ایران کی اس دھمکی نے بہت سے عالمی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا ہے کہ وہ آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا جس کے بعد عالمی منڈی کو خلیج سے تیل کی سپلائی رک جائے گی جو کل عالمی ضروریات کا 20فیصد حصہ ہے۔ ایران آبنائے کو کیسے بند کرے گا؟ یہ 30میل چوڑی آنہائے ہے۔ اسے بند کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم 20میل تک سمندری جہازوں کو صف بہ صف کھڑا کر دیا جائے یا پھر سمندر میں وہ سرنگیں بچھا دی جائیں جو ہر گزرنے والے جہاز کو تباہ کر دیں۔ یہ دونوں کام ہی ایران کے لئے ناممکن ہیں۔ وہ اتنے جہاز نہیں لا سکتا اور بارودی سرنگوں کو تلاش کر کے تباہ کرنا امریکہ اور مغرب کے لئے بہت آسان ہے۔ اتنی زیادہ بارودی سرنگیں بچھانا اپنی جگہ ایک کارے دارد ہے۔آبنائے ہرمز خلیج فارس کو باقی دنیا کے سمندروں سے ملاتی ہے۔ یہ بند ہو جائے تو چار ممالک قطعی طور پر اپنی برآمدات کرنے کے قابل نہیں رہیں گے اور ان میں ایک ایران ہے۔ باقی تین عراق ‘ یمن اور کویت ہیں۔ خلیج فارس پر سعودی اور امارات بھی ہیں لیکن انہیں دوسری طرف سے دوسرے سمندر بھی لگتے ہیں۔ وہ متبادل تلاش کر لیں گے۔ عراق کے پاس بھی شام اور ترقی کے راستے پائپ لائنوں کا متبادل موجود ہے جو تیل کو بحیرہ روم لے جائیں گی۔ پھر زیادہ نقصان کس کا ہو گا؟ ایران کی بحریہ اتنی طاقتور نہیں ہے۔ سعودی بحریہ اس کے مقابلے میں زیادہ جدید‘ زیادہ تباہ کن اور زیادہ تیز رفتار ہے۔ وہ ایرانی ناکہ بندی کو موثر ہونے سے پہلے ہی غیر موثر کر دے گی اور بالفرض نہ کر سکے تو امریکہ کی مداخلت لازمی ہے۔ ایران امریکہ سے پراکسی جنگ تو شاید لڑ سکتا ہے’’بالمشافہ‘‘ جنگ کا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ دھمکی کا پس منظر امریکہ کا تازہ فیصلہ ہے۔ اس نے ایرانی تیل کی برآمد پر وسیع تر پابندیاں پہلے سے لگا رکھی ہیں جن کی وجہ سے اس کی تیل کی برآمدات 50فیصد کم ہوچکی ہیں لیکن چھ سات ملکوں کو اس نے اپریل تک کی چھوٹ دے رکھی تھی۔ ان میں چین‘ جاپان‘ بھارت ‘ ترکی یونان وغیرہ شامل ہیں۔ اب یہ چھوٹ ختم ہو گئی۔ ترکی اور چین نے چھوٹ ختم کرنے کی مذمت کی ہے لیکن عملاً یہ ہو گا کہ ترکی تو تیل لیتا رہے گا‘ چین بند کر دے گا۔ اس لئے نہیں کہ وہ امریکہ سے ڈرتا ہے بلکہ اس لئے کہ امریکہ نے جوابی اقدام یا تادیبی کارروائی کی تو امریکی ملکوںاور بعض دوسرے اداروں سے چین کا تجارتی لین دین بند ہو جائے گا۔ چین گھاٹے کا سودا نہیں کرے گا۔ یہی حال بھارت کا ہے۔ وہ بھی تیل لینا بند کر دے گا۔ جاپان تو پہلے ہی تابعدار ہے۔ یوں ایرانی تیل کی تجارت ایک تہائی باقی رہ جائے گی۔ ایران معیشت پہلے ہی ناقابل بیاں حد تک مجروح ہو چکی ہے۔ لوگ خط غربت سے نیچے لڑھکتے جا رہے ہیں۔ عام اشیائے ضرورت بھی سرکاری راشن ڈپوئوں سے ملتی ہیں۔ نئے امریکی اقدام کا اثر ایرانی عوام پر ہی پڑے گا۔کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ نئی آفت کے بعد ایران اپنے عوام کو کیسے سنبھالے گا۔ یمن اور شام کی جنگ بدستور جاری ہے اور ایران کے ان پر خرچے بھی۔ اگرچہ یہ خبریں آ رہی ہیں کہ حزب اللہ اور پاسداران کے ان رضا کاروں کی تنخواہیں آدھی کر دی گئی ہیں جو ان دونوں ملکوں میں لڑ رہے ہیں لیکن جو آدھی رقم دی جا رہی ہے‘ اس کا بوجھ کبھی بہت محسوس ہونے لگا ہے کہ صدر روحانی نے کہا ہے کہ ایران کو تیل پر سے انحصار کم کرنا ہو گا لیکن وہ خود بھی نہیں جانتے کہ متبادل پھر کیا ہو گا اس لئے کہ پابندیوں کی وجہ سے بہت سی صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور ’’برین ڈرین‘‘ بھی ہو رہا ہے پچھلے سال 25ہزار تعلیم یافتہ ایرانی نوجوانوں نے ملک سے بھاگ کر یورپ میں پناہ لی۔ ایران نے ایٹمی پلانٹ پر بہت رقم لگائی لیکن پھر اس کا دوست روس پیچھے ہٹ گیا۔ آدھا ادھورا ایٹمی پروگرام نہ بجلی بنانے کے قابل ہے نہ ہتھیار سازی کے۔ ایران کو بھارت پر بہت ناز بھی تھا اور بھروسہ بھی لیکن پچھلے مہینوں میں وہ امریکہ اور سعودی عرب کے بہت زیادہ قریب آیا ہے۔ سعودی عرب بھارت کو صرف تیل ہی نہیں دے رہا‘ وہاں کارخانے بھی لگا رہا ہے۔ ایران کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ چاہ بہار کا منصوبہ اس کے لئے بہت مدد گار ہو گا۔ حیرت انگیز طور پر امریکہ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ بندرگاہ پوری طرح بن جائے اور افغانستان اور وسط ایشیا تک ٹرینوں اور سڑکوں کا نیٹ ورک بھی بہت معیاری طور پر مکمل ہو جائے تو ایرانی معیشت کو بہت فائدہ ہو گا اگرچہ یہ مجموعی بحران کو ختم کرنے کے لئے بہت ناکافی ہو گا۔ ایران شام اوریمن میں کھربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے اور کئے چلا جا رہا ہے۔ سوڈان میں بحران پیدا ہو گیا ہے۔ نئی فوجی جنتا اقتدار سے ہٹنے کو اور عوام اور سماجی طبقے سڑکوں پر سے اٹھنے کو تیار نہیں۔گزشتہ ماہ آمر عمر البشیر کا تختہ زبردست عوامی مظاہروں کے بعد الٹ دیا گیا تھا۔ جنرل عمر البشیر نے 1989ء میں آئینی اور قانونی وزیر اعظم صادق مہدی کا تختہ الٹا تھا۔ پھر انہیں اخوان المسلمون کی حمایت بھی حاصل ہو گئی کہ انہوں نے اس سے اسلامائزیشن کا وعدہ کیا تھا لیکن جب ڈکٹیٹر نے عوام کا قتل عام شروع کیا تو حسن الترابی کی زیر قیادت اخوان الگ ہو گئی۔ جنرل بشیر نے پہلے جنوبی سوڈان میں قتل عام کیا اور اس کی ملک سے علیحدگی کا راستہ ہموار کیا پھر مغربی علاقے دارفر میں لاکھوں مسلمان قتل کر ڈالے۔ اسی وجہ سے انہیں ’’حوش بناغا‘‘ کا قصاب بھی کہا جاتا۔ حوش بناغا نامی گائوں میں وہ پیدا ہوئے تھے۔ان کے خلاف کئی ماہ سے تحریک چل رہی تھی اور انہیں یقین تھا کہ فوج ان کا ساتھ دے گی لیکن اس نے اپریل کے شروع میں ان کا تختہ الٹ دیا۔ نئے حکمران جنرل عوف دارفر کے قتل عام میں عمر البشیر کے ساتھی تھے۔ عوام نے انہیں بھی مسترد کر دیا۔ اب جنرل عبدالفتاح برھان کی سربراہی میں عبوری کونسل حکمران ہے۔ عوام‘ جن کی قیادت پروفیشنل ایسوسی ایشن(ای پی اے) نامی تنظیم کر رہی ہے‘ انتخابات کے اعلان اور سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے جو فوج کو منظور نہیں۔ آنے والے دنوں میں یا تو بحران بڑھے گا یا پھر فوج کو پیچھے ہٹنا ہو گا۔ عوامی حکومت آئی تو وہ یمن جنگ میں سعودی عرب کی اتحادی ہو گی یا نہیں؟ یہ سوال سعودیہ کے لئے ابھی سے پریشان کن ہے۔