اگرچہ بھارت میں بائیس کروڑ سے زائد مسلمان رہتے ہیں لیکن ہندوا کثریت اور ہندو حکمرانوں کی طرف سے ان کے سروں پرہمیشہ ایک خوف منڈلارہا ہے جس کے باعث وہ خوفزدگی کے عالم میں جی رہے ہیں ۔ دنیاکے کئی حلقوں کی جانب سے بھارت پردبائو ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ روارکھے جانے والے سلوک کوترک کرکے انہیں پرامن زندگی گزارنے کاحق دے لیکن بھارتی حکومت ٹال مٹول سے کام لیتی رہی ہے اب شائد عالمی دبائومیںاضافہ ہوچکاہے اور بھارتی عدم توجہی کومسترد کیاجاچکاہے تواس کے نتیجے میںبھارت سے ایک تہلکہ خیزرپورٹ شائع ہوکر منظرعام پرلائی گئی جس میں اس امرکا برمل ااعترف کر لیاگیا ہے کہ بھارتی مسلمان پہلے سے زیادہ خوف کے عالم میں ہیں اوران پرہو رہے تشدد میں بے پناہ اضافہ ہوچکاہے ۔ 16ستمبر2021ء جمعرات کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں سرکاری طورپراس امرکااعتراف کیا گیاکہ بھارت میں2020ء میں مذہبی فسادات کے واقعات کی تعداد 2019ء کے مقابلے میں دوگنا ہوگئی ۔ بھارت میں جرائم کا ریکارڈ جمع کرنے والے سرکاری شعبے (National Crime Records Bureau's (NCRB) ) کی جانب سے شائع کردہ ایک تازہ رپورٹcrime in india)) میں صاف صاف بتایا گیا کہ بھارت میں فرقہ وارانہ اور مذہبی فسادات کے 857 مقدمات درج کیے گئے جبکہ 2019 ء میں ان کیسز کی تعداد 438 اور 2018ء میں 512 تھی۔اس کے علاوہ ان مذہبی فسادات میں سے 520 واقعات محض نئی دہلی میں پیش آئے، جو متنازعہ شہری قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا مرکز بنا رہا تھا۔ بھارت میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے سبب لاک ڈاؤن کے دوران عوامی نقل وحرکت محدود ہونے کے باوجود مذہبی فسادات میں اضافہ ہوا۔ مذہبی بنیادوں پر تشدد کے سب سے زیادہ واقعات دارالحکومت دہلی میں رپورٹ کیے گئے۔ ہندو اکثریتی ملک بھارت میں دنیا کی تیسری بڑی مسلم آبادی رہتی ہے جبکہ پہلے نمبر پر انڈونیشیا اور دوسرے نمبر پرپاکستان ہے۔ 1947ء میں ہندوستان سے برطانوی راج کاخاتمے کے بعد ایک آزاد بھارت نقشے پر ابھرکر سامنے آیا مگروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ بھارت میں آزادی کامطلب ملک میں ہندوغلبہ ہے اورقیام پاکستان کے بعد بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کوبرطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کاکوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ بھارتی تاریخ پڑھ لیجئے تو یہاں برطانوی سامراج کے بعد ہندوسامراج وجود میں آیا اوراس سامراج کا ہدف بھارتی مسلمان بنا رہا بھارت کی ہندو اکثریت کو بھارتی حکومتوں کی مکمل سرپرستی حاصل رہی جبکہ مسلمان بے یارو مددگار اور کسمپرسی کے عالم میں روند ڈالے گئے۔ 1947ء سے ہی ہندوئوں کی طرف سے مسلم کش فسادات شروع ہوگئے تھے جو اب تک بدستور جاری ہیں اوران مسلم کش فسادات میں اب تک لاکھوں مسلمان شہیدکئے جاچکے ہیں۔ اسی تسلسل میں25 فروری 2020ء کوبھارتی دارالحکومت دہلی میںمسلم کشی کا دل دہلانے والا واقعہ پیش آیا جہاں ہندئووں نے مسلم کش فسادات کے دوران مسلمانوں پربدترین تشددکیا تھا اور انہیں خاک اورخون میں تڑپایا۔دہلی کے شمالی مشرقی علاقے، جہاں مسلمان اکثریت کی آبادی واقع ہے، ہندوجتھوں نے پہلے مسلمانوں کی اس بستی کامحاصرہ کیا پھروہ اس میں داخل ہوئے اور ان مسلم کش فسادات میںمسلمانوں کو تہہ وتیغ کیاگیا۔ دو دن جاری رہنے والے ان مسلم کش فسادات میں 53 افراد ہلاک، اور دو سو زخمی ہوگئے جان گنوانے والے سب مسلمان تھے۔واضح رہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دنیا کی تمام ایسی تنظیموں نے دہلی کے مسلم کش فسادات پر پولیس پر الزام عائد کیا تھاکہ اس نے ہندوغنڈوں کی کھلم کھلامعاونت کی تھی۔ اس کے چند ماہ بعد اگست ئ2020 میں جنوبی بھارتی ریاست کرناٹک کے شہر بنگلور جس کو ڈیجیٹل دنیا کا ایک اہم مقام سمجھا جاتا ہے،ایک مبینہ فیس بک پوسٹ کے ذریعے توہین رسالت کے نتیجے میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔مشتعل مظاہرین نے پولیس سٹیشن، گاڑیاں اور حتیٰ کہ ایک قانون ساز کے بھتیجے کا گھر نذر آتش کردیا، جو مبینہ طور پر اس متنازعہ پوسٹ میں ملوث تھے۔ اس جھڑپوں میں تین افراد ہلاک ہوئے اور ایک سو سے زائد گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں۔دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بھارت میں بھی2020ء کا بیشتر حصہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں گزرا۔ اس دوران نقل وحمل کی وسیع تر پابندیوں کے باعث دیگر جرائم میں تو کمی آئی، لیکن بھارت میں اس دوران بھی نمایاں طورپر مسلمان کرب والم میں رہے اورپیچ وتاب کھاتے رہے ۔ واضح رہے کہ بھارت پرنئی دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات پرعالمی دبائو تھا اوردنیا سے صدائیں بلند ہو رہی ہیں جن میں کہاجا رہا ہے کہ مسلم شہریوں کی جان ،انکے مال مکانات اور دکانوں اوران کی عبادت گاہوں پر حملے پریشان کن بات ہیں۔ امریکا میں عالمی سطح پر مذہبی آزدی کے نگراں ادارے’’یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم‘‘ (یو ایس سی آئی آر ایف) نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے مسلم فسادات پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلا امتیاز مذہب و ملت تمام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔اس نے کہاتھاکہ یہ ادارہ بھارتی حکومت پر زور دیتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے جنہیں ہجومی تشددکا نشانہ بنایاجا رہا ہے ۔خارجی امور سے متعلق امریکی کیمٹی نے بھی دہلی کے مسلم کش فسادات پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام افراد کے تحفظ کو یقین بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔اس سے قبل امریکی سینیٹر ایلزیبتھ وارین نے بھی بھارت پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی تھی کہ پر امن مظاہرین کے خلاف تشدد کو کبھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھاکہ بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی اوران کے اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں سچ بولنے کی اجازت ہونی چاہیے اور پر امن مظاہرین کے خلاف تشدد کو کبھی قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ16ستمبر2021ء جمعرات کو سرکاری سطح پر جاری کی گئی بھارت میں مسلم کشی پرمبنی یہ رپورٹ اسی عالمی دبائو کانتیجہ ہے۔