ایک فارسی شعر ’’چہار چیز است تحفہ ملتان ، گرد و گرما ، گداوگورستان‘‘ اس شعر کی تفہیم ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے کرتا ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ملتان میں گرد ، گدا اور گورستان کے علاوہ کیا رکھا ہے ؟حالانکہ بات اس طرح نہیں ہے ، ملتان صدیوں سے عظیم تھا اور عظیم چلا آ رہا ہے اس کے لیے ملتان کی تاریخ کو دیکھنا پڑے گا ۔ ملتان کو سونے کا گھر کہا جاتا ہے کہ یہ خطہ بہت مالدار ہے اور ملتان میں ایک مندر ہے جس پر لوگ مال و اسباب اور سونا نچھاور کرتے ہیں۔(بحوالہ الکامل(قاہرہ) صفحہ نمبر 112مصنف ابن الاثیر)۔دراصل اس شعر کی جو تفہیم بنتی ہے وہ یہ ہے کہ ملتان جو کہ سونے کا گھر تھا وہ کون حملہ آور تھے جنہوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اس کی گرد اڑائی اور کثیر تعداد میں یہاںکے باشندوں کو گورستان میں تبدیل کیا اور جو باقی بچ گئے وہ کاسہ گدائی پر مجبور ہو ئے، یہی حقیقت ہے اس کے لیے تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا اور ملتان پر جو مسلسل حملہ آوری کا کھوج لگانا پڑے گا ۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو ملتان دروازوں کا شہر تھا کہ اس کی عمارت کو دیکھ کر حملہ آور حملے کرتے تھے ۔مشہور مؤرخ ، سیاح Hiuen Tasng نے اس شہر کے دس دروازے شمار کئے ہیں اور اس شہر کو پانچ میل کے رقبہ پر مشتمل قرار دیا ہے۔ سات د روازوں کا تذکرہ تقریباً ہر کتاب میں ملتا ہے۔جن میں پاک دروازہ ، دہلی دروازہ ، دولت دروازہ، لاہوری دروازہ، بوہڑ دروازہ ، حرم دروازہ ، حسین آگاہی دروازہ (جو اَب مٹ چکا ہے ) مزید اس کے چار دروازے تھے جو عہد انگریزوں کی آمد پر مسمار ہو گئے۔ان دروازوں کا نام دیہہ د روازہ ، سکی دروازہ، ہر ی دروازہ، اور مصری دروازہ شامل تھے۔ یہ شہر دو دریائوں کے سنگم پر موجود تھا۔ایک طرف دریائے راوی جو اَب یہاں سے تیس میل دور ہے اور دریائے چناب جو اس کے مغربی حصے میں اب بھی موجود ہے ۔ ارض ملتان کے مصنف اکرام الحق نے اپنی کتاب کہ صفحہ 21 پر درج کیا ہے ابو ریحان محمد البیرونی اپنی مشہورکتاب ’’کتاب الہند‘‘ صفحہ 55 ایڈن ایڈیشن میں لکھتا ہے کہ گیارہویں صدی عیسوی میں اس کے قیام (1042ء )کے دوران یہاں کے متوطن اس کو دو لاکھ چالیس ہزار چار سو تیس سالہ پرانا سمجھتے تھے۔(بحوالہ ملتان تاریخ کے آئینے میں ، صفحہ نمبر 353مؤلف خلیل احمد )۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ زکریا یونیورسٹی شعبہ صحافت کے چیئرمین مرحوم کریم تونسوی نے اس شعر کی اپنے ایک مضمون میں وضاحت اس طرح کی تھی کہ عقید ت مند ملتان کی گرد شفا سمجھتے ہیں ۔ گرما یعنی گرمی نہ ہو تو ملتان کے کاشتکار پریشان ہو جاتے ہیں کہ اپ کپاس کیسے اگے گی، آم کیسے پکے گا ؟ کھجور کیسے کھائیں گے ؟ ملتان کی گرمی اس خطے کی بقا کی علامت ہے اور پاکستان کے لیے خود کفالت کا اہتمام ہے۔ جہاں تک گدا گروں کا تعلق ہے ان میں کئی لال ، گوہر اپنی ذات میں جوہر چھپائے ہوئے ہیں۔ یہ آپ کے دست سخاوت کا امتحان لیتے ہیں کہ آپ کس قدر سخی ہیں۔ یہ آپ کی پہچان پر موقوف ہے کہ آپ کسے گدا گر سمجھتے ہیں کسے چھپے ہوئے خزانوں کا مالک۔ اس کے لیے پرکھ والی آنکھ چاہیے۔ کریم تونسوی مزید لکھتے ہیں کہ جہاں تک گورستان کا تعلق ہے وہاں اس زندہ جہان سے کہیں زیادہ آبادی دفن ہے ۔ اس کے بارے میں جاننا اور اپنے کردار میں اللہ کو شامل کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ ملتان علم و دانش کا گہوار ہ ہے۔یہاں چپہ چپہ زمین پر اس کے ماحول پر اس کی آب و ہوا پر صوفیوں کے فلسفے اور ان کی دانش برہانی کاعکس ملتا ہے ۔ ملتان صرف سنگ و خشت کا نام نہیں نہ ہی قلعہ کہنہ قاسم باغ تک محدود تاریخ کا شہر ہے ، نہ ہی النگ (Walled City)اور نہ ہی اس کے دروازے اور فنِ تعمیر تک محدود رہے۔ ملتان زندہ سوچوں، اُمنگوں ، آرزوئوں کا شہر ہے۔ اس کی فضائوں میں محبت، اخوت، تصوف اور انسان دوستی اور آخرت کی طرف جانے کا سامان ہے۔ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی فرماتے ہیں: سوداگر لڈٖ گٖئے کر کر ونجٖ وپارے کئی سوداگر لعلاں دے تے لاکھی صد ہزارے لاتھے رہے بارتھان دے نو سو سٹھ ہزارے رہے جمال کنگال بیکارہ کوڑے ہتھ سہارے بلاشبہ ملتان تجارت، صنعت و حرفت کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ملتان ایک مخصوص تہذیب کا شہر ہے ۔اس میں رواداری کی محبت، خلوص، رکھ رکھائو ڈیرہ داری ، وضع داری، مہمان نوازی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ آنے والے کے لیے محفلیں سجانا، تقاریب منانا، انہیں مقام و مرتبہ سے نوازنا ملتانیوں کا وصف ہے یہی و جہ ہے کہ ملتان کے اس طرز عمل کو جو بھی باہر سے آتا ہے دیکھتا ہے اور متاثر ہوتا ہے۔ملتان بزرگوں کا شہر ہے جنہوں نے ساری زندگی رواداری میں گزاری اور اس عمل کے نقوش ملتان میں موجود ہیں۔ مگر ان نقوش پہ نازاں ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی نگہداشت بھی بہت ضروری ہے ۔کریم تونسوی صاحب کی وضاحت تسلی بخش نہیں ہے ، آج نئے بیانیے کی ضرورت ہے ، نئی تحقیق کی ضرورت ہے ، یہ کام اداروں کو کرنا چاہیے اور یونیورسٹیوںکو کرنا چاہیے۔ قلعہ ملتان پر انگریزوں کی یادگار ایک توپ رکھی گئی ہے جس کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ فتح ملتان کے موقع پر انگریز فوج کے کام آئی۔ پاکستان کے حکمرانوں کو غلاماناں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے ۔ حقائق کو سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔ نئی نسل کو سچ بتایا جائے اور اُن کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ملتان کو برباد کرنے والے حملہ آوروں کا کھوج لگایا جائے اور اُن کا بھی کھوج لگایا جائے جو حملہ آوروں کے ساتھ تھے ۔حملہ آو ر تو لوٹ مار کر کے چلے گئے مگر حملہ آوروں کے جو حامی تھے جو ان کے حاشیہ بردار بنے ، اُن کی اولادیں آ ج بھی موجود ہیں اوروہ لوگ آج بھی ان قوتوں کے حاشیہ بردار بنے ہوئے ہیں جو کہ کسی نہ کسی شکل میں ملتان کو لوٹ رہے ہیں۔آج انہی سے وسیب کا لوٹا ہوا مال وصول کرنے اور ان سے ظلم کا حساب لینے کی ضرورت ہے۔