معزز قارئین! الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابا ت کے امیدوار، سیاستدانوں (خواتین و حضرات) کے اثاثوں (Assets) کو منظر عام پر لایا گیا ہے ۔ پتہ چلا کہ’’ آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو زرداری ، عمران خان ، مریم نواز، میاں شہباز شریف ، حمزہ شہباز اور بہت سے سیاستدان اُن کی طرح ارب پتیؔ اور کروڑ پتی ؔہیں ‘‘۔ ماشا ء اللہ!۔ عربی زبان کی ترکیب۔ ماشاء اللہ کے لُغوی معنے ہیں ۔’’ اگر خدا نے چاہا۔ خدا کرے! یا چشم بَددُور ‘‘ ظاہر ہے کہ کوئی بھی شخص (مرد یا عورت) خُدا کی چاہت کے بغیر ارب پتیؔ / کروڑ پتی کیسے ہوسکتا ہے؟۔ چشمِ بَد دُور ۔ یہ خیر خواہوں کا دوستوں/ رشتہ داروں کے لئے دُعائیہ جملہ ہے کہ ’’ خدا تمہیں (کسی کی ) بُری نظر سے بچائے!‘‘۔وہ اور موضوع ہے کہ، جب شاعر نے کہا تھا کہ …

اچھی صُورت بھی ، کیا بُری شَے ہے؟

جِس نے ڈالی، بُری نظر ڈالی!

حقیقت تو یہ ہے کہ ’’ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فی صد پاکستانیوں کی تو، دُور کی نظر کئی سال سے کمزور ہے ۔ کم از کم وہ تو، ارب پتیؔ اور کروڑ پتی ؔ، سیاستدانوں پر کسی قسم کی نظر ڈال ہی نہیں سکتے اور ہاں!۔ مختلف اُلخیال ارب پتیؔ اور کروڑ پتیؔ سیاستدان تو ، ایک دوسرے پر ’’ ضرورت سے زیادہ بُری نظر ‘‘ ڈالنے کے باوجود ، ایک دوسرے کے دوست ہی رہتے ہیں لیکن ، آج کل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اُن کی ’’نظر بازی ‘‘ کمال کے درجے پر ہے ۔ ارب پتیؔ (سو کروڑ) اور کروڑ پتیؔ ( سو لاکھ) بنیادی طور پر سنسکرت اور ہندیؔ کے لفظ تھے/ ہیں ، جو اُردو اور پنجابی میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور پتیؔ بھی ہندی زبان ہی کا لفظ ہے ۔ جِس کے معنے ہیں۔ ’’ پرورش کرنے والا، مالک ، خاوند، شوہر!‘‘۔ بیاہی ہُوئی عورت کو۔ پتنی   ؔ (یعنی۔ بیوی ، جورُو ، زوجہ) کہا جاتا ہے۔ 

اِس لئے گرامر کی رَو سے ، میڈیا والوں کو ، مریم نواز صاحبہ کو کروڑ ؔپتی کے بجائے کروڑ ؔ پتنی لکھنا / بیان کرنا چاہیے تھا ۔ کہیں اُن کے "Uncle" شری نریندر مودی بُرا نہ منا جائیں ؟ ۔ حیرت ہے کہ ’’ میڈیا میں میاں شہباز شریف ، اُن کے بیٹے ، حمزہ شہباز اور سابق وزیر ریلوے ، خواجہ سعد رفیق کے ’’ اثاثوں‘‘ (Assets) میں اِن کی دو ، دو ،بیویوں (پتنیوں) کا بھی تذکرہ ہے ۔ ایک انگریزی محاورے ( Phrase) کے مطابق خاندان کی کسی اہم شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ"He / She is An Asset To The Family" ( یعنی۔ وہ خاندان کے لئے ایک اثاثہ ہے)۔

’’ مصورِ پاکستان‘‘ علامہ اقبالؒ ۔ ’’ بانی ٔ پاکستان‘‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ ’’مادرِ ملّت ‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو بھی  "Assets to the Nation" کہا جاتا ہے ۔ یہ الگ بات کہ 7 اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء نافذ کرنے والے  (پاکستان کے پہلے منتخب صدر) میجر جنرل (ر) سکندر مرزا کی مارشلائی کابینہ میں شامل ہوتے ہی لاڑکانہ ، کے زمیندار وکیل ذوالفقار علی بھٹو نے ، صدر سکندر مرزا کو اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’’ جنابِ صدر! آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں ‘‘۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے اب بھی جنابِ بھٹو کو ، شہیدؔ قرار دیتے ہُوئے انہیں ’’قوم کا اثاثہ ‘‘ قرار دیتے تھے/ ہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی لیکن، پاکستان پیپلز پارٹی کا کوئی نجومی (Astrologer) میڈیا کو نہیں بتا سکا کہ ’’ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے شوہر نامدار (آصف علی زرداری) کو جنابِ بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ میں کوئی عہدہ کیوں نہیں دِیا تھا؟‘‘۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کو ’’ شہید اور قوم کا اثاثہ‘‘ قرار دینے والا کوئی بھی پارٹی لیڈر اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کونہیں بتا سکا کہ ’’پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن (اُن کی رانی ماں) محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور میں 10 دسمبر 1993ء کو وزیراعظم ہائوس میں ، پارٹی کی ’’سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی ‘‘ کے 33 ارکان کا اجلاس طلب کر کے اپنی والدۂ محترمہ ، بیگم نصرت بھٹو کو پاکستان پیپلز پارٹی کی ’’چیئرپرسن شِپ ‘‘ سے برطرف کر کے خُود اُس کی چیئرپرسن کیسے منتخب ہوگئی تھیں ؟ ‘‘ ۔ اہم بات یہ کہ ’’ بیگم نصرت بھٹو کو اُس اجلاس میں مدّعو ہی نہیں کِیا گیا؟۔ 

