عدالت نے میاں نواز شریف کو ایک مخصوص عرصے تک بغرض علاج ایک کیس میں حاضری سے متشنیٰ قراردیا تھا ۔حکومت نے مسلم لیگ ن کے سربراہ کی ضمانت پر انتہائی مستند ڈاکٹروں کی رپورٹوں کو دیکھتے ہوئے انہیں بغرض علاج باہر جانے کی اجازت دی۔ نہ وہ واپس آئے اور نہ ان کی ضمانت میں توسیع ہوئی ہے۔ سمن لندن بھیجے گئے لیکن جواب ندارد۔ عدلیہ کا ذہن بن گیا ہے کہ میاں صاحب نے ملک سے باہر جانے کے لیے نہ صرف عدالت کو بلکہ پوری قوم کو دھوکہ دیا۔ میاں صاحب جس اعتماد کے ساتھ جہاز میں سوار ہوئے اور لندن میں اپنی سیاسی مصروفیات جاری رکھے ہوئے ہیں عدل کا تقاضا بن گیا ہے کہ عدالت انہیں واپس بلائے تاکہ وہ اپنے خلاف لگے سنجیدہ الزامات کا سامنا کریں لیکن وہ سمن تک وصول نہیں کرنا چاہتے۔ ایک شہری کے احساس ذمہ داری اور فرض شنا سی کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ عدالت کے تقاضے پر ملک واپس دوڑا چلا آئے! یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ عدالت کو انہیں بلانے کے لیے پاکستان ہائی کمیشن کی خدمات لینا پڑتی ہیں اور وہ اپنے انکار پر جمے رہتے ہیں۔ کہاں گیا قانون اور آزاد عدلیہ کا احترام؟ حکومت نے انسانی ہمدردی دکھائی تھی، اب پشیمان نظر آتی ہے ۔اپنی غلطی کے خمیازے کے لیے سفارتی کوششیں بروئے کار لارہی ہے ، عدلیہ اپنے طور پر انکی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد ضبط کرنے کا حکم دے چکی ہے۔ میاں صاحب پاکستان آتے ہیں یا نہیں ، یہ معاملہ ایک معمے کی صورت اختیار کرگیا ہے اور اسی معمے کے حل سے ہی ملک اور قوم کی نئی منزل کا تعین ہوگا۔ میاں صاحب پر کرپشن کے الزامات تھے اور وہ اس سلسلے میں قید و بند کی سختیاں بھی جھیل رہے تھے۔ انکے بیرون ملک فرار ہونے سے احتساب کے شکنجے میں پھنسے دیگر افراد کے دل میں پھْر سے اڑنے کے ارمان انگڑائیاں لینے لگ گئے ہیں۔ میاں صاحب کے باہر جانے سے متعلق ممکنہ ڈیل کی افواہوں کے تناظر میں سیاسی منظرنامے پر ہلچل پیدا ہوئی ہے ، آل پارٹیز کانفرنس تک کردی گئی اور حکومت سے نجات کا لائحہ عمل بھی سامنے آگیا۔ جلسے جلوسوں ، دھرنوں اور لانگ مارچ کا پروگرام بھی بن گیا تاکہ عددی طور پر کمزور اور معاشی طور پر اپاہج حکومت کو چاروں شانے چِت گرادیا جائے۔ اس کارخیر کے لیے بیانیہ کسی اور نے نہیں نواز شریف نے دیا ہے، اپنے طویل ویڈیو خطاب کے ذریعے۔ یہ بیانیہ پرنٹ ، الیکٹرانک اورسوشل میڈیا پر نہایت سرعت سے آگے بڑھایا جارہا ہے کہ حکومت ناجائز طریقے سے لائی اور مسلط کی گئی ہے۔ اس پر مستزاد اسکی نااہلی جس نے لوگوں سے انکی روٹی تک چھین لی ہے۔اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن کا اسمبلیوں کے ناجائز ہونے کا استدلال بڑی اپوزیشن پارٹیوں نے تسلیم نہیں کیا لیکن وہ اس راستے پر ضرور چل پڑی ہیں کہ انجام کار اسمبلیاں ٹوٹ جائیں اور نئے انتخابات کا راستہ ہموار ہو۔ احتجاج، دھرنوں ، جلسوں اور لانگ مارچ کے معیشت اور امن عامہ پر مضمرات اپنی جگہ، آئین سازی کا بائیکاٹ اپنا رنگ دکھا کر رہے گا۔جس شدو مد کے ساتھ احتساب کا عمل جاری ہے، سابقہ حکمرانوں کو اس کے شکنجے سے نکلنے کے لیے اتنا ہنگامہ اور شور پیدا کرنا ہوگا کہ قوم اپنی زندگی میں سکون کو قانون و انصاف کی عملداری پر مقدم سمجھنے لگیں۔ سیاسی پارٹیوں کی جمہوری اور پارلیمانی نظام میں کلیدی حیثیت اور حالات کی نزاکت کے تناظر میں ایسی حکمت عملی سفاک اور بیباک لگتی ہے لیکن کیا کریں اشرافیہ کی سیاست کچھ ہوتی ہی ایسی ہے کہ یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔اپنی پالیسی سازی کے معاملے میں غیر جمہوری رویے کی حامل سیاسی پارٹیاں ماضی میں بڑے کارنامے سر انجام دے چکی ہیں، باری کی حکومت کے لیے میثاق جمہوریت سے لیکر اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لیے این آرو کے حصول تک اور پھر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری کے حصول سے لیکر مقامی حکومتوں اور احتساب کے نظام کو اپاہج کرنے تک کے سارے کارنامے انہیں پارٹیوں نے ہی تو انجام دیے ہیں۔ انتخابات اور پھر احتساب کے معاملے پر ناچاقی کو اگر تیزی سے بدلتے سٹریٹجک ماحول کے تناظر میں دیکھا جائے تو سیاسی خلفشار تصویر کا بھیانک رخ پیش کرتا ہے۔ مستقبل کا مورخ اس معاملے پر ضرور غور کریگا کہ جب معیشت تباہی کے دہانے پر ہو، پوری دنیا کی توجہ پاکستان کو منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے سدباب پر گڑی ہو اور بھارت اس نازک صورتحال کا فائدہ اٹھانے کے لیے بے تاب ہو تو ایسے میں سیاسی قیادت کی داخلی امن اور آئین سازی کے معاملے میں بے حسی کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ اگر پاکستان میں اشرافیہ کی بجائے حقیقی سیاست ہوتی تو کورونا کی ظہور پزیری کے وقت ملک اس وبا اور اسکی آڑ میں آنے والے معاشی دبائو کو برداشت کرنے کی کتنی صلاحیت کا حامل ہوتا؟ سب سے بڑھ کر ،ایک واقعتاً نمائندہ پارلیمان کی موجودگی میں بھارت کو اپنی من مانیاں کرنے کا موقع ملتا بھی یا نہیں۔ ابھی تو صرف احتسا ب کی بات ہوئی ہے اور آپ سرحدیں پھلانگ گئے ہیں۔ گلگت بلتستان کو آئین حقوق مل گئے اور سینٹ میں صوبائیت پرستوں کی اجارہ داری ٹوٹ گئی تو پھر کیا ہوگا؟ مذہب اور زبان کو ڈھال بنا کر مذموم مقاصد کے لیے کام کرنے والی عوام دشمن قوتوں کی حوصلہ شکنی کے لیے وفاق نے اس سے بھی زیادہ سوچ لیا تو پھر آپ کس حد کو پار کرنے کا سوچیں گے؟ پھْر سے اڑنے کا ارمان اپنی جگہ لیکن گردوپیش کے حالات بڑے نازک ہیں، آشیانہ میں قیام رہے تو بہتر ہے۔