اردو کوئی قدیم زبان نہیں۔فورٹ ولیم کالج کوئی پرانی کہانی نہیں۔اس کی بنت کیسے ہوئی اس نے فارسی زبان کی جگہ کس طرح لی۔ کیا فارسی زبان صرف مسلمان شناخت کی وجہ سے انگریزوں نے ختم کی؟ اسے ہندی، ہندوی کہا جائے یا اردو، اسے دیونا گری رسم الخط میں لکھا جائے یا عربی رسم الخط میں اسے انگریزی کی جگہ یہاں دفتری زبان کی جگہ لینے میں کیا مشکلات ہیں اور کیا قباحتیں ہیں۔ ایک مدت سے یہی بحثیں چل رہی ہیں۔ان مباحث کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ درد مندوں کو اسی بحث میں الجھائے رکھو اور اپنا کام اسی طرح جاری و ساری رکھو۔یہ بحث مباحثے کرتے رہیں گے اور اختلافی نکتے نکلتے آئیں گے۔دردمند اسی میں مصروف رہیں گے مگر اس میں ایک خیر کا وہ پہلو ہے جو حکومتی بزرجمہروں کی سوچ سے ارفع ہے۔وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ بحث مباحثہ اردو زبان کے مسائل کو زندہ رکھے گا۔اور زندہ رکھے ہوا ہے۔ہمارے آئین میں اس کے نفاذ کی مدت لکھی ہوئی ہے۔مگر لکھا تو آئین میں اور بھی بہت کچھ ہے جب اس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے تو یہ مسئلہ ان کے نزدیک کتنی اہمیت کا حامل ہو گا۔اس کو وہ بھی سمجھتے ہیں اور آپ اور ہم سے بھی کچھ پوشیدہ نہیں ہے۔آئینی حدود کا اگر باقی معاملات میں خیال نہیں رکھا جا رہا تو اس کا گلہ بھی بے وقت کی راگنی ہی سمجھا جائے گا۔کسی کو یہ جاننے کی شاید ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ اردو دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ غالب کے وقت یہ اردو بھی تھی اور ریختہ بھی۔ فارسی بین تا ببینی نقش ہائے رنگا رنگ بگزر از منجموعہ اردو کہ بے رنگ من است ریختہ کو اب اردو کی ادبی زبان ہی سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں جملے کی ساخت قدیم لاطینی زبانوں کی طرح ہے۔ اس کے نفاذ کے بارے میں ہمارے اپنے بہت سارے تحفظات ہیں۔اردو پاکستان میں آٹھ فیصد سے بھی کم لوگوں کی مادری زبان ہے یوں یہ پاکستان کی نمائندہ زبان قرار دی ہی نہیں جا سکتی۔اسے آئین میں پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے یہاں تو عربی کو بھی سرکاری زبان کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔پاکستان کا چار قومیتوں کا ذکر ہے ان کے حقوق تو ابھی تک نہیں ملے۔خود ہماری مادری زبان جو پاکستان کی سب سے بڑی زبان ہے مر رہی ہے کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہے۔ دوسری قومی زبانوں کی قیمت پر اس کا فروغ بہر حال کسی طرح قرین انصاف نہیں۔اس زبان میں ہمارا سارا ادبی سرمایہ ہے اور یہی ہماری ادبی زبان ہے۔دوسری زبانیں بھی ہمیں اس سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ ایک سوال اس کو تعلیم کی زبان بھی بنانا ہے۔اردو نفاذ تحریک والوں کا کہنا ہے کہ اردو میں سائنسی کی ایف ایس سی تک تمام کتب موجود ہیں۔ اردو سائنس بورڈ اور مقتدرہ قومی زبان میں اردو سائنس کی کتب موجود ہے۔جامعہ عثمانیہ میں آج سے سو سال پہلے انگریزوں کے دور میں میڈیکل و انجنیرنگ کی تمام تعلیم اردو میں دی جاتی تھی۔ پاکستان قومی زبان تحریک کی بنیاد سائنس دانوں اور ماہر تعلیم نے رکھی ہے اس تحریک کے بانی پروفیسر اشتیاق احمد جو سینئر سائنسدان اور استاد ہیں ۔انہوں نے اپنے محدود وسائل سے لامحدود سائنسی کتب کو اردو میں ڈھالنے کا کام کیا ہے ان کے سائنسی مضامین کے لیکچرز گریجویشن کی سطح تک کتابی شکل میں یو ٹیوب پر موجود ہے۔اگر حکومت اعانت کرے تو ہم اس سے بھی زیادہ کام کرنے کو تیار ہیں۔پاکستان میں سائنس کوئی بھی انگریزی میں نہیں پڑھا سکتا یہ ہمارا چیلنج ہے سائنس کا تمام لیکچر اردو میں دیا جاتا ہے بس امتحان انگریزی میں ہوتا ہے تعلیم کے نام پر یہ فراڈ صرف پاکستان کا خاصا ہے کسی اور غلام ملک کا نہیں۔ اس کا ایک اور اہم پہلو بھارت میں اردو زبان کی پتلی حالت کا ہے۔ معلوم ہوا ہے اور لکھنو سے ہمارے دوست قاضی زکریا کا کہنا ہے کہ اپنی روایتی تہذیب کی قصیدہ خوانی اور شیعہ مرکزیت کے لئے چہار دانگ عالم میں اپنی خصوصی شہرت کے حامل شہر لکھنئو کی عزاداری کی مرکزیت ابھی برقرار ہے۔ سبطین آباد سعادت علی خاں کا مقبرہ بڑا چھوٹا امام (بارگاہ) سلطان المدارس جامعہ ناظمیہ اور شیعہ کالج تک اس مرتبہ ہندی جی سدا سہائے ہیں۔ اردو کا جنازہ شب سیاہ کی تاریکی میں انتہائی خاموشی کے ساتھ کہیں دفن ہو چکا ہے۔ جگہ جگہ سبیلوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ نوجوانوں کے سر اور ماتھے پر یا حْسینؑ کی پٹی بھی اب ہندی میں ہے اور سبیل سقائے سکینہ کے تمام تر بینرز ہندی میں عزاداروں کے سواگت میں شوبھا یاترا مگن ہیں۔ علاوہ روضہ اقدس کی شبیہہ کے کہیں کوئی لفظ بھول چوک سے بھی اردو میں نہیں ہے اور تو اور بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی ندارد۔ نقط بائے بسم اللہ کی معرفت سے نا آشنا۔ یہ حالت اس شہر کی ہے جہاں اردو کے ناز نخرے برداشت کیے جاتے تھے۔اس کے رسم الخط تلفظ اور زیر زبر کی کوتاہی گناہ تھی۔ جہاں شعری روایت پروان چڑھتی تھیں۔دونوں ممالک میں اردو کا کوئی پرسان حال نہیں۔اس زبان کی اپنی روایات اور خدمات ہیں مگر ہمارا ماننا ہے کہ سیاسی طور پر اس زبان نے پاکستان کو نقصان زیادہ پہنچایا ہے اور فائدہ کم۔ مگر بھائی آئین آئین ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭٭