جب سے دورافتادہ تھانہ واہی پاندھی ضلع دادو میںسندھ کی کمسن بیٹی گل سما رند کو سنگسار کئے جانے کا واقعہ رونما ہوا ہے میری ہی نہیں فرسودہ روایات سے باغی ہر شخص کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں، ایک اور معصوم کلی کھلنے سے پہلے مسل دی گئی، یہ ہے نیا پاکستان ،تحریک انصاف کا پاکستان، نیاہو یا پراناپاکستان ، کل بھی اس مملکت خداداد میں غریب کی بیٹی کی عزت اور زندگی دائو پر لگی ہوئی تھی اور آج بھی وہ کسی طرح سے محفوظ نہیں ہے۔تحریک پاکستان کے نئے پاکستان کا ذکرمیں نے اس لئے بھی کیا کہ واہی پاندھی کے رندباشندے پی ٹی آئی کے سرداریارمحمدرند کی رعیت میں آتے ہیں اور وہی ان کی زندگی اور موت کے فیصلے کرتے ہیں اور لوگ ان کے سخت سے سخت فیصلے بھی سردار کا حکم اور اللہ کی مرضی جان کر دل وجان قبول کرلیتے ہیں۔اس بار تو حد یہ ہوگئی کہ مبینہ طور پر11سالہ گل سما کو سنگسار کر کے انتہائی غیرانسانی طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔غیرت کے نام پر قتل وغارت گری ملک کے چاروں صوبوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ آئے روز خیبرپختونخوا،پنجاب، بلوچستان اور سندھ میںاس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں کاروکاری، ستی،اور غیرت کے نام معصوم بیٹیوں کو بے دردی کے ساتھ موت کی اتھاہ گہری وادی میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اس سے قبل جیتے جی انسانوں کو گولیوں سے بھون کر تڑپتے لاشے گڑھے کھودکر دبادیئے جاتے تھے تو کہیں کلہاڑیوں کے پے در پے وار کرکے جسموں کے ٹکرے چیل کوئوں کوکھلا دیئے جاتے تھے تو کبھی پریمی جوڑوں کو نشان عبرت بنادیا جاتا ہے کہ ان کے انجام پر زمین بھی کانپ اٹھتی ہے۔دوسرے صوبوں کی نسبت سندھ نے اس قبائلی جرم کے خلاف پیش رفت کی،صوبے میںکاروکاری کے خلاف قانون سازی بھی کی گئی اور قاتلوں کے لئے سخت سزائیں تجویز کی گئیں لیکن اس تاریخ ساز قانون سازی اورچھوٹی بڑی عدالتوں کے صوابدیدی اختیارات کے استعمال کے باوجود پسندکی شادی آج بھی قابل گردن زدنی جرم ہے۔ ایسے پے درپے واقعات میں غریبوں کی بچیاں جرگوں کے اندھے کنوئیں میں زندہ درگور کردی جاتی ہیں لیکن اگر کسی بڑے گھر کی بیٹی یہ راستہ اختیار کرے تو طاقتور اور بااختیار لوگ جرگے بٹھا کر ،دربار لگا کر موت کے سندیسے نہیں بانٹتے ،وہ ان بچوں کی غلطیوں کی پردہ پوشی کر کے انہیں جینے کا ایک محفوظ اور خوشگوارموقع عطا کرتے ہیں ۔یہ ہے وہ دوہرا معیار جس نے طاقتور کو گولیوں سے بھری بندوق تھما کر غریب کے ہاتھ پائوں باندھ کراسے اس کے قدموں میں لارکھا ہے۔دولت کے سحر میں مبتلا اورطاقت کے نشے میں چورحکمرانوں اور چھوٹے بڑے اختیارکے حامل بدکردارچہروں نے زمین پر بسنے والے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو اپنے جبر اوراستبداد کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔جو جتنا طاقت ور ہے وہ اتنا ہی بڑا فرعون ہے، جس کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہے وہ معاشرے کا اہم کردار ہے جو ان کروڑوں مقہور اور مظلوم عوام کو جانوروں کے ریوڑ کی طرح لاٹھی سے ہانکتا اور اپنے نظم وضبط کی مٹھی میں مقید کر کے رکھتا ہے۔ان عام لوگوں کی عزت اور زندگی کی ایک ایک سانس ان طاقتور لوگوں کے رحم وکرم پر ہوتی ہے۔ ان کے مروجہ روایتی قوانین حرکت میں آتے ہیں تو ملک کا آئین اور قانون عام آدمی کی دسترس سے دورمصلحت کی چادر اوڑھ کر کہیں گہری اونگھ میں چلا جاتا ہے۔ واہی پاندھی دادو کا ایک ایسا گائوں ہے کہ جس کے بعد سنگلاخ پہاڑی سلسلے کا آغاز ہو جاتا ہے اور ان دشوار گزار پہاڑوں کے اس پار بلوچوں کی عملداری شروع ہو جاتی ہے جہاں رندوں کے سردار یارمحمد خان رند کاسکہ چلتاہے ،اس علاقے میں چڑیا کا بچہ بھی سردار رند کے صاحبزادے بیبرک خان رند کے حکم کے بغیر پر نہیں مار سکتا۔یہی وجہ ہے کہ دادومیں کوئی واردات کرکے پہاڑوں کے پار چلا جاتا ہے تو اسے مہربان سرداروں کی پناہ مل جاتی ہے لیکن کیا مجال کہ کوئی پہاڑوں کے اُس پار سے کوئی واردات کر کے دادو زندہ پہنچ سکے۔جب تک پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور رکن سندھ اسمبلی غلام میراں شاہ زندہ تھے تو نورانی لاہوت لامکاں کے سجادہ نشین ہونے کی وجہ سے ان کا اس علاقے میںہلکاپھلکا دم درود چل جاتا تھا لیکن جب سے ان کی وفات ہوئی ہے یہ علاقہ شاید یتیم ہو گیا ہے۔ اب ان کے صاحبزادے اپنے والدکی جگہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے ہیں لیکن وہ ابھی جوان اور ناتجربہ کار ہیں، اس لئے ان کے تعویز اوردم درودمیں ابھی اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ سرداروں کے بکھیڑوں میں ٹانگ اڑا سکیں۔ اس لئے کمسن گل سما رند کا مسئلہ آستانوں سے نکل کر اوطاقوں میں چلا گیا ہے جہاں بیبرک خان رند کا ڈنڈا چلتا ہے۔ دادو میں 11 سالہ بچی کو مبینہ غیرت کے نام پر قتل کرنے کا معاملے پر ابھی تک اسرار کے پردے پڑے ہیں۔ کچھ لوگ اسے رشتے کے لین دین کا تنازعہ قراردے کر اس قتل کا رخ بدلنے کی کوششوں میں لگے ہیںاور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سیدھا ساداکاروکاری کا کیس ہے جسے قبائلی روایات میں ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے اور ایسے واقعات میں جرگے بٹھا کر لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے چٹکیوں میں کر دیئے جاتے ہیں لیکن بعض معاملات میں تو جرگہ بلانے اور اس سے رائے لینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور اہداف کو ہاتھ کے ایک اشارے سے پار کردیا جاتا ہے۔ دادو کی معصوم بیٹی کو سنگسار کرنے کے معاملے پر مختلف خبریں گردش کررہی ہیں ،ایک تو یہی کہ بچی پہاڑ سے لڑھک کر جان سے ہاتھ دھوبیٹھی اور نمازجنازہ پڑھا کر اسے دفنا دیا گیا۔ ایک خبر یہ تھی کہ سردار یار محمد رند اور ان کے صاحبزادے کی سربراہی میں جرگہ نے معصوم گل سما رند کو زندگی کے عذاب سے چھٹکارا دلانے کا حکم صادر کیا۔ اس خبر پر سردار بیبرک رند نے اپنے والد اور اپنی کسی ایسے جرگے میں شرکت کی تردید کی بلکہ یہ بھی کہا کہ ہم تو کاروکاری کے ملزمان کا جنازہ تک نہیں پرھاتے،گل سما رند کا تو جنازہ بھی پڑھایا گیاہے۔سندھ کی معصوم بیٹی گل سما رند کا مقدمہ اب زیر تفتیش ہے ، اگر پولیس کسی دبائو میں نہ آئی اور اس بیٹی کو بھی اپنی بیٹی سمجھ کر ایمانداری اور پیشہ ورانہ محنت بروئے کار لا کر ملزمان تک رسائی میں کامیاب ہو گئی تو میں سندھ پولیس کو اس عظیم کارنامے پر سلام پیش کروں گا۔گل سما رند کی طبعی موت ایک سنگین مذاق لگتی ہے ، یہ ایک ایسا قتل ہے جسے تاریخ کے اندھے کنوئیں کی نذر کیا گیا تو پھرمعاشرے کے منہ پر لگی کاروکاری کی کالک کبھی نہیں دھل سکے گی۔