اگر کوئی شخص انسانی تہذیب، معاشرتی زندگی اور اخلاقی طہارت کی معراج کو سمجھنا چاہتا ہے تو یہ اسلام کے بتائے ہوئے دو اصولوں کے گرد گھومتی ہے۔ (1)غیبت و بہتان سے بچنا اور (2)دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی۔ لیکن کمال یہ ہے کہ جوں جوں ہم جدید ’’مہذب‘‘ عالمی معاشروں کی تعمیر کرتے جا رہے ہیں ،یہ دونوں اوصاف غائب اور ان کے مقابلے میں دو نئی بدترین اقدار نے تقریباً ہر معاشرے میں جنم لے لیا ہے۔ (1)مجلسی زندگی سے لے کر قومی زندگی و سیاست تک بہتان تراشی اور غیبت اختیار کرنا اور (2)دوسروں کے عیب تلاش کرنا اور پھر انہیں موقع محل کی ضرورت کے مطابق استعمال کرنا ہمارا شعار بن چکا ہے۔ ہر کوئی جو یہ کام کرتا ہے اس کے پاس اپنے اس بدترین گناہ کیلئے لاتعداد جواز موجود ہوتے ہیں۔ کوئی ان برائیوں کا کسی اخلاقی برائی کے خاتمے کیلئے پرچم بلند کرتاہے، تو کوئی قومی مفاد کے نام پر لوگوں کی کردار کشی کا بیڑا اٹھائے پھرتا ہے جس کے ہاتھ میں کسی سیاست دان کی ذاتی زندگی کا کوئی راز آجائے تو پھر وہ اسی کے زور پر سیاسی اصلاح کا پرچم بردار بن جاتا ہے، جو سیکولر لبرل یا آزاد خیال لوگوں سے نظریاتی سطح پر مقابلہ نہیں کر پاتا، اسے ان لوگوں کی ذاتی زندگی کا کوئی سکینڈل مل جائے تو وہ اسے اس نیت سے پھیلاتا ہے جیسے معاشرے کو خطرہ ان کے سیکولر نظریات سے نہیں بلکہ اس شخص کی ذاتی زندگی کے گناہ سے ہے۔ اسی طرح اگر کسی مولوی مخالف دانشور یا اینکرپرسن کے ہاتھ میں کسی عالم دین کے ذاتی گناہ کا ثبوت آجائے تو پھر دیکھئے اس کے ذوق و شوق کی پروازیں۔ کیا ہمارا یہ بدترین، عیب جو، غیبت گو اور بہتان تراش معاشرہ ایک دن میں وجود پا گیا ہے۔ ہرگز نہیں ۔غیبت ہماری سماجی زندگی کا سب سے بڑا ’’ٹائم پاس‘‘ (Time pass)ہے۔ یوں تو ’’ٹائم پاس‘‘انگریزی کا لفظ ہے لیکن اس کی تعریف ہمارے صدیوں پرانے سماجی رویوں کی عکاس ہے۔ ’’ٹائم پاس‘‘ وقت گزاری کے ایسے طریقے کو کہتے ہیں جس میں آپ کوئی کارآمد، اہم یا مفید کام نہ کر رہے ہوں۔ ہماری سماجی زندگی کا سب سے اہم ’’ٹائم پاس‘‘، غیبت، بہتان اور عیب جوئی ہے۔ اپنی 65 سالہ زندگی کے تقریباً ہر مرحلے پر مجھے اس عبرتناک ’’سماجی شغل‘‘ کا سامنا کر پڑا ہے۔ عبرتناک اس لیے کہ اس بدترین گناہ میں محلے کے آوارہ، بدقماش لونڈوں سے لے کر باریش اور بظاہر متقی لوگ بھی انتہائی ذوق و شوق سے شامل ہوتے تھے۔ محلے کی نکڑ پر کھڑی ٹولیاں، کسی تھڑے پر بیٹھے تاش کھیلتے لوگ، پارکوں یا کھیل کے میدانوں میں کھلاڑیوں کے جھمگٹے، غرض ہر بیٹھک میں آپ کو جابجا صرف ایک ہی طرح کی گفتگو ملتی ہے۔ کون چھپ کر آشنائیاں بنائے ہوئے ہے، کس کی بیٹی، بہن یا بیوی کب اور کیسے کسی کے ساتھ ملوث ہوتی رہی ہے، رشوت خور، چور، بددیانت، یہاں تک کہ لوگوں کی خفیہ بیماریاں تک زیر بحث آتیں ہیں۔ہمدردی کرنا ہو تو کہا جاتا ہے،اللہ صحت دے اور نفرت دکھانی ہوتی تو کہتے ہیں، دیکھا اللہ اس کو دنیا میں ہی سزا دے رہا ہے۔ ہمارے گھروں کے آنگن بھی صبح کے وقت اس غیبت اور عیب جوئی سے خالی نہیں ہوتے۔ خواتین کا بھی یہی ’’ٹائم پاس‘‘ ہوتا ہے ۔ میں نے عنفوانِ شباب میں شاعری شروع کی تو گجرات کے نشیمن ہوٹل سے لاہور کے پاک ٹی ہاوس تک، حلقۂ اربابِ ذوق کی محفلوں میں شرکت اور اس کے بعد دیر تک لمبی نشستوں میں بھی یہی زہر گھلا ہوا تھا جو چائے کی پیالیوں کے ساتھ حلق میں قطرہ قطرہ اترتا تھا۔ کوئی کسی خاتون کے ساتھ مشاعرہ پڑھ کر آیا ہوتا، تو اس کی ’’بے باکی‘‘ کے قصوں اور اپنے جاہ و جمال کے افسانوں اور ’’میسر ماحول‘‘ کی لذتوں سے معمور چسکے دار غیبت شروع ہو جاتی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کسی مرد یا عورت کا محفل سے اٹھنے کا انتظار کیا جاتا اور پھر تو ایسے ہوتا جیسے ضبط کے بند ٹوٹ پڑے ہوں۔ ایک دم کئی لوگ بے شمار راز افشا کرنے لگتے۔ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تو سوچا کہ عرفان و آگہی کے اس مرکز میں ’’ٹائم پاس‘‘ محور علم یا علمی موضوعات ہوں گے ،لیکن صاحبانِ علم کے دامنِ صد چاک میں غیبت کے پتھروں کے سوا کچھ نہ ملا۔ جو چند تھے وہ اس ماحول سے ایسی کراہت کرتے تھے کہ گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ سول سروس یا بیوروکریسی تو اس فن میں یدِ طولیٰ رکھتی ہے۔ لاتعداد سول سرونٹس کے کیرئر کی واحد سیڑھی غیبت، عیب جوئی اور بہتان تراشی ہوتی ہے، جن دوستوں کے گھروں میں یہ آتے جاتے ہیں، جن کی محفلوں میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اکٹھا ہوتے ہیں، انہی افراد کے بارے میںیہ لوگ سکینڈل گھڑتے ہیں، غلطیوں اور گناہوں کو طشت ازبام کرتے ہیں۔ پہلے تو اس طرح کی غیبت سے محفل میں یک گونہ لذت حاصل کی جاتی ہے پھر اس سکینڈل کو استعمال کرکے پروموشن، پوسٹنگ اور کیرئرپلاننگ بھی کی جاتی ہے۔ سترہ سال پاکستان ٹیلی ویژن کے لیئے ڈرامہ لکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلم اپنے زوال پر تھی اور فن و آرٹ سے وابستہ طبقہ ٹیلی ویژن کی راہداریوںمیں جلوہ گر تھا۔ یہاں غیبت اور بہتان جیسے لذت بھرے قصے تو تھے ہی لیکن ذرا سی ڈھٹائی بھی غالب تھی جس کی وجہ سے بڑے سے بڑا سکینڈل بھی ایک معمولی سی ’’روٹین‘‘ بن کر رہ جاتا۔ بلکہ بعض سکینڈل تو خاص طور پر خود مارکیٹ میں پھینکے جاتے تاکہ ختم ہوتی ہوئی شہرت اور گمنامی کی غار سے نکلا جائے۔ اس سب کے باوجود بھی جو متاثرہ شخص یا عورت ہوتی، اس کی حالت دیدنی ہوتی۔ کوئی کتنا ہی اخلاق باختہ ہوجائے، تعلقات کے معاملے میں بے احتیاط ہوجائے، لیکن پھر بھی وہ خود نہیں چاہتا کہ اس کی ذاتی زندگی کے کئی ایسے پہلوہوتے ہیںجو لوگوں کو معلوم نہ ہوں۔ دنیا کے ہر معاشرے کے شوبز کا اپنا ایک سٹینڈرڈ ہے۔ کہیں جنسی تعلقات بھی سکینڈل نہیں بنتے اور کہیں ضرورت سے زیادہ لمبی کال بھی سکینڈل بن جاتی ہے۔علمائے کرام اور مفتیانِ عظام کی محفلوں میں بیٹھنے کی اجازت ملی تو وہاں بھی راز افشانی پر لطف لینے کا ماحول موجود تھا۔ مسلکی اختلاف اس لذّت کو ہوا دینے کیلئے ایندھن کا کام کرتا ہے۔صحافت، کالم نگاری اور ٹیلی ویژن کے حالات حاضرہ کی دنیا کا تو ایک بنیادی اصول بھی اسی غیبت، بہتان اور عیب جوئی کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔ اصول حیران کن ہے کہ’’صحافی کبھی اپنا سورس نہیں بتاتا‘‘۔ یعنی تمام سکینڈل اور غیبت کی بنیاد ایک ایسے بزدل، کمزور اور کمینہ صفت شخص کی گفتگو پر رکھی جاتی ہے جو اپنا نام ظاہر کیئے بغیر کہانی طشت ازبام کرتا ہے۔ یہ ہے ہمارے اردگرد آباد دنیا جس میں اگر ایک مولوی کی ویڈیو سامنے آجائے تو سیکولر لبرل اچھلتے ہیں اور کسی سیکولر لبرل کا سکینڈل سامنے آجائے تو دین دار طبقے کے ہاتھ میں تلوار آجاتی ہے۔ ایک متفق علیہ حدیث پر بات ختم کرنا چاہتا ہوں جو ایک مسلم معاشرے کے تمام عیوب کی نشاندہی کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بدگمانی قائم کرنے سے اجتناب کرو کیونکہ بدگمانی کا سب سے بدتر جھوٹ ہے۔ ٹوہ میں نہ رہو، کسی کی جاسوسی نہ کرو، کسی کے سودے نہ بگاڑو، آپس میں حسد نہ کرو، آپس میں حرص نہ کرو‘‘ (بخاری، مسلم)۔ لوگوں کے عیب ڈھونڈنے ، ٹوہ میں لگے رہنے، ان کے عیب اچھالنے، غیبت کرنے کے اس ماحول کے مقابلے میں کھڑے ہونے کا جو انعام اللہ عطا کرتا ہے اس سے بڑا انعام، اس سے بڑا وعدہ اللہ نے شاید کسی اور عمل کے بدلے میں نہیں کیا۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، ’’جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی عیب پوشی کرے گا‘‘ (بخاری)۔ جس شخص کی اللہ دنیا و آخرت میں عیب پوشی کا ذمہ لے رہا ہو، اسے دنیا و آخرت میں کون ذلیل و رسوا کرسکتا ہے۔ اس سے بڑا انعام، وعدہ اور اللہ کی رحمت کوئی ہو سکتی ہے۔