امریکہ اس وقت ریاست ٹیکساس کے شہر سانتا فے ہائی اسکول پہ ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں دس معصوم جانوں کے زیاں کا سوگ منا رہا ہے۔اس واقعہ میں پاکستانی طالبہ سمیت آٹھ طلبا اور دو استاد جاں بحق ہوئے۔امریکہ کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جب کسی مشتعل سابق یا حالیہ طالب علم نے اپنے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کو بنیاد بنا کر اسکول میں گھس کر فائر کھول دیا ہو۔اس ہزاریئے کا آغاز ہی ایک ایسے واقعے سے ہوا جب فروری 2000ء میں مشی گن کے ایک ایلیمنٹری اسکول کے چھ سالہ طالب علم ڈیڈرک نے اپنے ساتھی ہم عمر طالب علم کو گولی مار کے ہلاک کردیا۔ چھ سالہ ڈیڈرک اس سلسلے کا ہی نہیں ہر سلسلے کے قتل کے جرم کا کم عمر ترین مجرم سمجھا جاتا ہے۔عام طور پہ ایسے واقعات کے ڈانڈے نفسیاتی عوارض سے جوڑے جاتے ہیں لیکن ایک چھ سالہ بچہ کس ذہنی اختلاج کاشکار تھا اس کا آج تک پتا نہیں چل سکا۔ممکن ہے برخوردار کو سرے سے اسکول آنا ہی پسند نہ ہو اور اس نے سوچا ہو کہ اس نامعقول حرکت کے بعد امریکہ بھر میں اسکول بند ہوجائیں گے ۔اسی سال یعنی 2000ء میں ایسے ہی پانچ مزید واقعات فلوریڈا، لیوسانیا،سان ڈیاگو اور ٹیکساس سمیت مختلف ریاستوں میں ہوئے جن میں نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ ان واقعات میں چھ سال سے بیس سال کی عمر کے حالیہ اور سابق طلبا ملوث رہے۔ سن 2001 ء سے 2014ء تک ان واقعات کی تعداد تقریبا دو سو ہو چکی تھی۔تیرہ برسوں کے دوران ہونے والے ان تمام واقعات میں بھی پندرہ سے بیس سال کے طالب علم ملوث تھے۔ان سب کو اسکول کی انتظامیہ سے کوئی نہ کوئی شکایت تھی یا وہ اپنے ساتھیوں کے تحقیر آمیز رویوں اور تشدد کا شکار تھے جس کا وہ انتقام لینا چاہتے تھے۔ 2015 ء سے امسال یعنی 2018 ء تک تین برسوں میں ایسے مزید اڑتالیس واقعات ہوئے جن میں اسکول کے طلبا اپنے ہی ساتھیوں یا کسی سابق طالب علم کی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ ان سب سے پہلے 1999ء میں کولمبائن اسکول کا وہ بھیانک واقعہ ہے جس نے پورے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا۔یہ واقعہ کولمبائن کے ہائی اسکول میں اس وقت پیش آیا جب اسکول کے سینئر طلبا اٹھارہ سالہ ایرک اور ڈیلان نے بارہ طلبا کو قتل کیا اور بعد ازاں گرفتاری کے خوف سے خود کشی کرلی۔اس واقعہ کی خاص بات یہ تھی کہ یہ پورا منصوبہ بڑی عرق ریزی اور محنت کے بعد ترتیب دیا گیا تھا یعنی یہ کسی وقتی اشتعال کا نتیجہ نہیں تھا۔اس سارے واقعہ میں خطرناک اور جدید ترین اسلحہ استعمال کیا گیا۔ اسکول کے کیفے ٹیریا میں پروپین سے بھرے نناوے کار بم اور آتش گیر آلات نصب کئے گئے۔یہ تمام منصوبہ وہ برسوں سے تیار کررہے تھے۔ گو آج تک اس واقعے کے محرکات کا علم نہ ہوسکا لیکن دونوں طلبا کی ڈائریاں جو وہ اس دوران لکھتے رہے بہت کچھ بتاتی تھیں۔وہ اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک سے تنگ تھے، ذہین بھی تھے اور ارد گرد ہونیوالے واقعات کا اثر قبول کرتے تھے۔ ان کے ذہنوں پہ اوکلاہوما میں ہونے والی اس بھیانک دہشت گردی کا اثر بہت زیادہ تھا جسے نائن الیون سے پہلے امریکی تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا جاتا تھا۔19 اپریل 1995ء کو اوکلاہوما میں امریکہ کی سرکاری عمارت الفریڈ مرا فیڈرل بلڈنگ پہ ہونے والا ٹرک بارود حملہ اتنا شدید تھا کہ اس خوفناک دہشت گردی میںتقریباً پوری عمارت تباہ ہوگئی،168 امریکی ہلاک اور سات سو سے زائد زخمی ہوئے، اردگرد کی مزید چار سو عمارتوں کو نقصان پہنچا، چھیاسی کاریں تباہ ہوئیں اور تقریباً ًسات سو بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔یہ حملہ کسی اسامہ بن لادن یا شیخ محمد عطا کی پلاننگ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے ذمہ دار دو امریکی ٹموتھی وے اور ٹیری نکول تھے جنہیں امریکی سرکار سے کچھ شکایات تھیں۔ اس خوفناک واقعہ کی بدنامی اور دہشت اس وقت تک محسوس کی جاتی رہی جب تک نائن الیون نہ ہوگیا۔نائن الیون کی دیر تھی کہ دہشت گردی کے سارے ابلتے لاوے کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیا گیا۔ کولمبائن اسکول میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمہ دار ایرک اور ڈیلان اسی واقعہ کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ کس سے اور کیسے یہ ان کا درد سر نہیں تھا۔وہ بس اس سے جدید اصطلاح کے مطابق گلوریفائڈ ہوگئے تھے۔اس حملے سے پہلے انہوں نے ایک ویب سائٹ امریکہ آن لائن بنائی جس میں وہ بتدریج اس ظالم سماج کے متعلق اپنے زریں خیالات کا خالص امریکی گالیوںکے ساتھ اظہار کرتے رہے۔ہیرس نے پائپ بم بنانے کا طریقہ اور ان افراد کی فہرست بھی اپ لوڈ کی جن سے وہ انتقام لینا چاہتا تھا۔ انہوں نے باقاعدہ ایسی کم دورانئے کی فلمیں بنائیں جن میں وہ دونوں ہیرو تھے اور کسی نہ کسی کو قتل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔وہ انقلابی تحریکوں سے متاثر تھے اور انقلابی بننا چاہتے تھے۔ اس کے لئے ان کے پاس گوریلا جنگ کی تمام معلومات اور ذرائع موجود تھے اور وہ کھلم کھلا اس کا اظہار اپنی ویب سائٹ پہ کیا کرتے تھے۔ یہ آزادی انہیں سفید فام امریکی ہونے کی وجہ سے حاصل تھی ۔ ان کے نام ایرک اور کلے بولڈ تھے اور ابھی نائن الیون نہیں ہوا تھا۔ کہیں جو ان کے نام عبد اللہ اور محمد ہوتے تو وہ کسی جہاز میں سفر کرتے ہوئے بلند آواز سے سلام کرتے ہوئے دھر لیے جاتے۔ تما م تیاری ، اس کے اعلان اور ایک مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ انہوں نے دہشت گردی کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا ۔ چونکہ یہ ایک خود کش حملہ تھا لہٰذا حسب منشا بندے ٹھکانے لگانے کے بعد انہوں نے خود کشی بھی کرلی۔اس اندوہناک واقعہ نے سارے امریکہ کو ایسے واقعات کی جڑیں تلاش کرنے پہ لگا دیا۔