اکیسویں صدی میں اُردو مزاح کا تذکرہ آتے ہی ذہن میں مزاحیہ مشاعرے اور کامیڈی شو گھوم جاتے ہیں، پھر ان کے بارے میں سوچتے سوچتے دماغ بھی گھوم جاتا ہے۔ مزاح تو ایسی دو دھاری تلوار ہے کہ اکثر بد مذاقوں کو مذاق بن جانے کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ جب کہ یہاں تو یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ مزاح اور مذاق میں ’ح ، ق‘ جتنا نہیں، کوہ قاف جتنا فاصلہ ہوتا ہے۔ مزاح کی بابت ہمارا کامل ایمان ہے کہ یہ خدا کی دین ہے اور اس دین کا احوال موسیٰ سے نہیں قاری اور نقاد سے پوچھنا پڑتا ہے بلکہ یہاں باہر سے زیادہ ممد و معاون اندر کا نقاد ہوتا ہے۔ مزاح کا تھوڑا بہت عنصر ہر انسان کے اندر قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔ ترکیبات، ترغیبات اور ترجیحات اس کے تخصص کا تعین کرتی ہیں۔یہ شاہیں اعلیٰ ترین ذوق اور کامل ترین ہنر کی تدبیروں سے زیرِ دام آتا ہے۔ یہ ادب اور آداب کی دنیا کا وہ واحد قرینہ ہے کہ بادشاہ سے فقیر تک جس کے لیے تشنہ کام دیکھے گئے ہیں۔ عوام و خواص میں ہر طبقۂ فکر کے لوگ اس کی زلفوں کے اسیر پائے گئے ہیں۔ یہ عزیز چونکہ گفتگو، نثر اور شاعری کی سلطنتوں پہ یکساں راج کرتا ہے، نہ صرف راج کرتا ہے بلکہ تینوں سے داد اور دھن کا خراج بھی وصول کرتا ہے۔ تاریخ کی آنکھ نے قدیم ایران کے آمروں سے لے کے موجودہ پاکستان کے ’جمہوروں‘ تک کے درباروں میں رنگ رنگ کے مسخروںکو مصاحبوں کے درجہ پہ متمکن دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برے بھلے بہت سے لوگ آج بھی اس عزیزی کی رفاقت اختیار کرنے کی کاوشیں کرتے ملتے ہیں،کیونکہ ادبی اصناف اور سماجی اوصاف میں یہ ’کماؤ پُوت‘ کے نام سے معروف ہے۔ فی الحال ہم اُردو شاعری کی بات کریں گے، جس میں اس وقت دو طرح کا مزاح لکھا جا رہا ہے۔ ایک وہ جس سے ہنسی آتی ہے، دوسرا وہ جس پر ہنسی آتی ہے۔ پہلی قسم کے لوگوں میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر بدر منیر کا ہے، جن کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ ماتھے پہ لطیفہ سجا کے نہیں چلتے، دوسرے یہ کہ وہ پُرکاری کا کام اداکاری سے نہیں لیتے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مزاح محض مسخرہ پن نہیں بلکہ نہایت سنجیدہ فعل ہے۔ڈاکٹر بدر منیر ہمارے دیرینہ دوست ہیں اور آپس کی بات ہے، وہ ظاہری وجود کے کسی بھی زاویے سے مزاح نگار نہیں لگتے بلکہ دور سے دیکھیں تو تامل ہیرو لگتے ہیں، لیکن ان کی شاعری پڑھ کے دیکھیں تو کامل ہیرو لگتے ہیں۔ ذرا غور تو کریں کہ زیرِ نظر مثال میں انھوں نے برِ صغیر بھر کے ایک دیرینہ سماجی المیے کو شاعرِ مشرق کے نہایت سنجیدہ اور بھرپور تاریخ کے حامل شعر کے ایک مصرعے کی تضمین کے ہلکے سے ٹوِسٹ سے کیا دل فریب شگفتگی عطا کر دی ہے: گھر میں شوہر ، اہلیہ اور ساس بھی موجود ہے ’’کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟‘‘ یہ حقیقت ہے کہ شاعری لطافتیں تلاشنے کا نام ہے، اور مزاح شرارتیں تراشنے کا کام ہے۔ ڈاکٹر بدر منیر کو دونوں کی تدبیر کرنا آ تی ہے۔ اچھے مزاح نگار کا کمال ہی یہ ہوتا ہے کہ جن چیزوں کے تذکرے پر آنسو نکلنے ہوتے ہیں، وہ وہاں گدگدی کا ماحول پیدا کر دیتا ہے۔ محبوب کا تعین اور طلبی ہر آدمی کا نہایت سنجیدہ اور ذاتی مسئلہ ہوتا ہے، وہ مرنے مارنے پہ اتر سکتا ، اس پہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتا لیکن مزاح نویس کی ادا ہی الگ ہے، ملاحظہ ہو: مولا مِری دعا کو اتنا تو ویٹ دے دے گر وہ نہیں تو اس کی فوٹو سٹیٹ دے دے دنیا بھر کے اعداد و شمار مخبری کرتے ہیں کہ ازدواجی مسائل، سماج کی گھمبیرتا کا سب سے بڑا سبب ہیں۔یہ ایسا کار زار ہے کہ جہاں بڑے بڑوںکو زار زار ہی دیکھا گیا ہے۔مزاح نگار کا حوصلہ دیکھیے کہ وہ ایسے معاملات کو بھی لالہ زار بلکہ گل و گل زار کرنے کی سعی کرتا رہتا ہے۔وہ ایسے مسائل پہ جِز بِز ہونے کی بجائے ان پہ تمسخرانہ نگاہ ڈالتا ہے۔ غالب کے بارے میں کسی نقاد نے کہا تھا کہ سمجھ نہیں آتی غالب کو اتنا جدید ہونے کی جرأت کیسے ہوئی؟ جب کہ اسے اپنے زمانے میں زندہ بھی رہنا تھا۔ بعینہـٖ ہم ایسا خراج ایسے شاعروں کے لیے بھی وقف کر سکتے ہیں، جو کوہِ ازدواج سے جوئے شیرِ ظرافت نکالنے میں کامران ٹھہرتے ہیں اور جنھیں شوہر اور شاعر کی دونوں پوسٹوں پہ ایک ہی تنخواہ میں کام بھی کرنا ہوتا ہے۔ اس میدان میں ڈاکٹر بدر منیر کے تیور دیکھیے: شادی ہو جائے تو کتنا فرق زیادہ ہو جاتا ہے بیوی دُگنی ہو جاتی ہے ، شوہر آدھا ہو جاتا ہے شادی سے پہلے تو ویٹ کراتی ہے بعد میں پھر دفتر سے لیٹ کراتی ہے شوہر ایسی سِم ہے جس کو اُس کی بیگم جیسے چاہے ایکٹی ویٹ کراتی ہے وجودِ زن کا حسیں فلسفہ بجا لیکن سکوتِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ عقد کے بعد بہت تھوڑی مدت میں یہ احساس ہوا چینی مال آیا ہے جاپانی کے دھوکے میں اس نے تو فیس بک کو ہی محبوب کر لیا رانجھا بہت مزے سے ہے اب ہیر کے بغیر مزاح گو شاعروں کے موضوعات بالعموم خوف ناک حد تک محدود ہوتے ہیں۔ وہ بیگم اور بکروں کے مسائل سے کم کم ہی باہر جھانکتے ہیں لیکن ڈاکٹر بدر منیر کا مشاہدہ اور موضوعات زندگی کے بے شمار پہلوؤں پر محیط ہیں، جن پہ طبع آزمائی کرتے ہوئے وہ مزاح کا ہر معروف حربہ استعمال میں لاتے ہیں۔ تضمین، تحریف اور تلفیظ پہ انھیں خاص مہارت حاصل ہے۔ کلاسیکی ادب کے گہرے مطالعے نے بھی ان کے کلام کو وقعت عطا کر رکھی ہے۔ پھر اس سب کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی بصیرت بھی قابلِ داد ہے۔ مزاح کے شانہ بشانہ وہ حسبِ ضرورت طنز کی ترکیب بھی استعمال میں لاتے ہیں۔ ان جملہ اوصاف نے ان کے کلام کو رنگا رنگی کے ساتھ ہمہ رنگی سے بھی ہم کنار کر رکھا ہے۔ چند مثالیں دیکھیے: لالچی کتے کا قصہ صرف بچے کیوں پڑھیں؟ لیڈروں کے واسطے بھی یہ سبق آموز ہو فیس بُک پہ مادھوری ڈکشٹ کے جیسا پوز ہو دیکھنے والا بھلا کیسے نہ لطف اندوز ہو اس کی مہمان نوازی ہے سمجھ سے باہر کاٹ کے آم کھلاتا ہے جو تلوار کے ساتھ سو رہا ہے لپیٹ کر کمبل اپنا اے سی slow نہیں کرتا پڑا نہیں کسی گوری سے واسطہ ورنہ زبانِ غیر سے ہم شرحِ آرزو کرتے پیسے جو رکھ کے بھول گیا تھا دراز میں یاد آ گئے ہیں آج اچانک نماز میں اہلِ سیاست کہتے تھے کہ دھرتی سونا اُگلے گی سنتے سنتے کتنی چاندی آ گئی اپنے بالوں میں کہیں سے لائو ارینج کر کے اگر فراری ، تو میں تمھاری کراکے شاپنگ کھلائو سجی ،مٹن، نہاری، تو میں تمھاری کہنے لگا غریب سے سائل کو ایک پیر کھیسے میں کچھ نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں؟