بیگم نصرت بھٹو کا انتقال 23 اکتوبر 2011ء کو ہُوا۔ اُن دِنوں ، آصف علی زرداری صدرِ پاکستان تھے۔ اُنہوں نے اپنی مرحومہ ’’خوشدامن‘‘ کو ’’ مادرِ جمہوریت‘‘ کا خطاب دیتے ہُوئے قوم کے نام پیغام میں کہا تھا کہ ’’ بیگم نصرت بھٹو ایک قومی اثاثہؔ ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں قد آور مقام رکھتی ہیں اور جمہوریت کے لئے اُن کی لازوال جدوجہد ، جمہوریت پسندوں کے لئے مینارۂ نور ہے! ‘‘۔ جنابِ آصف زرداری نے اپنے دَورِ صدارت میں ، اپنے پسندیدہ صحافی خواتین و حضرات کے ذریعے اپنی ہمشیرہ ، محترمہ فریال تالپور کو ’’مادرِ ملّت ثانی ‘‘ کے طور پر مشہور کرنے کی کوشش کی تھی۔ یادَش بخیر! کہ ’’ 9 اگست 2016ء کو جنابِ ضیاء شاہد کی چیف ایڈیٹر شِپ میں شائع ہونے والے روزنامہ ’’خبریں‘‘ میں کسی ڈاکٹر ، نذیر احمد صدیقی کا مضمون شائع ہُوا جِس کا عنوان تھا ۔ ’’ عِفت مآب بی بی فریال تالپور۔ فاطمہ جناحؒ ثانی ‘‘۔ 

 شاید جنابِ آصف زرداری اِس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ ’’ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ( بعد میں اُن کے ’’روحانی والد ‘‘ کا درجہ حاصل کرنے والے )ذوالفقار علی بھٹو ۔ ’’مادرِ ملّت ‘‘ کے خلاف صدارتی امیدوار ، صدر ایوب خان کے "Covering Candidate" تھے ۔ دراصل ’’نظریۂ ضرورت ‘‘ کے مطابق ’’ صدر ایو ب خان خوفزدہ تھے کہ کہیں اُنہیں الیکشن کمیشن ، سرکاری ملازم (Field Marshal) کی حیثیت سے انتخاب کے لئے نااہل قرار نہ دے دیں؟ ‘‘۔ اگست 2017ء میں لاہور کے حلقہ ’’N-A-120‘‘ کے ضمنی انتخاب میں پاکستان تحریک ِ انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلے میں ، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بیگم کلثوم نواز کو لایا گیا تو، کیپٹن (ر) محمد صفدر نے بھی اپنی ’’ خوشدامن‘‘ کو ’’ مادرِ ملّت ثانی ‘‘ کا خطاب دے کر اُنہیں ’’ قومی اثاثہ‘‘ قرار دِیا تھا۔ (شاید اِسی لئے پوری قوم اپنے اثاثے کو بچانے کے لئے ، اللہ تعالیٰ سے اُن کی صحت یابی کے لئے دُعا ئیں کر رہی ہے؟ ۔ 

معزز قارئین! مجھے نہیں معلوم کہ ’’ اگر علاّمہ اقبالؒ  آج کے دَور میں حیات ہوتے تو ’’ سیاست کے پیشوائوں ‘‘ کے بارے میں کیا کہتے؟ لیکن، اپنے دَور میں اُنہوں نے فرمایا تھا کہ …

اُمید کیا ہے ، سیاست کے پیشوائوں سے!

یہ خاک باز ہیں ، رکھتے ہیں خاک سے پیوند!

…O…

ہمیشہ مورو مگس پر ہے نگاہ ہے اِن کی!

جہاں میں ہے ،صفت ِ عنکبوت ،ان کی کمند!

معروف مؤرخ ، دانشور اور ادیب مولانا غلام رسول مہر ؔنے اِن شعروں کا آسان اردو میں خلاصہ یہ کِیا کہ ’’ آج کل جن لوگوں نے سیاست کی پیشوائی سنبھال رکھی ہے ۔ اُن سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟۔ یہ لوگ تو مٹی سے کھیلنے والے ہیں اور مٹی ہی سے اِن کا تعلق ہے ۔ اِن کی نگاہیں ہمیشہ چیونٹیوں اور مکھیوں پر رہتی ہیں اور دُنیا میں اُن کی کمند مکڑی کے جالے کی سی ہے‘‘۔ علاّمہ اقبالؒ کی اور نظم ’ ’ ابلیس کی عرضداشت ‘‘ کے مطابق ابلیس نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کِیا تھا کہ …

تجھ کو نہیں معلوم کہ ،حورانِ بہشتی !

ویرانی ٔ جنّت کے ، تصور سے ،ہیں غمناک!

…O…

جمہور کے ابلیس ہیں ، اربابِ ؔسیاست!

باقی نہیں ، اب میری ضرورت تہ افلاک!

معزز قارئین! ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ، بھوکے ، ننگے اور بے گھر عوام سے ’’روٹی، کپڑا اور مکان ‘‘ کا وعدہ کِیا لیکن، پورا نہیں کرسکے ؟ لیکن، اب تو سب سے بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کا ہے ۔ کیا ارب پتیؔ اور کروڑ ؔپتنی ’’ارباب ِ سیاست ‘ ‘ کے اثاثوں اور بیویوں کی تشہیر اور عام انتخابات کے بعد اُن کا یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟۔