بھارت اور امریکہ کے درمیان چند روز قبل بنیادی تعاون کا معاہدہ (بی ای سی اے)‘ طے پایا ہے ۔یہ معاہدہ خطے کے دیگر ممالک اور پاکستان کیلئے تشوشناک ہے ۔اس معاہدے کے تحت امریکہ بھارت کو جیوسپیشل انٹیلی جنس، یعنی سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل کی جانیوالی خفیہ جغرافیائی معلومات فوراً فراہم کرے گا۔یہ پیش رفت بھارت کے دفاعی نظام کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔بی ای سی اے آٹومیٹیڈ یعنی خودکار میزائل اور مسلح ڈرون جیسے ہتھیاروں کے نشانوں کی وضاحت اور درستگی کو بڑھا سکتا ہے اور اس کے تحت بھارت کو جدید ترین نقشے اور سیٹلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر بھی فراہم کی جائیں گی۔اگرچہ اس سے قبل بھی بھارت کے پاس سیٹلائٹ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کا نظام موجود ہے تاہم یہ ابھی مکمل طور پر فعال نہیں اور ہدف بنانے کی صلاحیت درست نہیں۔ امریکی مدد سے یہ صلاحیت بہتر ہو سکتی ہے۔ معاہدہ ایک اعلیٰ سطحی ملاقات میں طے پایا جس کیلئے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو اور سیکرٹری دفاع مارک ایسپر بھارت آئے ۔یہ حالیہ برسوں میں بھارت اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے چار بنیادی معاہدوں کے سلسلے کا یہ آخری معاہدہ ہے۔بی ای سی اے سے پہلے دونوں ممالک کی جانب سے سنہ 2016 میں لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ، 2018 میں کمیونیکیشن کامپیٹیبیلیٹی اینڈ سکیورٹی ایگریمنٹ اور 2019 میں انڈسٹریل سکیورٹی اینیکس جو 2019 پر دسخط کیے گئے۔ یہ آخری معاہدہ 2002 میں طے پانے والے جنرل سکیورٹی آف ملٹری انفارمیشن ایگریمنٹ کی توسیع تھی۔ امریکی پالیسیوں کو ممتاز سوشل سائنٹسٹ نوم چومسکی عالمی امن کے لیے خطرہ بیانکرتے ہیں۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی طرف سے کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کو نوبل امن انعام جیتنے کی کوشش قرار دیا۔ان کے مطابق اس کا ثمربار ہونا دشوار ہے۔ پروفیسر نوم چرمسکی کی آراء پر مشتمل ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ بھارت امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اپنے مفادات کی خاطر بڑی ہوشیاری سے استعمال کر رہا ہے۔ دو روز قبل نوم چومسکی نے بھارت امریکہ معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مودی بھارت میں سیکولر جمہوریت کو تہس نہس کر رہے ہیںاور ٹرمپ دنیا کے برے مملاک کا اتحاد بنا رہے ہیں۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں بھارتی معیشت میں ایک قابل قدر ابھار دیکھا گیاہے۔ بھارت کی بہت سی کمپنیاں ملٹی نیشنل ہوئیں اور درجنوں شخصیات بین الاقوامی اداروں کی انتظامی سربراہ مقرر ہوئیں۔ خطے کے حالات میں تبدیلی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نے امریکہ اور بھارت کو معاشی و تجارتی حوالے سے متحد کیا۔ دوسری طرف چین کی نئی بین الاقوامی قوت نے بھارت اور امریکہ کو اپنا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی راہ دکھائی۔ 2019ء میں بھارت امریکہ تجارت اور خدمات کا حجم 149ارب ڈالر تک پہنچنا ان دوطرفہ تعلقات میں اضافے کی گواہی ہے۔ دونوں کے لیے چین ایک معاشی خطرہ ہے جسے کم کرنے کے لیے صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی جنگی تعاون کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ پچھلے چند ماہ کے دوران بھارت امریکہ تعلقات میں کئی نئے پہلو اہم ہوئے ہیں۔ چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی ان تعلقات میں تیز رفتار تعاون کی وجہ بنی۔ بحیرہ ہند اور بحیرہ کاہل میں دونوں نے مشترکہ خطرات کے مقابل مل کر بحری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔نیا معاہدہ بھارت کے لئے کس طرح اہم ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم روز مرہ زندگی میں سمارٹ فون کے ذریعے اپنی لوکیشن تلاش کرنے یا راستہ ڈھونڈنے کے لیے جو جی پی ایس لوکیشن سسٹم استعمال کرتے ہیں وہ کبھی بھی آپ کو بالکل درست نتیجہ نہیں دے پاتا اور آپ کو اکثر اپنے حقیقی مقام یا لوکیشن سے دائیں بائیں ظاہر کرتا ہے۔ جی پی ایس کے ذریعے کسی کی لوکیشن جاننے کے لیے عام طور پر تین سے چار سیٹلائیٹ کا استعمال ہوتا ہے۔عالمی سطح پر امریکہ، روس، یورپ اور چین کے پاس اپنے جیو انٹیلیجنس سیٹلائٹ نظام ہیں جن کی مدد سے وہ دنیا پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہ چاروں ایک دوسرے سے سائنسی اور تکنیکی معلومات بانٹتے ہیں لیکن کوئی خاص معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں فوجی رازوں کا تبادلہ نہیں کیا جاتا۔بھارتی ماہرین کے مطابق بھارت کے سیٹلائٹ اور ریڈار نظاموں میں بہتر ربط کے لیے ’ہر نظام کو ایک ہی زبان میں بات کرنی چاہیے۔‘ امریکہ اپنا نظام دفاعی منڈی میں فروخت کرنے کے لئے کچھ علاقوں میں سکیورٹی مسائل پیدا کرتا رہا ہے،چین کا آس پاس کے سمندر پر پھیلتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے بھارت اور بہت سے دوسرے ممالک سمندر میں چینی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھنے کے خواہاں ہیں۔امریکہ ان کو جیو انٹیلی جنس نظام فروخت کرنے کی کوشش میں ہے۔ معاہدہ یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ سرحد پر کیا ہورہا ہے اور زمینی سطح پر کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ یہی امور بھارت پاکستان سرحد پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ جو دفاعی تعاون بڑھانے کی منصوبہ بندی کی ہے اس کی بنیادی وجہ امریکی مفادات ہیں۔ بھارت کی ضروریات ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاکستان پہلے ہی اپنے دفاعی پروگرام کو امریکی ٹیکنالوجی سے آزاد کر چکا ہے۔ مسئلہ بھارت کی جمہوری آزادی اور خود مختاری کو درپیش ہو سکتا ہے جسے امریکہ اپنے مفادات کے تابع رکھنے کی مکمل منصوبہ بندی کر چکا ہے۔بھارت کشمیر اور خطے کے چھوٹے ممالک کو دبانے کے لئے امریکہ سے تعاون طلب کر رہا ہے جبکہ امریکہ کو اپنا تجارتی مفاد بھارت کے قریب لا رہا ہے ۔اس جوڑ توڑ سے یہ پیغام جا رہا ہے کہ عالمی قوتیں اپنے مفادات کی اسیر ہو کر اپنی عالمی ذمہ داریوں سے مجرمانہ رو گردانی کر رہی ہیں۔