چند لمحے جو ملے ہم کو تیرے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے جس طرح ہم نے گزارے ہیں وہ ہم جانتے دن فراغت کے بظاہر بڑے آرام کے تھے ان دنوں فراغت ہی فراغت ہے‘ ظاہر ہے احتیاط نے ہمیں باندھ کر گھر پر بٹھا رکھا ہے۔آدمی کہاں تک اخبار بھی پڑھے اور فیس بک دیکھتا رہے، اب تو اپنی بھی ہے شاید درو دیوار کی صورت۔ اس فراغت کا خیال بھی مجھے یونہی نہیں آگیا ہمارے ڈاکٹر کاشف رفیق نے ایک پوسٹ لگائی تو میں حیران رہ گیا کہ اسے میرا بیس پچیس سال پرانا شعر یاد ہے’’یہ فراغت مجھے نہیں ہے راس‘ بیٹھے بیٹھے میں ہوں گیا ہوں اداس‘‘۔ یہ اداسی بھی بڑی عجیب چیز ہے کہیں کہیں بندے کو گھیر لیتی ہے۔ ایسے ہی نہیں ساحر نے کہہ دیا تھا کہ تجھ سے ملنا خوشی کی بات سہی، تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں۔ کیا کیجیے کہ انسان کا مآل یہی ہے، تبھی تو کہا جاتا ہے کہ بے کار مباش، کچھ کیا کر، بخیہ ادھیڑ کر ہی سیا کر۔ ہمارے پیارے دوست شعیب بن عزیز تو سردیوں میں اداس پھرتے تھے اور پھر خود ہی بتاتے ہیں کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ مگر ہم نے کام کئے بھی نہیں اور ہمیں میر کی طرح عشق نے بھی نکما نہیں کیا۔ میرے معزز قارئین! میری اداسی بے سبب بھی نہیں ہے کہ میں جب بھی امید باندھتا ہوں تو اس پر جلد ہی اوس پڑ جاتی ہے۔ میرا خیال تھا کہ وبا کے دنوں میں ہماری نفرتیں محبتوں میں بدل جائیں گی۔ اس کی ایک آدھ جھلک مجھے بلاول کی تقریر میں بھی ملی اور میں اس پر خوش بھی ہوا، پھر شہباز شریف آئے تو میری خوش گمانی نے مجھے پھر امید دلائی۔ بعد کے منظر نامے نے مجھے اور اداس کر دیا۔ سیاست ہی سیاست، سب سے زیادہ ذمہ داری عمران خاں کی تھی کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلتے۔ انہوں نے جائز مطالبات پر بھی کان نہیں دھرے کہ پارلیمانی مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دے دی جائے کہ کورونا کے لئے مختص فنڈ کی نگرانی ہو سکے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ٹائیگر فورس بنا لی۔وائرس نے سب کو خوفزدہ ضرور کیا مگر کسی کا دل نرم نہیں کیا۔ تبلیغی جماعت کی شامت آ گئی۔ یہ بھی درست کہ ان کو بھی حکمت و تدبر سے اقدام کرنا چاہیے تھے مگر پولیس کا رویہ بہت برا رہا۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ سب کچھ اداس کر دینے والا۔ تم نے روکے محبت کے خود راستے، اس طرح ہم میں ہوتی گئی دوریاں۔ عوام سب دیکھ رہے ہیں: ہر محبت تو ٹپک پڑتی ہے خود آنکھوں سے اے مرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی ایک تو قیادت کا فقدان ہے اور دوسرا فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا ہمیں لے بیٹھا کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ لاک ڈائون نہیں ہو گا لاک ڈائون ہو یا کرفیو اور لاک ڈائون کے مابین فرق پر تحقیق شروع ہو گئی۔ دیر آید درست آید۔ کچھ نہ کچھ تعمیراتی کام کے اجازت دے کر ٹھیک کیا۔ تعمیراتی شعبہ کی صنعت قرار دے کر 90فیصد ٹیکس معافی کا حکم پھر وہی بات جس کے لئے ہم دہائی دیتے رہے کہ زمینی حقائق دیکھے جائیں۔ اب خرابیٔ بسیار کے بعد فیصلہ ہو گیا کہ سرمایہ کاروں سے ذریعہ آمدن نہیں پوچھا جائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ اس سوال کا جواب دے ہی نہیں سکتے تبھی تو وہ کہتے رہے: کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے سوال سارے غلط تھے جو اب کیا دیتے اب تو کئی معافیاں شامل حال ہو گئی ہیں۔ امید ہے کہ اس کام میں یہ رعائتیں اوکسیجن کا کام کریں گی۔ سرمایہ سرمائے کو کھینچتا ہے اور اس میں تحفظ اور امن کا ماحول بہت رول ادا کرتا ہے، پکڑو پکڑو جانے نہ دو‘ بند کر دو وغیرہ وغیرہ نہیں چل سکتا۔ اب صوبوں سے مل کر سیلز ٹیکس بھی کم کیا جائے گا۔ اچھی خبریں آ رہی ہیں مگر پھر وہی کہ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے ،مری کے رہائشی فیصل نے وزیر اعظم کی رہائش کے سامنے خود سوزی کر لی اور یہ بھی خط میں لکھا کہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینا میرا قصور تھا۔ کوئی جاں سے ایسے ہی نہیں گزر جاتا: جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے کیا کیا جائے کہ یہ اداس ہونے کے دن تو نہیں مگر اداسی بقول ناصر گھر کی دیواروں پہ بال کھولے سو رہی ہے گلی محلے ہی نہیں بازار بھی اداسی بکھیر رہے ہیں۔ مگر ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے جس کے ہم منتظر ہیں جب دل آپس میں نہ ملتے ہوں تو پھر لوگ ہاتھ ملانے سے بھی جاتے ہیں اور اس کا بندوبست خود قدرت نے کر دیا ہے۔ دل کی خواہش کو بہانہ مل گیا تو مراد پالی گئی۔ وقت گزارا جا رہا ہے کہ موسم سب کچھ بدل دے۔ سیاست دان اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کی کوشش میں ہیں‘ لوگ تو جیسے تیسے جیے جاتے ہیں‘ بڑے سخت جان اور ڈھیٹ ہیں سنا ہے جہانگیر ترین کو ترس آ گیا ہے اور انہوں نے یوٹیلیٹی سٹورز کو سستی چینی دے کر 25کروڑ کی رعایت کی ہے۔ خسرو بختیار کے اعلان کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ بھی کوئی رعایت دیتے ہیں یا فنڈ۔ امیر خسرو کا شعر یاد آگیا: بہ لبم رسیدہ جانم تو بیا کہ زندہ مانم پس ازاںکہ من نمانم بہ چہ کار خواہی آمد میری جان لبوں پر آ چکی ہے تو آ جا کہ میں زندہ ہو جائوں۔ میرے جانے کے بعد تو آیا تو کیا آیا ۔ ن لیگ کے طلال چودھری ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹر اور ووٹرز کی لسٹیں بن رہی کہ انہیں یہ مدد دی جائے وقت کیسا ستم ظریف ہے کہ ن لیگ کے دور میں یہ مہربانیاں ایک خاندان اور ایک برادری تک محدود تھیں، کون نہیں جانتا۔ شرم نہیں آتی بلدیاتی اداروں کی بحالی کے لئے شور مچانے والوں کو کہ ن لیگ کے دور میں کون سا وہ بڑے فعال تھے اور آسمان سے تارے توڑ کے لا رہے تھے۔ سب خود غرض ہیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ فوج نے معاملے کو سنجیدہ لیا اور عوام بھی سمجھ گئے۔ مجھے یاد آیا اس سے پیشتر بھی ایک مرتبہ ن لیگ نے واپڈا کا محکمہ فوج کے سپرد کیا تھا اور پھر فوج نے آ کر دیکھا کہ ہر محکمے میں ان کی ضرورت ہے خدا نہ کرے اب کے ایسے ہو۔ بہتر ہے محکمے خود کو خود ہی ٹھیک کر لیں۔ ثمینہ راجا کا ایک شعر: آج تلک بھرے نہیں پہلے ہی موسموں کے زخم دل ہے کہ ایک بار پھر نغمہ گیر بہار ہے