سابق صدر مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں جاری غداری کیس پاکستانی نظام عدل کے لئے امتحان ہے کہ ہمارے نظام عدل میں انصاف کی فراہمی، انصاف کے تقاضوں اور بے مقصد پیچیدگیوں اور سازشوں میں فرق جانچنے کی کتنی صلاحیت ہے۔ صدر مشرف کے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے اقدام کو 16برس بیت چکے ہیں مگر ابھی تک اس قانون شکنی کے اسباب و علل کی گتھیاں سلجھ نہ پائیں اور یہ طے ہونا باقی ہے کہ کیا سابق صدر کے اس اقدام کا کلی یا جزوی جواز تھا؟ اس حوالے سے میری دلیل تو یہ ہے کہ عدالت کو فیصلہ کرتے ہوئے اس اقدام کے قانونی پہلوئوں کے ساتھ اس وقت کے سیاسی سماجی اور قومی اور بین الاقوامی حالات کو بھی مدنظر رکھے گی۔ عدالت کی نظر میں یقینا بے نظیر کی شہادت ‘ این آر او اور سابق چیف جسٹس کی اس حوالے سے ضرورت سے زیادہ سرگرمی بھی ہو گی۔ اس حوالے سے معاشی دہشت گردی پر غور و فکر کرنے کی بھی ضرورت ہے جو ملک کو 2007ء کے شدید معاشی بحران کی طرف لے گئی ۔ میرے تحفظات تو یہ ہیں کہ اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ وہ کون سی وجوہات تھیں کہ جب 2007ء تک مسلسل مستحکم ہوتی معیشت یکا یک بحرانوں کا شکار ہونے لگی۔ اس حوالے سے میری تحقیقات کے مطابق اس بحران کی وجہ سابق صدر مشرف کے گرد ایسا ٹولہ تھا جو یا تو اقتدار کا بھوکا تھا یا پھر مشرف کا وفادار نہ تھا ۔ان موقع پرستوں کو غیر ملکی عناصر کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ جو پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتے تھے اور ملک میں بحران پیدا کرنے کا مقصد ملک کو بیڈ گورننس کی راہ پر ڈالنا تھا۔ اس وقت بھی میں نے لکھا تھا کہ قصائیوں سے پیچیدہ سرجیکل آپریشن کروایا جا رہا ہے۔ میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ مشرف کاری ضرب لگانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ سابق صدر نے ملک کو سیاسی اشرافیہ کے ذریعے چلانے کے لئے سیاستدانوں کو عسکری سپورٹ کے ذریعے دو غلے نظام حکومت کو فروغ دیا تھا۔ انہوں نے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے سے انکار کر دیا اور خود کے لئے صد کار عہدہ منتخب کیا ۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد انڈیا اور افغانستان کے بارے میں پالیسی کے علاوہ ٹیکس اصلاحات، ڈیمز اور اقلیتوں کو قومی دھارے میں لانے اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے حوالے سے پالیسیاں متعارف کروائیں جن میں سے اکثر پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی گئیں۔ جب امریکہ اور اس کے اتحادی خطہ میں عدم استحکام پیدا کرنے میں مصروف تھے اس وقت مشرف اپنا نام پاکستان کی تاریخ میں ایک مصلح کے طور پر درج کروانا چاہتے تھے اور اصلاحات میں مصروف تھے مگر خطہ کی صورت حال کی وجہ سے ان کی اصلاحات میں سے بہت سا کام جاری نہ رہ سکا۔ مشرف کے مخلوط نظام حکومت کے باعث وہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ الٹا وہ اپنے قوت کے مرکز فوج سے بھی دور ہوتے گئے۔ سابق صدر نے اپنے گرد صلاح کاروں کا ایک سرکل تشکیل دیا تھا جن میں سیاستدان، عسکری ماہرین ،بیورو کریٹس، سفارتکار اور تحزیہ کاروں کے علاوہ ان کے ذاتی دوست بھی شامل تھے۔انہیں اکثر ایسی صورت حال کا بھی سامنا رہتا تھا کہ وہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتے تھے کہ ان کا حقیقی مشیر کون ہے؟ اس وقت بار بار یہ تبصرہ کیا جاتا رہا۔ صدر کو ان کے مشیروں نے خود فریبی اور خوش فہمی کی دنیا کا باسی بنا کر رکھ دیا ہے۔ صدر جتنے سیاسی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مارتے وہ سیاسی دلدل میں اتنا ہی دھنستے جا رہے تھے۔ خطرات کا ادراک ایک سماجی سائنس ہے اکثر مشکلات خطرات اور ابہام پیدا ہی کچھ فیصلے کروانے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں سابق صدر اپنی ساکھ کو دائو پر لگانے میں کچھ زیادہ ہی عجلت کا مظاہرہ کرتے تھے اور یہی وہ دلدل تھی جس میں سازشی ٹولہ ان کو گھسیٹ کر لانا چاہتا تھا۔ ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جاتا رہا مگر ان کے مصاحبین نے ان کو زمینی حقائق کا ادراک نہ ہونے دیا۔ ان کے خلاف ہونے والے تمام حملوں کو ان کے مشیروں نے ناگزیریت کی تکرار میں دبانے کی کوشش کی اور ان کو زمینی حقائق کا ادراک ہی نہ ہونے دیا۔ان کے مختلف اقدامات اور فیصلوں کو بھلے ہی وہ اچھے ہوں یا برے ہمیشہ بہترین قومی مفاد کی صورت میں پیش کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ مشرف خطرات کی مبالغہ آرائی کا شکار ہو رہے تھے یا پھر ناگزیریت کے اسیرہو کر رہ گئے تھے؟ یہ الفاظ ترکی کی ایک معروف یونیورسٹی کے سیمینار میں ادا کئے گئے تھے، میرا تجزیہ یہ تھا کہ مشرف قوت نہیں بلکہ ناگزیریت کی مبالغہ آرائی کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا اخلاص بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ انسانی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب حکمران سیوئر سنڈروم کے عارضے کا شکار ہوئے۔ 24نومبر 2007ء کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ جس کی صدارت چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے کی تھی، نے صدر مشرف کے حق میں فیصلہ دیا تھا لیکن صدر کو حلف اٹھانے سے پہلے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کاکہا تھا۔ سپریم کورٹ نے ایمرجنسی کے نفاذ آرمی چیف کی طرف سے پی سی او کے آرڈر جاری کرنے کی بھی توثیق کر دی تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا۔ ماضی قریب میں پاکستان دہشت گردی، انتہا پسندی اور خودکش حملوں کی زد میں رہا۔ پاکستان میں بم حملے میزائل کے حملوں کے علاوہ سکیورٹی فورسز پر بھی حملے ہوتے رہے جو 18اکتوبر 2007ء کو اپنے عروج پر تھے۔ جب اس قسم کے ایک عوامی اجتماع میں حملے میں 150افراد جاں بحق اور 550کے قریب شدید زخمی ہوئے۔ سکیورٹی کی بھی مخدوش صورت حال تھی جو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور اس قسم کے دیگر اقدامات کا سبب بنی یہ ایسے ہی حالات تھے جیسا کہ ماضی میں 5جولائی 1977ء اور 12اکتوبر 1999ء کے ماورائے آئین اقدامات کی وجہ تھے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نصرت بھٹو v/s چیف آف آرمی سٹاف(PLO 1977 SL657)اور سید ظفر علی شاہ V/Sپرویز مشرف چیف ایگزیکٹو آف پاکستان (PLD 2000 SL 869) ملک و قوم میں کیے گئے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا تھا۔ اور فیصلہ دیا تھا کہ آئین نہیں توڑا گیا بلکہ عارضی طور پر معطل رہا‘‘مگر بدقسمتی سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو پذیرائی نہ مل سکی جس کی وجہ چیف جسٹس افتخار چودھری نے تمام معاملات کو ہی الٹ پلٹ دینا تھا۔ سید ظفر علی شاہ کیس بھی 2009ء میں دوبارہ کھلا اس کے علاوہ متعدد اہم فیصلے ہوئے جن میں دفاع کا موقع دیے بغیر فیصلے سنائے گئے جن میں غداری کا مقدمہ بھی تھا۔ 19اپریل 2010ء کو آئین میں اٹھارویں ترمیم کی گئی جس کے مطابق کوئی شخص جو آئین شکنی، آئین کو معطل کرنے کا مرتکب ہو یا پھر آئین توڑنے آئین کو معطل کرنے، آئین میں خلل ڈالنے یا غیر آئینی اقدام کا مرتکب ہو وہ غداری کا مرتکب ہو گا۔ اس میں بعد میں معاونت کے الفاظ بھی شامل بھی کئے گئے مگر اس ترمیم میں بھی ماضی کے اقدامات پر عملدرآمد کا کوئی ذکر نہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2013ء کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد سابق صدر مشرف کے خلاف ایمرجنسی نافذ کرنے کے خلاف غداری کا مقدمہ فائل کیا، نجی محفلوں میں یہ بات بھی زیر بحث رہی کہ نواز شریف اس اقدام کے ذریعے فوج کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ (جاری)