نفسیات دانوں نے اس واقعہ کا ذمہ دار اسکولوں میں ہونے والا تشدد، گروہ بندی،نسلی تعصب ، گن کلچر اور کم سن طلبا میںمسکن ادویات اور منشیات کے استعمال کو قرار دیا۔ وہ یہ نہیں بتا سکے کہ سکولوں میں تشدد ہوتا کیوں ہے،اور کم سن طلبا کو مسکن ادویات کے استعمال کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ۔ وہ یہ بھی گول کرگئے کہ مذکورہ واقعہ میں ملوث دونوں مجرم سفید فام تھے یہی نہیں ایسے واقعات میں پچانوے فیصد مجرم سفید فام ہی ہوتے ہیں جنہیں کبھی کسی تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ کولمبائن واقعہ نے بچوں کی نفسیات پہ اتنا گہرا اثر کیا کہ اس کے بعد 1999 ء سے 2007 ء تک ہونے والے ایسے ہر واقعہ کے ذمہ دار نوجوان دہشت گرد سے جب پوچھا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اس کا جواب ہوتا تھا کہ وہ ایرک اور کلے بولڈ کی بہادری اور ذہانت سے متاثر ہوگیا تھا ۔اس سے قبل جنوری میں کینٹیکی میں اور فروری میں فلوریڈا میںایسے ہی واقعات میں بالترتیب اٹھارہ اور پندرہ طلبا جاں بحق ہوچکے ہیں۔حالیہ ٹیکساس اسکول واقعہ جو اس سال کا اس نوعیت کا تیئسواں واقعہ ہے ایک سفید فام طالب علم کی معمولی سی شرارت ہے جبکہ اسی دن کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔میں اس واقعہ کو دہشت گردی کہنے میں حق بجانب ہوں کیونکہ اس واقعہ میں میری ہم وطن بھی جاں بحق ہوئی ہے۔اس کی جان نائن الیون میں جاں بحق ہونے والے کسی بھی امریکی کے برابر ہی قیمتی تھی۔مجھے امریکہ سے یہ پوچھنے کا پورا حق ہے کہ ساری دنیا میں دھما چوکڑی مچانے، ہوس عالمگیری میں کسی بھی ملک پہ چڑھائی کردینے والے اور کرہ ارض پہ ہر جگہ اپنے بحری، بری اور فضائی اڈے قائم کرکے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والا امریکہ میرے ملک کی ایک بچی کی جان کی حفاظت کیوں نہ کرسکا؟ کیا امریکہ ایک محفوظ ملک نہیں رہا اور کیوں نہ ہم احتجاجاً اپنے بچوں کو امریکہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجنا چھوڑ دیں۔ ہمارے بچے جو دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب ، تشدد اور ہولناک دہشت گردی دیکھتے ہیں لیکن اپنے ہی ہم وطن ہم جماعت بچوں پہ بندوقیں نہیں تان لیتے۔ ان کی جان نہیں لیتے۔مجھے امریکہ سے یہ کہنے کا حق بھی تو ہے کہ جب ایک واقعے سے ان کے طالب علموں کی نفسیات اتنی متاثر ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے ہی ہم جماعتوں پہ چڑھ دوڑیں اور پھر کامل آٹھ سال اس ایک واقعہ کے ردعمل میں ایسے ہی واقعات دہراتے رہیں، تو نائن الیون کے بعد کی دنیا مسلمان بچوں کے لئے ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے۔عراق ، شام ، لیبیا، افغانستان سے لے کر شمالی افریقہ تک امریکہ نے جہنم سلگا رکھی ہے ، بے گھری اور بے دردی کا ایک عذاب مسلسل ہے کہ ختم نہیں ہوتا۔پھر ان بچوں پہ رد عمل کی کوئی پابندی تو نہیں ہے۔ نفسیات صرف امریکی بچوں کے ساتھ تو نہیں لگی ہوتی۔