یوں تو ہمارے ممدوح جناب عمران خان روز کوئی نہ کوئی مصرع طرح پیش فرما دیتے ہیں جس پر خواہی ناخواہی گرہ لگانا پڑ جاتی ہے۔ کیونکہ بقول اسداللہ غالب: بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر تاہم روز روز کی سیاست اور معیشت کے تذکروں سے دل اکتا جاتا ہے۔ ہمارا دل ہی کیا خود قارئین بھی اکتا اور گھبرا جاتے ہیں۔ من و سلویٰ سے بڑھ کر کون سا کھانا مرغوب تھا۔ اس سماوی کھانے میں بھنے ہوئے تیتر اور بٹیر تھے۔ مگر اسے روز روز کھا کر بنی اسرائیل کے لوگ بھی اکتا گئے تھے۔ ہمیں بھی آج سیاست سے چھٹی کرنے کا اچھا موقع ہاتھ آیا ہے۔ آج اردو کے سب سے پہلے اور فقیر کی رائے میں ابھی تک سب سے بڑے مزاح نگار احمد شاہ پطرس بخاری کی 60ویں برسی ہے۔ پطرس بخاری 1898ء میں پشاور میں پیدا ہوئے اور 5دسمبر 1958ء کو نیو یارک میں ان کا انتقال ہوا۔ پطرس کا مزاح اعلیٰ درجے کا مزاح کیوں ہے؟ ایسا اس لئے ہے کہ پطرس کے ہاں مزاح زندگی کے اندر سے پھوٹتا ہے‘ اسے باہر سے نہیں ڈالا جاتا۔ پطرس کے ہاں ایسا ہرگز نہیں کہ پہلے کچھ لطیفے جمع کر لئے جائیں پھر ان لطائف کے مطابق کچھ کردار تخلیق کر لئے جائیں اور پھر ان کرداروں پر یہ لطائف چسپاں کر دیے جائیں۔ یہ زندگی کے وہ چلتے پھرتے کردار نہیں ہوتے جن سے میرا آپ کا رات دن سابقہ پیش آتاہے۔ مگر پطرس کے ہاں ایسا نہیں ان کے کرداروں کو دیکھ کر اور ان کے مضامین پڑھ کر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ایسا تو ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے۔ مگر ہم اسے بیان نہیں کر سکے۔ پطرس کے مزاحیہ مضامین کی مختصر سی کتاب پہلی مرتبہ 1930ء میں شائع ہوئی تھی اس طرح آج 88برس کے بعد بھی اس کتاب کی تازگی ‘ شگفتگی اور رعنائی اسی طرح قائم و دائم ہے جیسے دیوان غالب آج بھی زندہ تابندہ ہے۔ ہم نے پہلے سکول میں ‘ پھر ایام کالج میں پھر زندگی کے مختلف مراحل میں اور آج ڈھلتی ہوئی عمر میں بھی ان مضامین کو پڑھتے ہیں تو پہلے سے بڑھ کر لطف اٹھاتے ہیں‘ کوئی اور نگاہوں میں جچتا ہی نہیں۔ اس کا سبب وہی ہے کہ پطرس بخاری چلتی پھرتی‘ دوڑتی بھاگتی‘ ہنستی مسکراتی اور سوچتی و منہ بسورتی زندگی کے اندر سے اسی طرح مزاح برآمد کرتے ہیں جیسے مائیکل اینجلو کہا کرتے تھے کہ مجسمہ تو پتھر کے اندر پہلے سے موجود ہوتا ہے میں تو فقط فاضل حصوں کو الگ کر دیتا ہوں۔ پطرس بخاری کی کتاب میں دیے گئے مضامین ایک سے بڑھ کر ایک مزاح نگاری کا شاہکار ہیں۔ ان کا ایک مضمون ہے’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ یہ ایسا مضمون ہے کہ جسے آج اسی نوے برس گزر جانے کے بعد بھی ہاسٹل میں رہنے والا ہر طالب علم اپنی ہی کہانی سمجھتا ہے۔ ہاسٹل میں رہنے والے اکثر طلباء گھر سے دور آزادی کی زندگی اور پیسوں کی فراوانی سے خوب مزے اڑاتے ہیں مگر جب امتحان قریب آتے ہیں تو پھر طرح طرح کی تدابیر صبح سویرے جاگنے اور پڑھنے کے لئے کرتے ہیں اس دوران جو پرلطف صورت حال پیدا ہوتی ہے اس کی پطرس بخاری نے باکمال منظر کشی کی ہے۔ انہوں نے تقسیم سے پہلے کے لاہور کے ہاسٹل میں اپنے ساتھ والے کمرے کے لالہ جی سے کہا کہ وہ انہیں صبح سویرے جگا دیا کریں۔ اب لالہ جی پطرس کو جگانے کے درپے ہیں اور موصوف خواب غفلت کے مزے لے رہے ہیں۔ دیکھئے لالہ جی کی پطرس کے کمرے پر اپنے فرض کی ادائیگی کی بنا پر مسلسل گولہ باری کے جواب میں اپنے دل میں کیا کہتے ہیں۔ ’’یہ سوتوں کو جگا رہے ہیں یا مردوں کو اٹھا رہے ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی تو وا جبی طور پر ہلکی سی قم کہہ دیا کرتے ہوں گے زندہ ہو گیا تو ہو گیا نہیں تو چھوڑ دیا کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جایا کرتے تھے اور توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے‘‘ ’’مرحوم کی یاد میں‘‘عنوان پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے جیسے کسی مرحوم دوست کا نثر میں مرثیہ لکھا گیا ہو گا مگر دراصل یہ اس پرانی سائیکل کا تذکرہ ہے جو مزاح نگار پطرس کے ہاتھ اس کے ایک بہت پرانے دوست مرزا نے خستہ حال سائیکل کی تعریف میں قصیدہ پڑھ کر فروخت کی تھی۔ مرزا کے دیئے ہوئے ’’دوستانہ تحفے‘‘ پرانی سائیکل نے مزاح نگار کے ساتھ کیا سلوک کیا اور آخر میں مصنف نے اس سائیکل کے ساتھ کیا کیا اس کا منظر بھی دیکھ لیجیے۔ مرزا کی کھڑکھڑاتی ہوئی سائیکل کے کل پرزے بیچ چوراہے کے ایک دوسرے سے نالاں ہو کر الگ الگ ہو گئے۔ اب مزاح نگار سائیکل کے الگ الگ پہیوں اور ٹوٹے ہوئے ہینڈل اور پیڈلوں کو اٹھائے ہوئے سڑک پر جا رہے ہیں اور لوگ اس منظر پر اظہار ہمدردی کے بجائے کیا کیا تبصرے کر رہے ذرا ملاحظہ کیجئے۔ ’’ایک آواز آئی’’ بس حضرت غصہ تھوک ڈالئے‘ ایک دوسرے صاحب بولے ’’بے حیا بائیسکل گھر پہنچ کے تجھے مزہ چکھائوں گا‘‘ ایک والد اپنے لخت جگر کی انگلی پکڑے جا رہے تھے‘ میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگے’’دیکھا بیٹا یہ سرکس کی بائیسکل ہے اس کے دونوں پہیے الگ الگ ہوتے ہیں‘‘تمام تر پیچ و تاب کے باوجود مزاح نگار چلتا گیا حتیٰ کہ آبادی سے دور نکل آیا۔ اس دوران وہ سائیکل کے کئی فاضل پرزوں سے نجات پا چکا تھا۔ اب سائیکل کے دو پہیے مصنف کے ہاتھ میں رہ گئے ان کے ساتھ پطرس نے کیا سلوک کیا یہ منظر بھی قابل دید ہے۔’’میں چلتا گیا حتیٰ کہ دریا پر جا پہنچا پل کے اوپر کھڑے ہو کر میں نے دونوں پہیوں کو ایک ایک کر کے اس بے پروائی کے ساتھ دریا میں پھینک دیا جیسے کوئی لیٹر بکس میں خط ڈالتا ہے اور واپس شہر روانہ ہو گیا‘‘ پطرس بخاری کے مزاح کے بعد بہت سے مزاح نگار اچھے لگے کیونکہ بقول شاعر: تجھ سے بچھڑ کے صحبت گل میں ملا قرار اس میں بھی کچھ تو ہے تری بو باس کی طرح اوائل جوانی میں کرنل شفیق الرحمن کو جو بعد میں جنرل بھی ہو گئے اور اسم باسمیٰ تھے‘ بہت شفیق انسان تھے‘ انہیں بہت پڑھا۔ تقریباً سبھی کتابیں‘ حماقتیں‘ مزید حماقتیں مدو جزر‘ لہریں دجلہ وغیرہ۔ ان کا رومانٹک مزاح بڑا صحت مندانہ مزاح ہے جس میں تہہ آب کی طرح ایک غمناک لہر بھی موجود ہوتی ہے۔ کرنل محمد خان کی پہلی کتاب بجنگ آمد نے بھی دل کو بہت لبھایا تھا۔شوکت تھانوی کی ’’سودیشی ریل‘‘ بھی باکمال مزاح نگاری کی ایک بہت عمدہ مثال ہے۔ اسی طرح ابن انشاء کے ہاں ایک بڑا لطیف مزاح موجود ہے۔ مشتاق یوسفی کی پہلی کتاب’’چراغ تلے‘‘ پڑھ کر دل جھوم اٹھا کہ اس میں آمد ہی آمد ہے آورد نہیں مگر اس کے بعد کی کتابوں میں آوردکی خاصی آمیزش ہے بلکہ بعض مقامات پر تو انگریزی محاورے کے مطابق Laboured Humourمحسوس ہوتا ہے۔ پطرس بخاری 1950ء سے 1954ء تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے اپنے وطن کی نمائندگی کرتے رہے۔ ان کی تقریریں شیکسپئر اور دوسرے بلند پایہ انگریزی ادیبوں کے حوالوں سے لطیف بلند و مزاح سے مزین ہوتی تھیں۔1954ء میں تیونس فرانس سے آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔ ان دنوں اقوام متحدہ میں تیونس کے مسلمانوں کی آزادی کے حق میں پطرس بخاری نے یادگار تقریریں کیں جس کا اہل تیونس دل و جان سے اعتراف کرتے ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک مجھے تیونس کے ایک سفر کے دوران ایک لائبریری کے لائبریرین سے گفتگو کرتے ہوئے وہاں ایک سڑک کا نام بھی پطرس کے نام پر رکھا ہے۔پطرس بخاری مسلمانانِ ہندو و پاک کی علمی و ادبی کہکشاں میں آج بھی جگمگا رہے ہیں۔