معزز قارئین! کل 9شعبان (15 اپریل کو ) عالم اسلام میں ، فرزند ِ امام عالی مقام حضرت امام حُسین ؑ اور سجّاد (بہت ہی زیادہ سجدے کرنے والے ) حضرت امام زین اُلعابد ِ ین کا یوم ِ ولادت منایا گیا۔ جب مَیں نے ہوش سنبھالا تو، میرے والد صاحب ، تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان نے بتایا تھا کہ ’’ ہمارے آبائو اجداد کا تعلق راجستھان کے شہر اجمیرؔ سے تھا ۔ جنہوں نے سُلطان اُلہِند ، خواجہ غریب نواز ، حضرت معین اُلدّین چشتی ؒکے دستِ مبارک پر اِسلام قبول کِیا تھا۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک کِیا اور اردو میں پہلی نعت لِکھی جو، لائل پور ( اب فیصل آباد) کے ’’ ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ میں شائع ہُوئی۔ مَیں نے 1961ء میں گریجویشن کی تو مجھے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے یہ اشعار پڑھنے اور سمجھنے کا موقع مِلا کہ … ’’ شاہ ہست حُسینؑ، پادشاہ ہست حُسین ؑ دِیں ہست حُسینؑ ، دِیں پناہ ہست حُسین ؑ سَرداد ، نَداد دست ، در دستِ یزید حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہست حُسین ؑ یعنی۔’’ ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حُسینؑ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام حُسینؑ ہی ہیں (آپؑ نے دِین کی بقا کے لئے ) اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا‘‘ ۔ 1981ء کے اوائل میں خواجہ غریب نوازؒ خواب میں ، لاہور میں میرے گھر رونق افروز ہُوئے ۔اُنہوں نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا ۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کر اُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو وہ مُسکراتے ہُوئے غائب ہوگئے۔ آنکھ کُھلی تو مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور اُنہیں بتایا ۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے بیڈ روم میں تو خُوشبو پھیلی ہوئی ہے! ‘‘۔ پھر خواجہ غریب نوازؒ کی برکت سے میرے لئے ،مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کُھل گئے ۔ ستمبر 1983ء میں مَیں نے خواب دیکھا کہ ’’ مَیں اور 1961ء سے میرے سرگودھوی دوست ( سابق ہفت روزہ ’’نُصرت ‘‘ لاہور کے سابق ایڈیٹر ) سّید علی جعفر زیدی کہیں پیدل جا رہے ہیں ۔ راستے میں ایک خشک دریا آیا ۔ مجھے زیدی صاحب نے کہا کہ ’’ میرا اور آپ کا یہاں تک ہی ساتھ تھا ۔ آگے آپ جائیے !‘‘۔ مَیں نے دریا میں قدم رکھا ، دراصل وہ دلدل تھی۔ مَیں گھبرا گیا ۔پھر اچانک میرے مُنہ سے از خُود ’’یا علی ؑ ‘‘ کا نعرہ بلند ہُوا اور مجھے محسوس ہُوا کہ کسی نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر چھوڑ دِیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’ تُم پر مولا مشکل کُشا حضرت علی ؑ کا سایۂ شفقت ہے ‘‘ ۔ سیّد علی جعفر زیدی 1983ء سے ’’مولا علی ؑ کے سایہ ٔ شفقت ‘‘ میں لندن کے بہت بڑے بزنس مین اور لیبر پارٹی کے اہم لیڈرہیں ۔ مَیں نے اُنہی دِنوں مولا علی ؑ کی منقبت لکھی ۔ مطلع اور ایک بند یوں ہے… نبی ؐ آکھیا سی ، وَلیاں دا وَلی ؑ مولا! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! …O… واہ! نہج اُلبلاؔغہ ، دِیاں ،لُوآں! سارے باغاں وِچّ ، اوس دِیاں ،خوشبواں! پُھلّ پُھلّ مولاؑ ، کلی کلی مولا ؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! …O… لوکھی آکھدے نیں ، شیر تَینوں یزداں دا! سارے نعریاں توں ، وڈّا نعرہ تیرے ناں دا! تیرے جیہا نئیں کوئی ، مہاؔبلی مولا ؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! …O… سارے وَلیِاں دے ، بُلھاں اُتّے سَجدی اے! مَن موہ لَیندی ، جدوں وَجّدی اے! تیری حِکمتاں دی ، وَنجھلی ؔمولا ؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! ستمبر 1991ء میں مجھے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی ۔ مَیں نے اپنے دو صحافی ساتھیوں کے ساتھ گاڑی میںبیٹھ کر ، اُتر کر ، پیدل چل کر اور بیٹھ کر۔ ’’ سارے جگّ تُوں ، نرالِیاں دِسدِیاں نَیں ،مدنی سرکار ؐ، دِیاں گلیاں‘‘دیکھیں ۔ پھر واپسی پر ایک نعت لکھی ، جس کے دو شعر ہیں… یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپؐ کا! اَرض و سَماء ہے ، حلقۂ انوار ، آپؐ کا! …O… مولا علیؑ و زَہراس، حسنؑ اور حسینؑ سے! عرشِ برِیںسے کم نہیں ، گھر بار آپؐ کا! 2011ء میں ، میرے دو لہوری دوست ۔ سیّد یوسف جعفری اور سیّد شاہد رشید میرے گھر پر تھے ۔ جعفری صاحب نے پوچھا کہ ’’ برادرم اثر چوہان !۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ’’ سانحہ ٔ کربلا میں حضرت امام حسین ؑ کے چند عقیدت مند ’’ہندو براہمن‘‘ بھی شہید ہُوئے تھے؟ ۔ مَیں نے کہا کہ ’’ جی ہاں!‘ ‘ لیکن، مجھے دُکھ ہے کہ۔ اُس دَور میں ہندوستان کا کوئی راجپوت ؔ۔ امامِ عالی مقام ؑ کے ساتھ شہید کیوں نہیں ہُوا؟۔ پھر معزز قارئین! مَیں نے پنجابی زبان میں ۔’’ جے کربل وِچّ مَیں وِی ہوندا‘‘ کے عنوان سے ،میں نے امام عالی مقام ؑ کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کِیا ۔ نظم کا مطلع اور دو بند یوں ہیں … جے کربل وِچّ مَیں وِی ہوندا! …O… تیرے ، غُلاماں نال ، کھلوندا ! پنج ستّ وَیری ، ماردا ، کوہندا! فیر مَیں ، مَوت دی ، نِیندر سوندا! جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا! …O… نذرانہ دیندا ، جان تَے تن دا! غازی عباس ؑؔ دا ، بازُو بَن دا! حُر، دے ، سجّے ہتّھ ، کھلوندا! جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوند!ا معزز قارئین! گذشتہ 20سال میں ، میرے تین دوستوں ،سیّد رضا کاظمی، سیّد قمر زیدی اور سیّد عباس کاظمی نے ، تحریکِ نفاذِ فقۂ جعفریہ پاکستان کے سربراہ ،آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی سے میری تین ملاقاتیں کروائیں۔ مَیں نے آغا جی کی فرمائش پر دانشور، کیمیکل انجینئر اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد عباس کاظمی کی کتاب ’’ مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ (جنّت کے چراغ) کا پیش لفظ لِکھا ‘‘۔ میرے پیش لفظ کے نیچے کاظمی صاحب نے وضاحت کردی تھی کہ ۔ ’’ اثر چوہان صاحب کاتعلق اہل سُنت سے ہے لیکن آپ اہلِ بیت ؑکا بہت احترام کرتے ہیں ‘‘۔ آغا موسوی صاحب ، ایک ایسے درویش ہیں جو کبھی کسی بھی حکمران کے دربار میں نہیں گئے ۔ میری اُن سے آخری ملاقات 21 جنوری 2016ء کو علی مسجد راولپنڈی میں ہُوئی۔ ملاقات میں اسلام آباد میں رہائش پذیر ،میرا داماد ،معظم ریاض چودھری میرے ساتھ تھا ۔ آغا جی نے مجھے اپنے دونوں قانون دان بیٹوں سیّد محمد مرتضیٰ موسوی اور سیّد علی رُوح اُلعباس موسوی سے ملوایا اور فرمایا کہ ’’مَیں چاہتا ہُوں کہ میرے دونوں بیٹے وکیل کی حیثیت سے ، علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی طرح قوم کی خدمت کریں!‘‘۔ 30 اپریل 2017ء کو حضرت امام حُسین ؑ کا یومِ پیدائش تھا۔ اُسی روز مَیں نے اپنے کالم میں ،اپنی مندرجہ بالا نظم ( منقبت )کے دو بند بھی شامل کئے ۔ اُسی شام مجھے ،برادرم سیّد عباس کاظمی نے فون پر بتایا کہ ’’ آغا جی کا اپنے تمام رُفقاء کے لئے یہی فرمان ہے کہ ’’آج سے اثر چوہان صاحب کو۔ حُسینیؔ راجپوت کہا جائے!‘‘۔ تو، معزز قارئین!۔ آج حسینی راجپوت بارگاہِ امام زین اُلعابدین ؑمیں حاضر ہے ۔ آپ ؑ کی منقبت حاضر خدمت ہے… مَسجُود بھی ہے خَنْداں ، کہ سجّاد ؑ ، آگئے! …O… شاہانِ اہل بَیت کے ، شَہزادؑ ، آگئے! مَسجُود بھی ہے خَنْداں ، کہ سجّادؑ ، آگئے! …O… پِھر ، آفتابِ رُشد و ہَدایَت ، ہُوا طُلوع! اِنسان بن کے ، اَمرِ خُداداد ، آگئے! …O… خُوش ہو کے ، شہر بانو ؑؔ سے ، کہنے لگے ، حسین ؑ! لو ! پاسبانِ عَظمتِ اَجداد ، آگئے! …O… پا کر خبر شِتاب ، ہُوا قُدسِیوں میں ، شور! ’’چَشمۂ خَیر ، صاحبِ اِرشاد ، آگئے! …O… مِینار نُور ، مَشعل نہج اُلبلاغہ ہیں! اہلِ صَفَا کے مُرشد و اُستاد آگئے! …O… وہ آگئے ، مُفسّرِ معراجِ مصطفیؐ! اَوصافِ ذُوالجلال کے ، حَمّاد ، آگئے! …O… یاد آئے جب ، نبِیرۂ مَولا علی ؑ ، اثرؔ! سب مومنِین کرب و بَلا ، یاد آگئے!