جناب عمران خان کی سادگی اظہار پر ایک دنیا فدا ہے۔ وہ جو بات کہتے ہیں اسے سن کر لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خان صاحب نے ان کے دل کی بات کی ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں جلوہ افروز ہو کر انہوں نے حیدر آباد یونیورسٹی کا ’’سنگ بنیاد‘‘ رکھا ہے۔ اس تقریب کے موقع پر ان کے تازہ ترین ارشادات سادگی بیان کا شاہکار ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ میں انگریزی تقریر کر کے عوام کی توہین کی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ انگریزی بول کر پڑھے لکھے لگیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نوے فیصد لوگ انگریزی سمجھتے ہی نہیں۔ خان صاحب ایک ایسے طبیب ہیں کہ جو تشخیص تو بالکل درست کرتے ہیں مگر علاج وہی کرتے ہیں جو گزشتہ ستر برس سے وطن عزیز میں نیم حکیم کرتے آئے ہیں۔ حضور! ہم ایک بار پھر آپ کو وہی بات یاد دلاتے ہیں جو چند ماہ قبل خاتون اول نے آپ کو یاد دلائی تھی کہ آپ اب شدت احساس میں جلنے والے بے بس شہری نہیں، آپ وزیراعظم پاکستان ہیں، آپ ہمہ مقتدر ہیں، آپ کی پارٹی آپ کے اشارہ ابرو پر آمنا و صدقنا کہتی ہے۔ فرمان قائد کی تعمیل میںرکاوٹ کیا ہے؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ آئین کے مطابق 1988ء میں نفاذ اردو ہو جانا چاہیے تھا۔ 1988ء کے بعد پاکستانی حکمرانوں میں جس نے نفاذاردو میں کوتاہی کی گویا اس نے آئین شکنی کی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان بارہا اظہار کر چکے ہیں کہ عوام کی اکثریت کو انگریزی سمجھ میں نہیں آتی تو حضور والا! آپ عوام کو بیک جنبش قلم اس اذیت سے نجات کیوں نہیں دلاتے۔ آپ عدالتی ایوانوں میں سرکاری دفاتر میں اور مختلف اداروں میں اردو کو کیوں رائج نہیں کرتے تاکہ سائلین اور مظلومین سرکاری و عدالتی احکامات کو سمجھ سکیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ سابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے ریٹائرمنٹ سے پہلے تاریخی فیصلہ لکھا تھا اور اردو کو بلاتاخیر نافذ کرنے اور سی ایس ایس کا امتحان اردو میں لینے کے احکامات صادر کئے تھے مگر پھر وہی ہوا جو گزشتہ ستر برس سے ہوتا چلا آیا ہے لیت و لعل، حیلہ جوئی، بہانہ سازی، کم کوشی جس کے پیچھے اصل محرک ذہنی غلامی اور طبقاتی برتری ہوتا ہے۔ آپ اس عدالتی فیصلے کو نافذ کیوں نہیں کرتے اور کیوں اعلان نہیں کرتے کہ سی ایس ایس کا اگلا امتحان اردو میں ہوگا۔ یہ افسران جن لوگوں کی خدمت پر مامور ہوں گے انہیں بقول عمران خان اردو آتی ہے انگریزی نہیں۔ جناب وزیراعظم سے بڑھ کر کسے ادراک ہوگا کہ آج دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک نے محیرالعقول کامیابی اپنی اپنی زبان میں حاصل کی اور معیاری عالمی ٹیکنالوجی اور علوم جدید کو اپنی زبان میں ڈھال کر بلکہ جدید سے جدید علوم اپنی زبان میں تخلیق کر کے طلبہ و طالبات کو سمجھائے اور پڑھائے۔ جناب وزیراعظم! جب آپ کا اپنا سب سے بڑا خواب اپنی زبان میں یکساں تعلیم سارے پاکستان کے لیے ہے تو آپ اپنے خواب کی تعبیر اپنی قوم کو کیوں نہیں دیتے۔ جناب وزیراعظم کے علم میں یہ آیت تو ہوگی جس میں رب ذوالجلال نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اے! ایمان والو، تم وہ بات کیوں کرتے ہو جس پر تم عمل نہیں کرتے۔‘‘ وزیراعظم نے تو قوم کو یہ تاثر دے رکھا ہے کہ وہ کسی کے دبائو میں آنے والے نہیں تو پھر نفاذ اردو کے معاملے میں وہ دبائو کا کیوں شکار ہیں۔ اگر جناب عمران خان اردو نافذ نہیں کرسکتے تو پھر آئندہ وہ انگریزی اور انگریزی بولنے والوں کا مذاق نہ اڑائیں اور نہ ہی قوم کو یہ بتا کر کہ نوے فیصد لوگ انگریزی نہیں سمجھتے ان کے زخموں پر نمک پاشی کریں۔ اگر آپ طبقاتی تعلیم انگریزی میں دیں گے تو لامحالہ افسران انگریزی میں بات کریں گے،ججز انگریزی میں فیصلے لکھیں گے اور پارلیمنٹیرین پارلیمنٹ میں تقاریر کریں گے۔ زہریلے دودھ کے دہی سے میٹھا مکھن تو برآمد نہیں ہوسکتا۔ اسی تقریب میں جناب عمران خان نے ایک ایسی بات کہی جو ان کی لاعلمی کا نقطہ معراج ہے۔ خان صاحب نے کہا کہ ہمارے پاس وہ سکالرز ہی نہیں جو مغرب کو جواب دیں۔ ہمارے پاس سکالرز اور علمائے کرام کی ایک ایسی پاکستانی کہکشاں ہے جو مغرب کو نہ صرف ان کے سوالات کا جواب دے رہی ہے بلکہ مغرب کو اسلام کی روشنی سے بھی منور کر رہی ہے۔ فوری طورپر جو نام ذہن میں آ رہے ہیں ان میں لیڈ اسلامک سنٹر برطانیہ کے صدر پروفیسر خورشید احمد، اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز جنہوں نے ایڈنبرا یونیورسٹی یوکے سے پی ایچ ڈی کی ہے، ڈاکٹر خورشید رضوی، پروفیسر محمد الغزالی، ڈاکٹر ایس ایم زمان، ڈاکٹر خالد مسعود، ڈاکٹر محمد اکرم چودھری جو ابھی تک جرم بے گناہی میں جیل میں ہیں، ڈاکٹر فرحت علوی، جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر انیس احمد وغیرہ شامل ہیں۔ سیاست دان سکالرز میں ڈاکٹر طاہرالقادری، ڈاکٹر فرید پراچہ، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کے نام نمایاں ہیں۔ علمائے کرام میں مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، ڈاکٹر راغب نعیمی اور دیگر کئی حضرات شامل ہیں۔ گزشتہ روز اسلامی نظریاتی کونسل نے نیب اور پولیس کا ملزموں کو ہتھکڑیاں لگانا خلاف شریعت قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی نظریاتی کونسل نے اس عمل کو پاکستانی قانون کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے۔ پارلیمنٹ کو تو نیب کی من مانی اور اس کے آمرانہ طور طریقوں کا بنیادی انسانی حقوق کی روشنی میں جائزہ لینے کی توفیق نہیں ہوئی مگر اسلامی نظریاتی کونسل نے ملزموں کو ہتھکڑیاں لگانے کو غیر شرعی قرار دیا ہے اور جسٹس رضا خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کردی ہے جو شریعت اسلامی کی روشنی میں جائزہ لے گی کہ نیب آرڈیننس کی کون سی شقیں اسلام سے متصادم ہیں۔ نیب نے عام ملزموں کو درکنار ستر ستر سالہ واجب الاحترام بزرگ اساتذہ کرام کو ہتھکڑیاں لگائیں اور انہیں ہتھکڑیوں کے ساتھ عدالتوں میں پیش کیا تھا۔ ان اساتذہ میں پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور عربی میں گلاسگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی سابق وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا ڈاکٹر محمد اکرم چودھری بھی شامل تھے۔ اس پر جب میڈیا، سوشل میڈیا اور قوم کے اجتماعی ضمیر نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے فوری نوٹس لیا تھا۔ نیب کی طرف سے بسااوقات ایسے بیانات آتے ہیں جن سے ملزموں کی اہانت کا تاثر ملتا ہے۔ خود جناب چیئرمین نیب سے بھی بعض ایسے بیانات منسوب ہیں جن میں وہ ’’ارب پتی‘‘ ملزموں کو ان کی سابقہ اوقات یاد دلاتے سنائی دیتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز حق گو بھی ہیں خوش کلام بھی ہیں اور علمی مباحث میں برہان قاطع بھی ہیں۔ فقیر سے ان کی پرانی یاداللہ ہے۔ میں نے مزید تفصیلات کے لیے انہیں فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ نیب آرڈیننس کا جائزہ لینے کے لیے جسٹس رضا کی سربراہی میں جو سہ رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے اس میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کی شریعت اکیڈمی کے سابق ڈین ڈاکٹر ساجدالرحمن اور سپریم کورٹ کے ایک ممتاز وکیل ڈاکٹر محمد انور بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اسلامی نظریاتی کونسل کے حالیہ اجلاس کی ابتدا میں نیب، یونیورسٹی تعلیم اور حقوق نسواں کے بارے میں ایک علمی خطبہ دیا تھا۔ اس خطبے کو ہم اپنے قارئین کے ساتھ کسی اگلے کالم میں شیئر کریں گے۔