اللہ کرے ہمیں عقل آ چکی ہو اور ہم نے اس بات کا احساس کر لیا ہو کہ ہم سی پیک کے حوالے سے ایک بڑے مغالطے میں مبتلا کیے جا رہے تھے۔ میں نے یہ گفتگو عمران خان کی حکومت آنے کے بعد شروع نہیں کی تھی۔ اس سے پہلے ہی حکمرانی کے بعض قرینے دیکھ کر کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہمیں آئی ایم ایف کی طرف ہانکا جا رہا ہے اور اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم سی پیک سے منہ موڑ لیں۔ یہ گویا ایک پیکج تھا جس پر ہم سے عمل کرایا جانا طے پا گیا تھا۔ خاص کر جب شمشاد اختر ہماری نگران وزیر خزانہ بنا لی گئی اور انہوں نے شرح سود میں اضافہ شروع کیا اور ساتھ ترقی کی رفتار کو کم کرنے کی بات کی اور ڈالر کی قیمت بڑھانے کا عمل شروع کیا، تو صاف عرض کیا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑے جا رہے ہیں۔ یہ عمل اگرچہ مفتاح اسماعیل کے زمانے سے شروع ہو گیا تھا۔ ایک ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ ہم قرضوں کے اس جال میں جکڑے جانے پر مجبور کیے جا رہے تھے۔ میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ اس ملک میں جب سیاسی بحران پیدا کیا گیا تو دراصل یہ ایک اقتصادی بحران کا پیش خیمہ تھا۔ یہ بات میں بار بار لکھ چکا ہوں۔ اس زمانے میں ایک عجیب بات ہو رہی تھی۔ ملک میں جانے کہاں کہاں سے خارجہ امور کے ماہر ہونے اور اقتصادیات کے برزجمہروں کی بہتات ہونے لگی جو سی پیک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کہتے تھے اور قوم کو یہ بتاتے تھے کہ ہم قرضوں کے بوجھ تلے دبوچے جا رہے ہیں۔ جب نئی حکومت آئی تو اس نے آنے سے پہلے ہی اعلان کر دیا کہ ہم نے کوئی 200ماہرین اقتصادیات کی ٹیم اکٹھی کر رکھی ہے جو ملک میں جلد انقلاب لے آئے گی۔ ساتھ ہی حکومت کی نئی سیاسی اقتصادی تنظیم نے اعلان شروع کر دیا کہ سی پیک پر شفاف انداز میں عمل نہیں ہوا۔ اس میں بڑی لوٹ مار ہوئی ہے اور یہ کہ تجارتی و اقتصادی امور کے لیے چنے جانے والے ایک خصوصی مشیر/وزیر نے ایک برطانوی اخبار کو انٹرویو دیا کہ سی پیک کو ایک سال کے لیے مؤخر کر دیا جائے اور آخر ایسا کر دیا گیا۔ ہماری یہ حکومت ذرا سست رفتار واقع ہوئی ہے۔ ایک سال گزر چکا ہے، اب انہوں نے انگڑائی لی ہے اور بتانا شروع کیا ہے کہ نہیں ہم اب نئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ پرانے وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کو چین کے کہنے پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک اہم بات ہے اسد عمر نے امریکیوں کے کہنے پر جواب دیا کہ یہ غلط ہے کہ ہم سی پیک کے ذریعے قرضوں کے جال میں جکڑے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہم پر 74ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ ہے جس میں صرف 4.9ارب ڈالر سی پیک کا ہے۔ ہاں اگر کوئی اور قرضہ ہے تو اس کا سی پیک سے کوئی لینا دینا نہیں۔ جب نئی حکومت آئی تو ہمیں سرمایے کی شدید ضرورت تھی۔ پیسہ کہیں سے مل نہیں رہا تھا۔ ایسے میں چینیوں نے ہماری مدد کی۔ یہ الگ بات ہے کہ جنوری 2017ء سے ڈیڑھ سال کے اندر ہماری معیشت کو جو بریک لگائے گئے تھے، اس سے سرمایہ کاری کی آمد بند ہو چکی تھی، ملک سے سرمایہ باہر جا رہا تھا۔ ہم نے نجکاری کا سہارا لیا تھا نہ اوپن مارکیٹ سے قرضہ لیا تھا، صرف شور مچاتے جا رہے تھے۔ ایسے میں گویا پھندا کسا جا رہا تھا۔ کوئی مدد کو نہیں آ رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمیں قرضے کی ضرورت تھی۔ اس عارضی بندوبست کے لیے بھی چین میدان میں آیا۔ چینی ساری کہانی سمجھ رہا تھا۔ اس نے صاف کہنا شروع کیا کہ بیوقوف نہ بنو۔ ہم مگر طے کر چکے تھے کہ سی پیک کو ایک سال کے لیے کم از کم مؤخر کر دیا جائے گا۔ اس عرصے میں آئی ایم ایف کے ذریعے ہمیں خوب نچوڑا گیا اور ہم نچڑتے گئے۔ صورت حال یہاں تک پہنچی کہ ہر قسم کی شرائط ہم پر عائد کر دی گئیں۔ غضب خدا کا چلتی اکانومی کو روک دیا گیا۔ دنیا مانتی ہے کہ ہم کوئی 5.8فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہے تھے۔ حکم ہوا اسے کم کر کے 2.4فیصد کر دو۔ میں معیشت دان نہیں، کوئی مجھے بتائے سی پیک کو ایک سال کے لیے مؤخر کرنے کا اور مطلب کیا ہے۔ مطلب ہی نہیں انجام کیا ہے۔ جب آپ چلتی گاڑی کے پہیے کو روک دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ وہی جو ہوا۔ بے روزگاری بڑھی، مہنگائی میں اضافہ ہوا، منڈیاں ویران ہوئیں، کارخانے بند ہوئے اور ہم ہیں کہ نعرے لگا رہے ہیں کہ ہمیں معیشت ہی ایسی ملی ہے۔ جیسی بھی تھی ہم نے اس کی رفتار کو نصف سے بھی کم کر دیا ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ اس کے جو اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے ثمرات کم از کم آئندہ پانچ سال تک جائیں گے۔ نہیں یقین آئے تو حساب کر کے بتا دیتا ہوں۔ ہماری معیشت کو جس سطح پر 2020ء میں پہنچنا تھا، اب وہ ہمارے اپنے اعدادوشمار کے مطابق 2023ء سے 2025ء تک پہنچے گی۔ اس کے مستقبل میں اثرات کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ جب یہ عمل شروع ہوا تو، اس بیچارے بدنام زمانہ اسحق ڈار نے صاف صاف کہا کہ اگر یہ عمل نہ کیا جاتا تو ہمیں کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑتا۔ یہ بات انہوں نے اس وقت کہی تھی جب مفتاح اسماعیل کی حکومت تھی۔ یہ امریکی تو آج الزام لگا رہے ہیں کہ سی پیک کی وجہ سے ہمیں قرضوں کے جال میں پھنسایا جا رہا تھا اور اسد عمر ماشاء اللہ اس کی تردید کر رہے ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو اسحق ڈار امریکہ کے حوالے سے کہہ رہے تھے کہ یہ آئی ایم ایف کے ذریعے ہمیں قرضوں کے جال میں سمیٹا جا رہا ہے۔ یہ بات اب طے ہے کہ اسد عمر میں لاکھ خرابیاں ہوں گی مگر انہیں آئی ایم ایف کے دبائو پر وزارت خزانہ چھوڑنا پڑی۔ اس وقت انہیں واپس لایا گیا ہے تو رزاق دائود کا پورا ایک سال گزار کر لایا جا رہا ہے۔ وہ نسبتاً سی پیک کی طرف رجحان رکھتے ہوں گے۔ اس وقت تو وہ اس کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اس وقت بالکل نہیں کہا کہ لوٹ مار ہوئی ہے، سی پیک شفاف نہ تھا بلکہ وضاحت کی کہ پہلے ہماری ضروریات مختلف تھیں، اب مختلف ہیں۔ ہم نے سی پیک کے پہلے مرحلے میں انرجی اور انفراسٹرکچر کے مسائل کو حل کیا، اب ہماری دوسری ضروریات میں ٹیکنالوجی کی ہیں، زرعی شعبے میں ہیں، اللہ کرے آپ کو عقل آ گئی ہو۔ اب یقینا ہمیں چین سے بہت کچھ لینا ہے۔ یہ G-5ٹیکنالوجی کو دیکھ لیں۔ امریکہ تلا ہوا ہے کہ وہ یہ ٹیکنالوجی چین سے پہلے حاصل کر لے، مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر ہم نے یہ ٹیکنالوجی چین کے ساتھ مل کر پہلے حاصل کر لی تو امریکہ نہ سہی بھارت کے مقابلے میں ہم بہت کچھ حاصل کر لیں گے۔ یہ ٹیکنالوجی کی جنگ ہے تو میں چین کا قابل اعتبار دوست بن کر کھڑا ہونا پڑے گا۔ آج تک امریکہ نے شاذ ہی ہمارے لیے ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کی ہے۔ ہاں، ہم نے ریورس انجینئرنگ سے خود حاصل کر لی ہو تو یہ اور بات ہے۔ ہمارے ساری ڈیفنس ٹیکنالوجی کی یہی تاریخ ہے۔ اس وقت ہم اس کے اہم مرحلے پر کھڑے ہیں۔ چین سے بہت سی صنعتیں باہر منتقل ہونا ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ کیا ہم اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس میں آپ فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو بھارت اٹھا لے گا۔ جھوٹ نہیں، یہ دنیا ایسی ہی ہے۔ جن لوگوں کی ہم گاڑیاں ڈرائیو کرتے رہے ہیں، وہ اب کہاں کھڑے ہیں، کشمیر کے مسئلے پر۔ ترکی، قطر اور چین ہمارے شانہ بشانہ ہیں اور یہی وہ ملک ہیں جن سے ہمارا سلوک ان دنوں کوئی قابل رشک نہیں رہا۔ طیب اردوان کی تو ہر دوسرے دن پاکستان آنے کی خبر آتی ہے مگر آ کر نہیں دیتے۔ اس کے باوجود ترکی نے اپنا مؤقف بھی پاکستان کے بارے میں تبدیل نہیں کیا۔ چھوڑیں ان باتوں کو ایک بار پھر تاریخ کے صحیح رخ پر کھڑے ہونے کا وقت آ رہا ہے۔ ذرا اس کا احساس کر لیں۔ مطلب یہ نہیں کہ ہمیں کسی چینی بلاک میں شامل ہونا ہے، صرف یہ سمجھنا ہے کہ اس خطے میں ہماری تزوینی جنگ اب چین کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ میرا مطلب ہے امریکہ سے زیادہ چین کے ساتھ۔آخر ہم نے دنیا بھی تو اس خطے میں ہے، اپنا جغرافیہ تو بدل نہیں گیا۔