پہلا منظر: شہنشاہ سازشیوں میں گھر گیا ہے ۔بغاوتیں سر اٹھا رہی ہیں ، اصل سازشیوں تک پہنچنے میں اسے مشکلات کا سامنا ہے ، قریبی ساتھی نا اہل ہیں ، اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لیے انہوں نے شہنشاہ کے سینئر وزیر کی جھوٹی سچی چارج شیٹ اس کے سامنے پیش کر دی ہے۔ شہنشاہ کنفیوژڈ ہے ،کمزور اور نا اہل قریبی شخص کی بات مان کر قابل اعتماد وزیر کو ہٹا دے یا قابل اعتماد وزیر کو بچا لے اور اپنے نا اہل دست راست کو تبدیل کر دے ۔ کنفیوژن کئی روز سے چل رہی ہے ، شہنشاہ مخمصے کا شکار ہے ، اپنے دیرینہ ساتھی کے خلاف قدم اٹھانے کو تیار نہیں ، وہ دیرینہ ساتھی جو شہر کے اہم معاملات کو بڑی خوبی سے سر انجام دیتا تھا آج سازش اور غداری کا الزام سہہ رہا ہے۔شہنشاہ کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وزیر صاحب کی سرکوبی کے بغیر معاملات ِ ریاست نہیں چلائے جا سکیں گے،اسے اس کے منصب سے ہٹانا ضروری ہو گیا ہے ۔ شہنشاہ ایسی کیفیت میں ہے کہ اندازہ نہیں کر پا رہا وزیر کو ہٹانے کے بعد ریاست کیسی صورتحال سے دوچار ہوگی، معاملات قابو میں آ جائیں گے یا قابو سے نکل جائیںگے۔کچھ مہینوں کی کشمکش کے بعد شہنشاہ اپنے قریبی ساتھیوں کی بات مان لیتا ہے اور اپنے سب سے سینئر وزیرپر سازش کا الزام لگا کر منصب سے ہٹا تا اور زندان میںڈال دیتا ہے ۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ شہنشاہ گمراہی کا شکار ہے ، نا اہل لوگوں کو اپنے ارد گرد متعین کر رکھا ہے اور سمجھتا ہے کہ نا اہل لوگوں سے کاروبار حکومت چلا لے گا۔ ڈرامے کا ہیرو اسے بار بار سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ جناب! امورسلطنت اہل لوگوں کے حوالے کیجئے ورنہ امت مسلمہ مشکلات سے دوچار ہو جائے گی مگر شہنشاہ خود فریبی کا شکار ہے اسے یہ مغالطہ ہو گیا ہے کہ نا اہل لوگ ہی قابو میں رہیں گے ،اہل لوگ تو پر پُرزے نکال کر خود سر ہو جاتے ہیں اور سازشوں میں مصروف بھی۔جوں جوں کھیل آگے بڑھ رہا ہے شہنشاہ کی حکمت عملی غلط ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ دوسرا منظر:اب دوسری ریاست کا ایک منظر دیکھئے۔ شہنشاہ کا سب سے اہم آدمی ’’تیتوش ‘‘ نامی ایک’’سردار‘‘ ہے۔بلا کا نا اہل ہے ۔ ایک بھی کامیابی ابھی تک اس کے حصے میں نہیں آئی۔جس محاذ پر بھی گیا ساتھیوں کی جانیں گنوا کر آیا۔ جس قبیلے میں بھی داخل ہوا رسوا ہو کر نکلا۔کارکردگی صفر ہے مگر پھر بھی کہانی کا ایک اہم کردار ہے ۔اس کا مقابلہ ارطغرل جیسے بہادر سے ہے اورشہنشاہ کو دیکھئے اپنے تیتوش کوہی ـ’’ ارطغرل پلس ‘‘ سمجھتا ہے ۔یہ ارطغرل پلس مسلسل ناکامیوں کے باعث جھنجلاہٹ کا شکار ہے جس سے اس کی کارکردگی مزید متاثر ہو رہی ہے۔لوگ اس کی ناکامیوں کے باعث اسے ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر شہنشاہ کی آنکھوں پر پٹی پڑی ہے ۔شہنشاہ اسے ہر بار نئی ذمہ داری سونپ کر اس سے نئی امیدیں باندھ لیتا ہے اور وہ شہنشاہ کو ہر بار پہلے کی طرح مایوسی سے دوچار کرتا ہے مگر اپنے عہدے پر برقرار رہتا ہے۔