قانون کوئی بھی ہو اصل بات عمل درآمد کی ہے ۔ ہمارے ہاں قوانین تو موجود ہیں اور آئین بھی موجود ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس پر کتنا عمل ہوتا ہے ۔ پاکستان میں دوسرے قوانین کی طرح شکار پر پابندی کا قانون بھی موجود ہے مگر اس پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا اور اس قانون کی سب سے زیادہ خلاف ورزی دوسروں کے ساتھ ساتھ آئین ساز ادارے سے وابستہ لوگ بھی کرتے ہیں ۔ ویسے تو پورے ملک میں شکار پر پابندی کے قانون کو توڑا جاتا ہے مگر پاکستان کے وسیع صحرا چولستان میں سب سے زیادہ خلاف ورزی ہوتی ہے جو کہ تشویشناک امر ہے۔ خانپور سے ممبر قومی اسمبلی شیخ فیاض الدین نے ایک ملاقات پر بتایا کہ چولستان جیپ ریلی یقینا بین الاقوامی ایونٹ بن چکا ہے ، اس سلسلے میں روزنامہ 92 نیوز میں آپکے کالم بھی پڑھتا رہا ہوں ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس ریلی کا مقامی آدمی کو کیا فائدہ ہے۔ مجھے چولستان کے کچھ دوستوں نے بتایا کہ اس ریلی میں ہر سال ہزاروں نئے لوگ آتے ہیں ، ان میں زیادہ تعداد صاحب ثروت افراد کی ہوتی ہے ، جن میں شکار کا شوق رکھنے والے لوگ بھی شریک ہوتے ہیں ۔ چونکہ چولستان ایک بہت بڑی شکار گاہ ہے تو شکاری لوگ نت نئی شکار گاہوں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ ان کو ایک طرح سے شکار گاہ میسر آ جاتی ہے اور چولستان جسے پہلے بھی شکاریوں نے ختم کر کے رکھ دیا ہے ، رہی سہی کسر نئے آنے والے شکاری پوری کر دیں گے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ شکار کے قانون پر عمل درآمد ہونا چاہئے ۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ چولستان میں ڈیزرٹ ریلی کرانے والوں کو ناجائز شکار پر پابندی کے قانون پر سختی سے عملدرآمد کرانا چاہئے۔ میں مسلسل لکھتا آرہا ہوں اس امید پر کہ کبھی تو توجہ ہو گی۔ شوقیہ لوگ چولستان جیپ ریلی کراکر چلے جاتے ہیں مگر وہ نہیں سمجھتے کہ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی چولستان اور وسیب کے دوسرے علاقوں میں مسافر پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ پرندے سائبریا اور دوسرے علاقوں سے ہجرت کر کے امن کی تلاش میں آتے ہیں مگر افسوس کہ شکاری قاتل ان کے آنے سے پہلے ہی مورچہ زن ہو جاتے ہیں ۔ موجودہ حکومت تبدیلی کے نام پر برسر اقتدار آئی ہے ، وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پرندوں کو شکار ہونے سے بچائیں خصوصاً چولستان جو کہ پرندوں اور قیمتی جانوروں کے لئے مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔ اگر آج بھی وسیب کے مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو پھر کون سا ایسا وقت آئے گا جب وسیب کے مسئلے حل ہونگے ۔ ہماری صرف اتنی درخواست ہے کہ چولستان کو پرندوں کے شکاریوں سے بھی بچایا جائے اور لینڈ مافیا جو کہ مسلسل زمینوں کا شکار کر رہی ہے ‘ ان سے چولستان کو محفوظ بنایا جائے کہ وہ نہ تو چولستان کی تہذیب و ثقافت سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کو چولستان کے تقدس کا کچھ خیال ہے ۔