سعودی آرامکو پہ ڈرون حملوں کے بعد خلیج کی پہلے سے نازک صورتحال نازک تر ہوگئی ہے۔ ان ڈرون حملوں کی ذمہ داری یمنی حوثیوں نے قبول کرلی تھی لیکن سعودی عرب اور امریکہ بغیر کسی ابہام کے براہ راست ایران کو اس کا ذمہ دارٹھہرا رہے ہیں ۔یعنی اب ایسی ہر کارروائی حوثیوں کی نہیں ایران کی ہی سمجھی جائے گی، اگر اس واقعہ کے بعد کسی اور کارروائی کی گنجائش بچ رہی۔ایران نے حسب معمول برأت کا اظہار کیا ہے لیکن ساتھ ہی حسن روحانی نے تیر نیم کش یہ کہہ کر ترازو کیا کہ آرامکو حملہ دراصل حوثیوں کی طرف سے یمن میں جاری طویل جنگ کے خلاف سعودی عرب کو وارننگ ہے۔انہوں نے سعودی عرب سمیت امریکہ،امارات، یورپ اور اسرائیل کو خطے میں جنگ اور بدامنی کا ذمہ دارٹھہرایا اور کہا کہ یمن میں جنگ ہم نے تو شروع نہیں کی تھی البتہ مذکورہ حملہ یمن میں جاری تنازعہ کے اختتام کی نوید ہوگا۔ آقائے روحانی کا ارشاد بجا ہے کہ ایران شروع میں اس تنازعہ میں شامل نہیں تھا ، لیکن بعد ازاں تمام مشرق وسطی کی طرح یمن میں بھی ایرانی چمٹے نے نہ صرف انگارے اٹھا اٹھا کر آتش بجاں یمن میں جھونکے اب تو یہ تنازعہ براہ راست ایران اور سعودی عرب تنازعہ ہی بن گیا ہے۔ ایسے میں اس قسم کے دو دھاری بیانات آرامکو کی جلتی تنصیبات پہ تیل کا کام ہی کریں گے۔دوسری طرف مائک پومپیو نے ترنت بغیر کسی ثبوت کے ایران پہ براہ راست الزام دھر دیئے گویا انہیں اسی واقعہ کا انتظار تھا۔ ان کے خیال میں یہ کسی اور کی کارروائی ہو ہی نہیں سکتی۔ جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے ، سعودی وزارت دفاع پریس کانفرنس کے ذریعے آرامکو حملے میں ایران کے ملوث ہونے کے ثبوت پیش کرچکی ہوگی۔ مجھے علم نہیں کہ کونسے ثبوت پیش کئے جائیں گے لیکن اتنا علم ہے کہ وہ ایران کے خلاف نتن یاہو کے ان ثبوتوں سے زیادہ ہرگز نہ ہونگے جو انہوں نے اسرائیل میں قبل از وقت انتخابات سے قبل کسی فٹ پاتھی حکیم کی طرح ایک ٹی وی شو میں دکھائے تھے۔ بیسیوں فائلوں اور کامپیکٹ ڈسکوں پہ مشتمل ان ثبو توں سے ایران کے خلاف ایک وقت طوفان ضرور کھڑا ہوا تھا لیکن ہوا کیا تھا؟ایران کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت۔صدر ٹرمپ کا لہجہ اچانک بدل جانا اور نتن یاہو کا یکے بعد دیگرے پانچ کرپشن کیسز میں ملوث ہوکر قبل از وقت انتخابات پہ مجبور ہونا۔ برسبیل تذکرہ حالیہ انتخابات میں ان کی حکومت بنتی نظر نہیں آرہی۔صدر روحانی اور ایران اپنی جگہ موجود ہیں اور تازہ ترین دھمکی انہوں نے امریکہ کو یہ لگائی ہے کہ وہ جوہری تنصیبات پہ کام اس وقت بند کریں گے جب صدر ٹرمپ جوہری ڈیل، جس سے وہ یکطرفہ طور پہ نکل گئے تھے اور یورپ کو بھی اکسا رہے تھے،رجوع کرلیں گے۔اس تازہ ترین واردات کے بعد جب مائک پینس اور پومپیو واضح طور پہ ایران کا نام لے رہے ہیں یہ کیونکر ممکن ہوگا، یہ دیکھنے والی بات ہوگی اور صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاوس پہ گرفت بھی سامنے آجا ئے گی جس میں وہ اب تک کامیاب نظر آرہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی آرامکو پہ حملہ بہت سنگین واقعہ ہے۔ اس کے نتائج و عواقب بھی سنگین ہی ہونگے۔ منہ اندھیرے یعنی صبح چار بجے آرامکو تیل کی سہولت گاہوں عبدیق اور خریس پہ ہونے والے ڈرون حملوں نے ساری دنیاکو ہلا کر رکھ دیا ہے۔