ڈرامہ دیکھنے والوں کو سمجھ نہیں آ رہا آخر ایک بڑی ریاست کا سربراہ اتنا نا اہل کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلسل ناکامیوں سے دوچار کسی شخص کواس کے عہدے سے برطرف نہ کرے اور اس سے مسلسل امیدیں باندھے رکھے۔ دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں، یا تو اس کے پاس کوئی دوسرا اہل شخص موجود ہی نہیں یا وہ عدم تحفظ کا شکار ہے اور سمجھتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کے آنے سے معاملات گرفت سے باہر نہ ہو جائیں ، مگر کیوں ہوں گے اسے یہ سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ وہ شہنشاہ ہے ، سب سے طاقت ور۔ اس کے مقابلے میں کوئی اور شخص طاقت بن کر کیسے کھڑا ہو سکتا ہے ، کوئی ایسا کر ے گا تو اس کا سر کچلنے کا اختیار ہے اس کے پاس۔مگر پھر بھی خوف نے شہنشاہ کوزنجیروں میں جکڑ دیاہے ۔ ڈرامہ ابھی پورا تو نہیں دیکھا میں نے مگر صاف نظر آ رہا ہے یہ تیتوش اس شہنشاہ کو کامیابی نہیں دلا سکتا۔ تیسرا منظر: ایک او ر قبیلے کا سردار سخت مشکل میں ہے ۔ اس کا اتحادی ’’کردوغلو‘‘ نامی ایک شخص ہے ۔ذاتی مفادات اور سرداری کے شوق نے اسے سازشوں پر اکسا رکھا ہے ۔کردوغلو کے پاس اکثریت نہیں پھر بھی سازشوں کے ذریعے سردار بننا چاہتاہے۔کبھی دشمنوں سے جا ملتاہے تو کبھی سردارہی کے قریبی ساتھیوں کو بغاوت پہ اکسانے لگتاہے۔قبیلہ مشکلات سے دوچار ہے۔مالی مسائل ، دشمن کا خوف اور موسم کی سختیاں۔ ان مشکلات سے فائدہ اٹھا کر کردوغلو سردار کو بلیک میل کر رہا ہے اور خود سرداری پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔سردار کو سارا کھیل سمجھ آ رہا ہے مگر روایات اور مشکلات کے ہاتھوں مجبور ہے۔چاہتے ہوئے بھی سازشوں کا جال بننے والے دوغلے کردوغلو سے نمٹ نہیں پا رہا اور خود کو حالات کے رحم وکر م پر چھوڑ کر صرف اللہ سے مدد کا طلب گا ر ہے ۔ سردار کافی مذہبی شخص ہے اور عقائد کا پکا۔ اللہ سے مدد کا ہر وقت منتظر رہتاہے ، اسے یقین ہے کہ اللہ پکے اور سچے مسلمان کی مدد کرتا ہے وہی سازشیوں کے حملوں کو ناکام بنائے گا اور وہی کامیابیاں عطا کرے گا۔ ڈرامہ دیکھنے والوں کو مگر سمجھ نہیں آ رہی کہ جب سازش کی بو آ رہی ہے تو اس کی سرکوبی کے لیے عملی قدم کیوں نہیں اٹھایا جا رہا ۔اپنے ساتھیوں ہی کو کھل کھیلنے کا موقع کیوں دیا جا رہے ہے۔ چوتھا منظر: شہنشاہ شادی کا شوقین ہے ۔ اسے کسی سے عشق ہو گیا ہے ۔جانتا ہے کہ وہ کسی اور کی ہے مگر پھر بھی اس کو اسی سے عشق ہو گیا ہے ۔جنگ سر پر ہے اور سازشیوں کی چالیں عروج پر۔بہت سے لوگ اس موقع پر شہنشاہ کی شادی کے مخالف ہیں اور بہن ناراض۔ شہنشاہ بہن کو ناراض کر کے شادی کا فیصلہ کر لیتا ہے۔اگلی قسطوں میں دیکھئے شادی کامیاب رہتی ہے یا نہیں۔ خیر یہ شہنشاہ کا ذاتی معاملہ ہے ہم اس میں نہیں پڑتے۔نوٹ:ڈرامہ جاری ہے ۔ میں نے ابھی اس کھیل کی صرف چالیس اقساط دیکھی ہیں۔جو دیکھا اس کا خلاصہ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ مجھے یہ ڈرامہ’’ ارطغرل‘‘ دیکھنے کا خیال وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کی گئی اس کی تعریف کے بعد آیا۔امید ہے انہوںنے خود بھی دیکھا ہو گا۔