کتنا بڑا پیمانہ ہے ہمارے قومی انتخابی تاجروں کے ہاتھ میں؟ شاید ہی کوئی سادہ لوح سیاسی طالب علم اندازہ کر پائے۔ بہت ہی الجھا ہوا نصاب سیاست ہے، اس سیاست میں خود فروشی اور قوم فراموشی ایک ہی باب کی دو فصلیں ہیں۔ اس نصاب سیاست میں حقیقت کو منہ چڑا کر مفادِ تعلیم حاصل کیا جاتا ہے۔ ایک عرصہ دراز سے یہ نصاب لوگوں کے نزدیک دائمی اور مستقل سندیسۂ نجات ہے۔ کچھ جنون خیز طبیعت کے اسیر ناتجربہ کاری اور ان دیکھے حقائق کے اندھیروں میں اپنی بصیرت کھو بیٹھتے ہیں۔ اندھا اندھیرے میں لاٹھیاں گھما کر شاید یہ محسوس کرتا ہے کہ مدمقابل اب باقی نہیں رہے۔ اسے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد بڑھتا نظر آتا ہے۔ پھر وہ سب کو دعوت مبازرت دیتا ہے۔ تماشہ بین خوش ہوتے ہیں اور کسی نئی روایت کے جنم کا انتظار کرتے ہیں۔ توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ پرانے بین باز اپنی دھوکہ سامانی سمیت میدان میں اتر آتے ہیں اور ہر طرز کے سانپوں کو بلا کر تماشا شروع کرتے ہیں۔ بین باز سانپوں کو مست کرتے ہیں اور تماشا بینوں کو سربازار سرمت کرتے ہیں پھر تماشا ختم ہوتا ہے اور تماشے کے اثرات شروع ہوتے ہیں۔ تماشا ذرا وسیع دامن مانگے تو سرکس میں ہمہ رنگی کا اہتمام ہوتا ہے،لگڑبگڑ ،سفید چوہے، ٹانگوں والا بکرا، آدھے دھڑ کا آمی سب ہی طرح کی عجیب مخلوقات سامانِ تماشا فراہم کرتی ہیں۔ ابا بیٹے سے پوچھتے ہیں کہ کونسا عجیب جانور تمہیں اچھا لگا۔ پھر بچے آپس میں تذکرہ کرتے ہیں کہ کون کونسے عجائبات دل پسند ہے۔ ایک پر زیادہ بچے، بے عقل ناتجربہ کار بچے متفق ہو جاتے ہیں۔ یہ اتفاق جمہوریت ہے، اسے جمہور کا فیصلہ کہتے ہیں۔ عدم اتفاق کرنے والے بچے خاموش ہو جاتے ہیں، یا پھر بضدہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں حکومتیں بنتی ہیں، گرتی ہیں، ٹوٹتی ہیں۔ دوسرا طرز بیان یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں بنائی جاتی ہیں۔ گرائی جاتی ہیں اور توڑی جاتی ہیں۔ بننے یا بنانے میں، گرنے یا گرانے میں ٹوٹنے یا توڑے جانے میں عوام کا نام لیا جاتا ہے۔ عوام کو بدنام کیا جاتا ہے لیکن بے چارے متلاشی عزت، متلاشی رزق، کپڑے کے متلاشی اور متلاشیٔ مکان کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ نصاب سیاست میں تبدیلی کے یہی جامد اصول ہیں۔ عوام کو تو ان اصولوں کو مقدس گائے سمجھ کر سر آنکھوں پر رکھنا ہوتا ہے اور اسے قومی ترانے کی بجائے سیاستدانوں کے مقدس ترانے کی طرح پڑھنا ہوتا ہے۔ ہر دور میں یہمشق ستم جاری رہتی ہے۔یہ قصہ قدیم جو بزعم خویش اہل دانش برنگ نو تحریر کرتے ہیں۔ اپنی علمی پونجی کو قزاقوں کی بارات پر نچھاور کرتے ہیں۔ یہی روزانہ کی الٹ پھیر ہے۔ کسی دور میں غرباء اور شرفاء اپنے اپنے طبقات کی لاج رکھتے تھے اور وہ سچی بات اگر بیان نہ بھی کر سکتے تھے تو کم از کم سچ کی سچ پر جھوٹ کی چادر بچھانے سے احتراز برتتے تھے۔ اب تو شرافت اور غربت کا فسانہ قزاق اپنی نیک نامی کے ڈھنڈورے لیتے سناتے ہیں۔ گیس مہنگی ہو گئی، بجلی پر بجلی گر پڑی، پٹرول کی قیمتیں دل کھولا دینے کا ایک عفریتی سبب ہیں۔ آٹا انسان ماروں کی بدنیتی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ایک عرصے سے آتی جاتی حکومتوں کے دور میں یہ مذکورہ بالا دوسطری مصیبت باری باری آتی تھی۔ شور تب بھی مچتا تھا، چور بازاری کے دھنی اس وقت بھی بے شرمی کا کمبل اوڑھے لمبی تان کر سوتے تھے۔ حکومت کے کل دارنوکر شاہی کو اخبارات میں، ریڈیو، ٹی وی پر ڈانٹا کرتے تھے۔ دوران میٹنگ افسرانِ بالا بڑے صاحب کو آئینہ دکھاتے تھے، پھر سرکسی حکمران چھوٹے افسروں کو معطل کر دیا کرتے تھے۔ بس کارروائی ختم ہے، البتہ مراعات اشرافیہ میں اضافہ ہوتا تھا۔ رشوت کا نرخ بھی عالم بالا کو رواں ہوتا تھا۔ نوکر شاہی کے نوکر شاہ کے اردگرد منڈلاتے ہیں۔ انہیں برا بھلا سمجھاتے ہیں اور اپنا حصہ پاتے ہیں۔ اپنی اولاد کے لیے زرکثیر قومی خزانے سے ہتھیانا ان کے لیے ضابطہ استحقاق ہے۔ نوکر اور شاہ ایک دوسرے کو سہارا دے کر رکھتے ہیں۔ قومی مسائل اور عوامی مصائب پر ان کی توجہات اپنی ذات اور اپنی حواریوں کے بعد ہوا کرتی ہیں۔ ہر دور کا البیلا شاہ اور شاہ دماغ بیورو کریسی منصبی اکھاڑ پچھاڑ کی مشق تیز تر کرتے ہیں۔ اگر صوبوں اور وفاق میں انتظامی کشا کشی در آئے تو پولیس کا سہارا دونوں قوتوں کا مرکز ثقل ہوتا ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ سندھ وفاق کی ان بن میں سرفہرست آئی جی کی تعیناتی سر فہرست ہوتی ہے۔ یہ وقت ضائع ہوتا ہے، وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ، ان کے اراکین اسمبلی کے خانۂ دماغ میں آئی جی کا قبضہ ہوتا ہے۔ عوامی امور پر ٹھنڈے دل سے سوچنے کا موقع میسر نہیں آتا۔ اعلیٰ پولیس افسر حکومت سے نتیجہ آزمائی میں مصروف ہوتا ہے، چھوٹے افسروں کو اپنے پیشہ وارانہ کاموں سے دلچسپی نہیں رہتی۔ عوام روتے پھرتے ہیں۔ ڈاکوئوں کی رسی کھلی ہوتی ہے۔ ابھی کل ایک خبر تھی کہ پنجاب کے ایک اہم، مقتدر سیاسی وجود بڑے لیڈر سے ناراض ہوا کہ ہم اتحادی ہیں لیکن وزیر اعظم ہمارے عم زاد کی عیادت کو نہیں آئے۔ ان کے نزدیک امور ریاست میں ایک اہم ترین کام وزیر اعظم کا یہ بھی ہے کہ وہ بیساکھی نما اتحادیوں کے چھینکنے پر بھی پریشان ہو جائیں اور ان کی نازک مزاجی کو بھی آداب محبت کے دستور میں شامل رکھیں۔ کبھی کبھی معاشی تنگی کا احساس ہوتا ہے عوام کے تماشائی ہمدردوں کو تو وہ اس احساس کو اتنا گہرااتارتے ہیں کہ اراکین اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہیں کیونکہ وہ عوام کے نمائندے ہیں۔ نمائندے خوش تو گویا پوری قوم پر انبساط و فرحت کی بارش ہو گئی۔ اب ایک نیا موضوع جنم لے چکا ہے کہ تصوف یونیورسٹیاں بنائی جائیں گی۔ ظاہر ہے کہ تنخواہ دار پڑھایا کریں گے۔ گویا ایک اضافہ ہو گا درباری و سرکاری متصوفین کا۔ اگر کسی نے نظام الدین اولیاء کی طرز پر تخت شاہی سے بچنے کی اور غوث پاک کی طرح حکمران کو تنبیہہ کرنے کی کوشش کی تو اس کی تنخواہ بند کر دی جائے گی اور محکمانہ کارروائی حرکت میں ہو گی۔ خدارا مزارات پر سے زائرین پر عائد ٹیکس ختم کر دیجئے۔ جوتی ٹیکس ،وضو ٹیکس، طہارت ٹیکس ،سرکاری مجاور(افسران) ٹیکس تو یقینا ایک بڑی خدمت ہو گی۔ ع ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں!