اور مثبت جانچ کے ذریعے آبادی میں اضافے اور خوراک کی فراہمی کے درمیان توازن قائم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی، رہائشی کالونیوں کی بھرمار اور معیاری خوراک کی کمی کے ایک بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے بھی کہ ملک میں کافی کھانا / خوراک دستیاب ہے، لیکن عام آدمی تک اس خوراک کی منصفانہ تقسیم کا کوئی نظام موجود نہیں ہے نتیجتاً بہت سے لوگ کھانے سے محروم ہیں۔ امریکہ زیادہ خوراک پیدا کر رہا ہے اور وہ اپنا کھانا پاکستان کے ساتھ کیوں بانٹے؟ وہ دوسرے ملک کو خوراک دینے کے بجائے تباہ کرنے کوترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان میں خوراک کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے بے تحاشہ استعمال سے زہر آلود ہو چکی ہے اور معاشرے میں جان لیوا بیماریوں کا سبب بن رہی ہے۔ 1980 اور1990کی دہائی میں ہمارے پاس اچھی معیاری خوراک موجودتھی۔ خاص طور پر سبزیاں اور پھل کیڑے مار ادویات اور زہریلی اسپرے کے اثرات سے پاک تھے۔ اب صورتحال بدل گئی ہے، ہمارے پاس غیر معیاری، بے ذائقہ اور مضر صحت کھانا ہے نتیجتاً لوگوں کا معیارصحت بھی دن بدن گرتاجارہا ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں، میرے ایک ساتھی نے اسلام آباد اور راولپنڈی کی 22 سبزیوں پر تحقیق کی۔ اسے سنکھیا اور دیگر زہریلے اجزاء والی 21 سبزیاں ملیںاور ان میں صرف ایک سبزی کھانے کے قابل تھی۔ باقی21 سبزیاں انسانی استعمال کے قابل نہیں تھیں۔ معیاری خوراک اور مناسب رہائشی کالونیاں فراہم کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ ان ہاؤسنگ سوسائٹیز کو عمودی کے بجائے افقی رخ پر بنانے کی ضرورت ہے اورزیادہ سے زیادہ اپارٹمنٹس تیار تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ ہم دنیا کے مختلف ممالک کے میٹروپولیٹن شہروں میں دیکھتے ہیں۔ ان ہاؤسنگ سوسائٹیز کو ایک عام آدمی کی تمام بنیادی ضروریات پوری کرنی چاہیے، لیکن انہیں عمودی طور پرنہیں پھیلانا چاہیے۔ اسی طرح اگلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ آبادی کے حوالے سے موثر پالیسی اور نظام موجود ہو۔ اگراسی طرح آبادی بغیر منصوبہ بندی کے بڑھتی رہی تو یہ اپنے آپ میں ہر چیز کو تباہ کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