مری آنکھیں ترے قربان کہاں جاتا ہے اے مرے خواب پریشان کہاں جاتا ہے تو مری راکھ اڑاتا تو پتہ چل جاتا دل سے جی اٹھنے کا ارمان کہاں جاتا ہے کیا کروں خیالات کی آمد آمد ہے موسم ہی کچھ ایسا ہے کچھ سیاست بھی انگیخت لگاتی ہے توجو ہر شب نیا پیمان وفا باندھتا ہے صبح ہوتے ہی پیمان کہاں جاتا ہے، پھر سے تو چاٹنے جائے اسی پتھر کو، عقل کر دل نادان کہاں جاتا ہے۔ہوش تب آتا ہے جب وقت گزر جاتا ہے پر ہو جاتا ہے نقصان کہاں جاتا ہے۔ یہ بھی بس شعر میں ہے کہ ہوش آ جاتا ہے وگرنہ ہم تو اسی ڈگر پر رواں ہیں اب ڈار صاحب تشریف لائے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مفتاح اسماعیل نے استعفیٰ نواز شریف کے سامنے لندن میں پیش کیا مگر وہ وزیر خزانہ کا حلف یہاں اٹھائیں گے چلیے انہیں نامزد تو وہاں سے کیا گیا کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یہ ن لیگ قانون لیگ بنتی جا رہی ہے۔ غلام احمد بلور نے درست کہا کہ نواز شریف بھی ساتھ آتے تو کیا مضائقہ تھا اب مضائقہ کا لفظ آپ کو آسان سے سمجھ میں نہیں آئے گا۔ کسی طالب علم نے یہ لفظ فقرے میں استعمال کیا تھا کہ حلوے میں کشمکش ڈالنے سے اس کا مضائقہ اچھا ہو جاتا ہے میں نے کش مکش لکھا ہے ’’کش مش‘‘ نہیں خیر تفنن ایک طرف ہم تو پہلے لکھ چکے کہ اگر نواز شریف اس مٹی کا فرزند ہونے کا ثبوت دیں ، واپس آ جائیں ان کے بارے میں تاثر کچھ اچھا نہیں بن رہا۔ ہیرو رسک لیتے ہیں اور اب تو خطرے والی بھی کوئی بات نہیں۔ حکومت آپ کی اپنی خواہ صرف دارالخلافہ میں ہے۔اگر آپ آ جائیں تو یہ آئے دن جو لوگ مشاورت کے لئے لندن جاتے ہیں ان کا خرچہ بچے گا۔خیر خرچہ بھی ان کا کہاں ہوتا ہو گا شباز شریف تو فرماتے ہیں کہ امریکہ کا خرچہ بھی انہوں نے جیب سے کیا: مجھ کو مارا ہے اسی ایک غلط فہمی نے میں سمجھتا تھا مجھے خوب نظر آتا ہے ویسے لندن میں ہونے والی میٹنگز کا ایک فائدہ تو ہے کہ اس کی آڈیو لیکس نہیں ہوتیں اگر ہو بھی جائیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ویڈیو لیکس تو روز کا معمول ہے ۔یہ کہنا کہ اس سے فلاں کی اصلیت کھل گئی یا کوئی بے نقاب ہو گیا‘ ایک ہنسی والی بات ہے لبادے تو کب اتر چکے شرم نام کی چیز تو کب کی رخصت ہو چکی۔سیاست تو ہے ہی ڈھٹائی کا کام مقابلے پر جھوٹ بولنے کا نام۔ یہ تو عوام ہیں جو اپنے اپنے رہنمائوں کے جھوٹ سن کر داد دیتے ہیں: میں ایسے بات سنتا ہوں کہ تو جھوٹا نہیں لگتا کہا جا رہا ہے کہ آڈیو لیکس پر وزیر اعظم ہائوس کی سکیورٹی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ایسے ہی نہیں کہتے کہ دیواریں بھی کان رکھتی ہیں مگر ابھی تو صرف آڈیو لیکس ہوئی جس پر اعتراضات بھی لگ سکتے ہیں شہباز شریف نے نوٹس لیا ہے اور عمران خان نے تحقیقات کا کہا ہے چلیے کچھ دن یہ رونق لگی رہے گی۔ صورتحال دلچسپ ہے کہ اسلام آباد کی حکومت ہر طرف سے گھری ہوئی اور عمران خاں کی غلط فہمی دور ہو گئی ہے کہ یہ ان کا کمال ہے پنجاب حکومت محفوظ اور مضبوط ہاتھوں میں ہے پنجاب آئندہ بھی فیصلہ کن صورت حال میں ہو گا کہ اس میں ساٹھ سے ستر سیٹیں تو الیکٹی بلز ہیں۔ پرویز الٰہی ایک طاقتور آدمی ہیں ان کا ڈوپ ٹیسٹ کروایا جا سکتا ہے ان ساری انرجی اپنی نہیں بلکہ انہیں سٹیرائڈ دیا گیا ہے عمران خاں بہرحال بھانپ چکے ہیں کہ پنجاب حکومت پر آسرا نہیں کیا جا سکتا۔ پرویز الٰہی شریف برادران پر کبھی یقین نہیں کریں گے کہ کئی بار وہ ڈسے جا چکے ویسے بھی نواز شریف معافی دینے والوں میں سے نہیں محتاط وہ بلا کے ہیں اب سارا انحصار اسحاق ڈار پر ہے کہ کوئی شعبدہ بازی دکھا کر وہ ڈالر کو نیچے لائے اور معیشت کو اوپر اٹھائے کیونکہ شہباز شریف کی پی ڈی ایم کی چال تو انہیں الٹا پر چکی ہیں وہ مگر وقت لے رہے ہیں ۔ عمران خاں بڑی فارم میں ہیں اور وہ ایک مرتبہ پھر درمیان والی وکٹ اڑانے کی بات کر رہے ہیں۔ویسے بھی کرکٹ میں مڈل سٹیمپ اڑانا ہی کمال ہوتا ہے وہ ان سونگ کی بات کر رہے ہیں کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ پچ بھی ذرا مواسچر والی چاہتے ہیں اور ہوا میں تیزی بھی۔وہ مقبول تو ہیں۔ عمران خاں کی باتوں سے ہیجان چھلکتا ہے پہلی مرتبہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کا نام استعمال کیا ہے کہ ان کو ان سونگ پر آئوٹ کریں گے۔ فضل الرحمن بولڈ نہیں ہو سکتے کہ وہ تینوں وکٹیں بلاک کر کے کھیلتے ہیں وہ زیادہ سے ایل بی ڈبلیو ہو سکتے ہیں وہ تو پی ڈی ایم کے کیپر ہیں۔ ویسے ڈار صاحب کچھ نہ کچھ ضرور پرفارم کریں گے۔آپ کو یاد ہو گا کہ انہوں نے اپنے سابقہ دور میں کہاں کہاں ٹیکس لگا دیا تھا کہ لوگوں نے پراپرٹی خریدنا بند کر دی تھی خاص طور پر پلاٹس وغیرہ سارا کھیل تو تاجروں کا ہے سرکاری ملازم کو ویسے بھی ان کے ذاتی ملازم ہیں اور ان کی تنخواہیں سکڑ کر آدھی رہ گئی ہیں۔پنشن لینے والے تو بالکل ہی مارے گئے کہ وہ تو کہیں سے اور پیدا بھی نہیں کر سکتے۔ حالات سمجھ میں نہیں آ رہے جہاں سونگ کی باتیں ہو رہی ہیں وہاں ریورس سونگ کا امکان بھی ہے اس کی ایک مثال احسن اقبال کا بیان ہے کہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سے بری ہو چکے نیب عدلیہ کوئی جواب نہ دے سکی اور احسن اقبال فرما رہے ہیں کہ سپورٹس سٹی اجاڑنے پر عمران پر کیس بنائوں گا اور اضافی لاگت ان سے وصول کروں گا۔ ونر کون سا گھوڑا ہو گا گھوڑے تو سارے اپنے ہیں آخری بات یہی دیکھنے والی ہے کہ کیا ڈار ٹارزن ثابت ہونگے نواز شریف کا ہر اول دستہ۔ فوزیہ شیخ کا ایک شعر: میں نے ایک ٹوٹے ہوئے دل میں خدا ڈھونڈ لیا لوگ کعبے سے بھی ناکام چلے آتے ہیں ٭٭٭٭٭