آزاد کشمیر میں برفبانی تودوں نے تباہی مچا دی تادم تحریر 90سے زائدافراد جاں بحق ہو ہوچکے ہیں۔ درجن بھرافراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ 56سے زائد مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔آزادکشمیرکے انتہائی خوبصورت علاقے کی وادی نیلم میں سرگن گائوں اورکیل کے قریب گائوںڈھکی چنگاڑمیںسوموار13جنوری کو برف کے خوفناک تودے گرنے کے باعث بڑے پیمانے پریہ انسانی المیہ پیش آیا۔جبکہ بلوچستان میں بھی بارش اور برفباری سے درجنوںافراد جاں بحق ہوگئے ۔پوری مقبوضہ وادی کشمیرکے ساتھ ساتھ آزاد کشمیرکے تمام بلندوبالاپہاڑوں اوروای نیلم میں تائوبٹ سے لیکراٹھمقام تک اس پورے ضلع میں ہرسال موسم سرمامیں شدیدبرف باری ہوتی ہے۔ اس بار توبرف نے ایک قہرڈھایاہے۔ رب ذوالجلال جاںبحق افراد کی مغفرت فرمائے اور متاثرین کوصبر جمیل عطافرمائے۔ واضح رہے کہ کشمیر کا جو حصہ آزاد کشمیرکہلاتاہے یہ علاقہ جہاد بالسیف سے ہندو ڈوگرہ استبدادسے آزاد کریاگیاہے اور جو ارض کشمیرکا جو بڑا علاقہ مقبوضہ کشمیر کہلاتا ہے اس کے مقدر کو ابھی تک ظلم و جبر رہا کاسامناہے۔ آزادکشمیرکاعلاقہ ارض کشمیرکے کل علاقے کاصرف 15فیصدہے جبکہ مقبوضہ کشمیرکاعلاقہ 85فیصدہے اور72برس ہوئے کہ اتنابڑاعلاقہ ہندوستان کے جبری قبضے میں ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کشمیرکی خوبصورتی اورزیبائش برف کے طفیل ہی ہے اورخطہ کشمیرمیں ہمالہ کے دامن میں ابلتے ہوئے چشموں،آبشاروں، لالہ زاروں ، سر سبز شاداب کھیتوں ، زعفران زاروں کے ہوشربا اور پر کشش قدرتی مناظر سے بھر پور سرزمین برف ہی کی رہین منت ہے۔علامہ اقبال نے جس کشمیرکو ایران صغیر سے تعبیر کیا ہے اور جس کی سرحدیں ہندوستان، چین ،افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں، قدیم عہد سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ دنیا کا کوئی مقام اس کا ہمسر نہیں اس کاکریڈٹ برف کوہی جاتاہے۔اگرکشمیر کو بر صغیر ہندو پاک کا سویزر لینڈ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا اسکی رنگارنگ وادیوں اور اسکی دل فضا ٹھنڈی ہوائوں میں سانس لینے سے مردہ رگوں میں جان آجاتی ہے اس کے صحت افزا مقامات کی سیر سے مریض تندرست ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے بہتر روئے زمین پر کوئی مقام ہی نہیں اس کے ارد گردپہرے دار پہاڑ سبز وادی میں ملبوس کھڑے ہیں۔کشمیر ان کے بیچ مین گویا پتھر کی انگو ٹھی میں زمرد کا نگینہ جڑا ہوا ہے ۔یہ خطہ بلا شبہ دنیا کا حسین ترین خطہ ہے پہاڑوںمیں چھپے ایک کثیررنگ خود رو پھول کی طرح ۔ جس کی نوک پلک صرف موسم نے سنواری۔ اس سے یورپ ،امریکہ ۔ وسطی ایشا کے پہاڑی علاقوں کی طرح کسی نے کھربوں روپیے خرچ کرکے سجایا نہیں۔ بلکہ یہ قدرتی طورپرسج دھج سے رونق افروزہیں۔بلاشبہ کشمیری کے تمام دلکش مناظر برف کے نزول سے ہی منسلک ہے۔لیکن کبھی کبھاررحمت زحمت کاروپ دھارلیتی ہے اسکی وجہ انسان کے بد اعمالی بھی ہوتی ہے۔ اردو زبان کو کشمیری دل و جان سے چاہتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں یہ زبان ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گی اور اپنے دلدادگان سے داد تحسین پاتی رہے گی۔کشمیر کو کشیر بھی کہتے ہیں اور کشور بھی کہا گیا ہے۔ مورخین کا خیال ہے کہ کشیرکشمیر کے چاروں طرف پہاڑ ہی پہاڑ اور پانی ہی پانی تھا اور یہ ستی سر کے نام سے مشہور تھا۔ پھر ہزاروں سال پہلے اس کے شمال میں کچھ چٹانین کھسکیں ،کچھ مٹی کے تودے گرے اور پہاڑوں میں شگاف پیدا ہونے کے سبب قدرتی طور یا انسانی عمل سے پانی کی نکاسی ہوئی اور پانی بہہ نکلا ،کہیں جہلم سے ملا تو کہیں چناب سے ،کہیں راوی سے تو کہیں ستلج اور کہیں ولر کی شکل اختیار کی اور کشمیر کے خطے میں خشک زمین وجود میں آگئی اور یہ خطہ انسانی زندگی کے لیے ساز گار رہا۔ کشمیرکا جو حصہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے یہ علاقہ جہاد بالسیف سے آزاد ہو ا اورجو دوسراعلاقہ مقبوضہ کشمیر کہلاتاہے اس کے مقدرکو ابھی تک ظلم و جبرکاسامناہے لیکن ہر ظلم و جبر کے اندر سے ہی آخر کار احتجاج اور بغاوت کی چنگاریاں بھی پھوٹتی رہی ہیں چنانچہ ظلم وبربریت، استبداد ، نسل کشی، جیسا یہ جان لیوا چلن ڈوگرہ راج کے زوال کا پیش خیمہ ہے۔ 1931ء سے لے کر 1947 ء تک کشمیر کی عوامی تحریک برصغیر میں بلکہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کر لی گئی۔بھارت کے ایک آزاد ملک بن کرابھرنے سے کشمیرایک بہت بڑے انسانی سانحہ کا شکارہوا، انسانیت سوزواقعات سے لبریزاس سانحہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں اور اس کے نتائج کو سہنے والوں کی آنکھوں کا دھواں سالہا سال تک گردو پیش کو دھند لاتا رہے گا ۔ یہ وہی کشمیر ہے جو کبھی جنت ارضی کے نام سے جاناجاتاتھالیکن بھارتی استبدادکے نتیجے میںگولیوں اور دھماکوں کی گن گرج سنائی دینے لگی۔ہر طرف چیخ وپکار،تباہی،افراتفری،سڑکین سنسان ،گلی کوچے سرخ اور بربادی کا سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔انسانی خون جہلم کے پانی کی طرح بہنے لگا۔ہر کسی کے لئے ہر نیا دن ایک نیا جنم لے کر آتا ہے۔ صبح کو گھر سے نکل کر شام کو صحیح سلامت واپس گھر پہنچنے کی امید کم ہی ہوتی ہے ۔پوری وادی عملی طور پر ایک میدان جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے۔بھارتی قابض فوج کی جانب سے گھروں پر چھاپے،گرفتاریاں،کریک ڈاون،کرفیو،ٹارچر اور بم دھماکے روز کا معمول بن گیا۔یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی لوگ اپنے ارادوں پہ اٹل، کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔بلکہ بندوقوں،گولیوں،توپوں کے سایے تلے اپنی زندگی کے تلخ اورمشکل ترین روزوشب گزارتے ہیں۔ کشمیر کی المناک صورتحال پر غمگین ہو کے قاری سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کتنے قریب ہیں دونوں زندگی اور موت کے ،اور گولیوں کی گن گرج میں زندگی کے ایام گذارنا ان کا معمول بن گیا ہے۔ ان مشکل ترین حالات میں زندگی گزارنے کے بعد ہر ذی روح بے قرار،قلب بے چین،ذہن گھٹن کا قیدی،جگر تشویش کا بندھک، ہر آنکھ آنسو زدہ، ہر لب پر رحم وکرم کی دعائیں ہوتی ہیں۔میڈل اورسٹارحاصل کرنے والے بھارت کے فوجی اہلکار یا عہدے یا اپنی انانیت، حاکمیت اور دولت کی آڑ میںکشمیریوں پہ ظلم و ستم اور زیادتی کرنے والوں نے کبھی یہ نہیں سوچاکہ آخرچاردن کی زندگی جینے کے لئے وہ ایسا کیوں کرتے ہیں دراصل وہ سیاست کے مہرے بنے ہوئے ہیں جن کو کچھ خود غرض لوگ اپنی انانیت اور حاکمیت کے عوض خرید لیتے ہیں۔اسی لئے انہوں نے کشمیر کوایک جہنم کدہ بناکے رکھ دیاہے ۔