ایک دوست سے بات ہورہی تھی‘ اسے عام ناموں ،رویوں اور محاروں کے حوالے سے مقامی الفاظ کی عدم دستیابی کا شکوہ ہے ۔اس کا کہنا تھا کہ دو روز پہلے کے تمام اخبارات نے بھارت کے خلاف اقوام متحدہ میں جمع کرائے گئے دہشت گردی کے ثبوتوں کو ڈوزئیر لکھا ہے۔ ڈوزئیر ایک انگریزی لفظ ہے۔ سوال یہ تھا کہ بڑے بڑے میڈیا ہائوسز میں کیا انحطاط اس سطح پر آ پہنچا ہے کہ انگریزی الفاظ کا موزوں متبادل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ صرف ڈوزیئر پر ہی موقوف نہیں آج ذرائع ابلاغ میں ایسے سینکڑوں الفاظ زبان زدعام ہورہے ہیں جو اردو کے مزاج سے لگا نہیں کھاتے۔ بی اے کے بعد اخبار میں نوکری ملی، اردو کی چند معیاری کتب پڑھنے اور بعض اہل علم کی صحبت کے باعث ایک ہی قابلیت تھی‘ انگریزی سے اردو میں رواں ترجمہ کرلیتاتھا۔ قدرت اللہ چودھری صاحب سے ایک بار کالم لکھنے کی اجازت چاہی‘ دوستوں نے آگاہ کیا کہ چودھری صاحب مخصوص انگریزی اخبار سے ترجمے کی آموزش کراتے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے سیٹلائٹ کی زمین سے لانچنگ کی انگریزی خبر میں برسٹ آف کا مطلب پھٹ جانا سمجھ لیا۔ سزا کے طور پر انہیں تربیتی مرحلے پر ہی فارغ ہونا پڑا۔ ہمارے بزرگ دوست اور اسلام آباد میں مقیم استاد ڈاکٹر گوہر نوشاہی نے ایک عمدہ کام کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اردو‘ دری‘ آذری‘ فارسی اور وسط ایشیا کی دو تین دوسری زبانوں میں بولے جانے والے دس ہزار ایسے الفاظ تلاش کئے جو ایک ہی آواز اور معانی کے لیے ملتی جلتی املا کے ساتھ مستعمل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’فرہنگ مشترک‘‘ میں ان تمام الفاظ کی فہرست درج ہے۔ ڈوزئیر کے استعمال پر اعتراض کرنے والی دردانہ نجم انگریزی میں کالم لکھتی ہیں،دردانہ سے بات ہوئی کہ اردو ہماری قومی زبان ہے جو پچھلے چھ سات سو سال میں مختلف مقامی و غیر مقامی الفاظ کے ملاپ سے بنی۔ اردو کی ابتدائی پرورش بادشاہوں کے دربار میں رائج تکلفاتی ماحول اور شاعروں کے ہاتھوں ہوئی۔ کسی کو آپ نے اعلیٰ مرتبت بتانا ہو تو سو القاب لگا کر نام لیا جاتا رہا ہے۔ حکمرانوں کی آمد پر اعلانچی ایسے طویل نام پکارنے کا ہنر جانتے تھے۔ اردو کی درخواستوں میں یہ درباری اور خوشامدی پن اب تک موجود ہے۔ شاعروں کے موضوعات عشق‘ محبوب اور خمریات سے متعلق تھے‘ اس لیے اردو کے دامن میں ان کے لیے مترادفات کے موتی جمع ہوتے رہے۔ اقبال نے اردو کی لفظیات میں فکری اور ملی تراکیب شامل کیں۔ اردو نے مقامی جڑی بوٹیوں‘ رسوم‘ مزدوروں‘ آلات پیداوار‘ مصوری‘ سائنس اور جدید کھیلوں کے لیے ذرا سا تردد نہ کیا۔ اردو پر الزام کیوں دھریں فورٹ ولیم کالج کے زمانے میں جو تراجم ہوئے ان کے بعد اردو دانوں نے عملی زندگی میں مستعمل چیزوں اور معاملات کے نام تشکیل دینے کا کام چھوڑ دیا۔ تن آسان محققین نے یہ نظریہ گھڑ لیا کہ اردو میں ہر زبان کے الفاظ شامل کئے جا سکتے ہیں تو انگریزی الفاظ استعمال کرنے میں کیا حرج ہے۔ کاش یہ لوگ قوم اور زبان کے درمیان تعلق کا ادراک کرسکتے۔ کتنے ہی الفاظ ہیں جنہیں آج ہم صرف اس لیے بولتے ہیں کہ ان کا اردو میں متبادل معلوم نہیں۔ میں نے تھوڑی کوشش کی تو ڈوزئیر کا متبادل فارسی لفظ پروندہ مل گیا۔مستنصر حسین تارڑ صاحب نے لفظ محضر نامہ بھی متبادل کے طور پر بتایا۔ اسی طرح آپشن کا گزینہ‘ ٹیلی فون کا دورگو‘ ہسپتال کا مریض خانہ‘ ٹیچنگ میتھاڈالوجی کا علم اصول‘ میڈیا کا رسانہ‘ بولیٹن کا ابلاغیہ‘ نیریٹو کا شرح یا روایت اور کسی جماعت کی مدد کے بنا منتخب ہونے کی طاقت رکھنے والے الیکٹ ایبلز کو نخبہ کہا جاتا ہے۔ تھرمامیٹر کو تپش پیما کہنا کتنا موزوں لگتا ہے۔ یقینا بہت سے لوگ اصرار کرتے ہیں کہ انگریزی الفاظ اور ناموں کا خوامخواہ مشکل عربی اور فارسی الفاظ سے ترجمہ کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ یہ ضرورت نہ ہوتی تو ہندوستان ٹیلی ویژن کا ترجمہ دور درشن کیوں کرتا‘ ڈرائیور کو چالک کیوں کہتا۔ وبا کے لیے ہندی لفظ مہا ماری کیوں برتتا۔ ایسا اس لیے کیا گیا کہ وہ خود کو ہر لحاظ سے دوسری قوموں سے الگ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ فارسی اور عربی بولنے والے بھی اسی طرح ترجمے کرکے الفاظ کو عام بول چال میں لا رہے ہیں۔ ترجمہ اصل زبان کا مزاج برقرار رکھتے ہوئے الفاظ کو نئی زبان میں ڈھالنے کا آرٹ ہے۔ بہت سے لکھاریوں نے ترجمے کے فن پر اپنی آرا پیش کیں‘ کئی شہرہ آفاق لکھاری مترجم بھی تھے۔ اچھا ترجمہ اسے کہا جاتا ہے جو بین السطور لکھے کو بھی گرفت میں لے لے۔ تخلیقی ترجمہ کرنے والے لفظی ترجمہ کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ نئی زبان میں اصل تحریروالی زبان کے تمام ذائقے‘ حسیات اور رنگ بھرلیتے ہیں۔ متن کو ڈھالنے‘ لفظیات میں تبدیلی اور کچھ نئی تحریر شامل کر کے اصل تحریر کو مقامی مارکیٹ کے لیے موزوں بنایا جاتا ہے۔ اردو کا دامن جدید الفاظ سے بھرا نہ گیا تو پاکستان لسانی طور پر بے شناخت ہوسکتا ہے۔ اردو کی ابلاغیاتی قوت بڑھانے کے لئے ایک تجربہ مقامی الفاظ سے کیا جاسکتا ہے ، پنجابی کا ایک لفظ ہے ، چار چفیرے۔ اس کو اردو کا لفظ چاروں اور یا چہار جانب کے معانی میں لیا جا سکتا ہے لیکن یہ الفاظ اس کی محیط پر مبنی معنویت کا پورا احساس سامنے نہیں لا پاتے۔اتھرا کسے کہتے ہیں اس کو اردو میں کیا کہیں گے۔ تارڑ صاحب کی اس رائے سے اختلاف ممکن نہیں کہ ترجمہ ہو بہو نہیں ملتا مگر اردو لسانیات پر کام کرنے والے یونہی ذرائع ابلاغ سے دور رہے تو لشکری زبان صرف امریکی لشکروں کی زبان بن کر رہ جائے گی مقامی تہذیب کا عنصر مفقود ہو جائے گا۔زبان قوم کے دفاع کا ابلاغیاتی ہتھیار ہوتا ہے ، ہمیں ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں۔