آرامکو دنیا کو تیل سپلائی کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہی نہیں بلکہ اوپیک کے اہم ترین ممبر سعودی عرب کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بھی ہے۔ اس پہ حملہ گویا اوپیک اور سعودی عرب پہ براہ راست حملہ ہے۔ یہ اوپیک ممبر ممالک کی کل پیداوار کا پچاس فیصد جبکہ عالمی تیل کی منڈی میں پانچ فیصد پیدا کرتی ہے۔آرامکو کے تیل کے ذخائر کا تخمینہ 262 ملین بیرل لگایا جاتا ہے جس کی قیمت تقریباً دو سے تین بلین ڈالر بنتی ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے تاریخ میں پہلی بار آرامکو کی انٹرنیشنل اسٹاک مارکیٹ میں لسٹنگ کا اعلان کیا تھا۔ یہ لسٹنگ اسی ماہ یعنی ستمبر میںمتوقع تھی کہ یہ واقعہ پیش آگیا جس کے نتیجے میں آرامکو سے تیل کی پیداوار میں تقریبا چھ ملین بیرل فی یوم کی کمی آگئی ہے۔ کہنے کو یہی کہا جارہا ہے کہ حالات قابو میں آگئے ہیں لیکن ایسا ہوا نہیں ہے۔ ابھی تک سعودی عرب دیگر اوپیک ممالک کو یہ سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوا کہ اب اوپیک کا مستقبل کیا ہوگا اور تیل کی سپلائی کب تک بحال ہوگی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس میں ہفتوں نہیں مہینوں لگ سکتے ہیں اور موجودہ صورتحال میں ایک ایک دن کتنا قیمتی ہے اس کا اندازہ ہر کسی کو ہے۔ میں نے کئی ماہ قبل اوپیک کے مخدوش مستقبل پہ کالم لکھا تھا جس میں تفصیل کے ساتھ بتایا تھا کہ اوپیک کو کس طرح ختم کیا جائے گا۔تیل کی سپلائی کیسے روکی جائے گی جس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ اور اس بحران کو پورا کرنے اور تیل کی سپلائی بحال کرنے کے لئے روس یا کوئی خلیجی ملک نہیں بلکہ خود امریکہ آگے آئے گا جس کے ٹیکساس کے پرمیان تیل کے ذخائر اتنے بڑے ہیں کہ اگلے چند سالوں میں امریکہ دنیا کے بڑے تیل برآمد کرنے والے ملکوں میں شامل ہوجائے گا۔امسال اگست میں امریکہ نے تیل کا سب سے بڑا برآمد کنندہ بننے کی تیاری مکمل کرلی تھی۔پرمیان آئل فیلڈ سے تمام پائپ لائینیں تقریبا مکمل حالت میں خلیج میں تیل پھینکنے کے لئے تیار تھیں۔سٹی گروپ کے ایک جزو ایڈ مورس گروپ کا جو آٹو موبائل میں ڈیل کرتا ہے، دعوی ہے کہ امریکی تیل کی یومیہ برآمد تین ملین بیرل تک پہنچ جائے گی اور تیل کے عالمی بینچ مارک س میں یو ایس کروڈ کا اضافہ ہوجائے گا جس کی لسٹنگ سب سے اوپر ہوگی۔س وقت حرف بہ حرف یہی ہوا ہے۔آرامکو پہ حالیہ حملے سے قبل ہی امریکہ نے اپنی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کردیا تھا۔ اگرآرامکو صورتحال پہ قابو پانے میں ناکام ثابت ہوتی ہے تو برینٹ کی قیمت پچھتر ڈالر فی بیرل ہوسکتی ہے اور اگر اس کے نتیجے میں کوئی جنگ ہوئی تو یہ پچاسی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔یہ اس سے بھی زیادہ ہوگی جب صدام حسین نے کویت پہ حملہ کردیا تھا اور تیل کی قیمت بلند ترین سطح پہ چلی گئی تھی۔ آرامکو حملے کے فورا بعد صدر ٹرمپ نے پرمیان آئل فیلڈ میں پائپ لائن پہ کام تیز کرنے کی ہدایت کردی ہے۔فی الحال تو امریکہ نے ہی تیل کی قیمتیں مزید بڑھنے سے روک دی ہیں لیکن آئندہ وہ کیا کرے گا یہ اس کے موڈ اور دنیا کی ضرورت پہ منحصر ہے۔اس وقت محمد بن سلمان جو آرامکو کونسل کے سربراہ بھی ہیں، مکمل طور پہ واقعہ میں ایران کو ملوث کرنے کی کوشش کریں گے جو موجودہ صورتحال میں بہترین حکمت عملی ہوگی۔اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