چولستان ڈیزرٹ ریلی منعقد کرنے والوں کو چولستان کے مسائل کا ادراک کرنا چاہئے، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ چولستان میں ناجائز الاٹمنٹیں خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے بد قسمتی یہ ہے کہ صدیوں سے جن لوگوں نے چولستان میں پیاس و افلاس کا مقابلہ کیا پانی کے بغیر چولستان میں تڑپ تڑپ کر جان دیدی مگر چولستان کو نہ چھوڑا آج چولستان کیلئے پانی کا انتظام ہوا ہے تو رقبوں کے وارث اَپر پنجاب سے آئے ہوئے وہ لوگ بن گئے ہیں جو چولستان کی زبان نہیں سمجھتے اور وہاں کے رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت سے نا آشنا ہیں۔ چولستان ڈیزرٹ ریلی 13 فروری 2020ء سے چولستان میں شروع ہو چکی ہے ۔ یہ ریلی بین الاقوامی ایونٹ بن چکا ہے ۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں شائقین اور سیاح چولستان آتے ہیں ، ریلی میں حصہ لینے کیلئے اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے بھی ریسرحصہ لیتے ہیں ۔ ہر سال کی طرح امسال بھی لاکھوں لوگ شریک ہو رہے ہیں۔ چولستان ڈیزرٹ ریلی کے بارے میں عرض کرنے سے پہلے یہ بتانا چاہتاہوں کہ حکمرانوں نے جس طرح سرائیکی وسیب سے بے اعتنائی اختیار کی ہوئی ہے اور ان کو وسیب کے مسائل حل کرنے اور صوبہ بنانے کے وعدے کا پاس نہیں رہا تو وسیب میں بھی شعور اور بیداری کی لہر بڑھ رہی ہے اور کوئی دن ایسا خالی نہیں جب وسیب کے کسی نہ کسی علاقے میں کوئی نہ کوئی تقریب یا احتجاجی جلسہ منعقد نہ ہو۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب ہو یا مرکز کسی نے آج تک چولستان اور چولستان کے مسائل کے بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہی وہ سوچنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ چولستانیوں کو خود بھی آگے آنا ہوگا اور وہ اس ایونٹ کے موقع پر مقامی فوڈز متعارف کرائیں اور مقامی دستکاریوں کے سٹال لگائیں تاکہ ان کو مالی فائدہ حاصل ہو سکے ۔ وہ دوری اور اجنبیت کا احساس ختم کریں کہ یہ ان کی اپنی دھرتی ، اپنا خطہ اور اپنا وسیب ہے ۔ اگر وہ پیچھے رہیں گے تو باہر والے آ کر قبضے کرتے جائیں گے۔ پوری دنیا میں سیاحت بہت بڑی صنعت بن چکی ہے، دنیا کے بہت سے ملکوں کی آمدنی کا انحصار محض سیاحت سے ہونیوالی آمدن پر ہے۔ اس لحاظ سے بھی ذی شعور شخص سیاحتی ایونٹ چولستان ڈیزرٹ ریلی کی مخالفت نہیں کرتا لیکن اس سیاحت کا اگر کسی مقامی شخص کو فائدہ نہیں ہوتا تو اسے کسی بھی لحاظ سے سود مند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چولستان ڈزیرٹ ریلی کے مسائل اور مشکلات جاننے کیلئے سرائیکستان قومی کونسل کا وفد گزشتہ روز قلعہ ڈیراور گیا ۔ میرے ساتھ کونسل کے رہنما محمد علی خان اور ارسلان خان مٹھو بھی تھے ۔ ہم نے قلعہ ڈیراور قاضی اللہ ڈتہ خان نمبردار، مہر محمد رفیق، مہر عبداللطیف اور مہر محمد عامر سے ملاقات کی اور ان سے ریلی کے بارے میں تاثرات لئے ۔ اس سے پہلے سردار چھٹیرے خان عباسی ، چولستانی شاعر نادر لاشاری، جام یاسر ایڈوکیٹ، راؤ ظفر نواز ایڈوکیٹ، جام ابراہیم اور دوسرے احباب سے بھی ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں جو بھی بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ چولستان ڈیزرٹ ریلی سے مقامی لوگوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور یہ صرف پاکستانی بگڑے شہزادوں کی عیاشی کا ایونٹ بن چکا ہے۔ اس سے دوسری غلط باتوں کے ساتھ نا جائز شکار کی وبا تیزی سے بڑھ رہی ہے ، چولستان بچاؤ تحریک ایک عرصے سے ناجائز شکار اور ناجائز الاٹمنٹوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