ایک یونانی مفکر کا بڑا فکر انگیز قول ہے۔ ’’جو لوگ آزادی کی کٹھن جدو جہد کو ترقی، راحت کے لیے چھوڑ دیتے ہیں انہیں آزادی ملتی ہے اور نہ ہی خوشی نصیب ہوتی ہے۔‘‘ آزادی کے ایک اور مجاہد نے بڑی پتے کی بات کہی کہ اصل قفس ڈر ہے اور حقیقی آزادی خوف سے آزادی ہے اور فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے بھی کیا خوب بات کہی ’’آزادی کوئی آپ کو طشتری میں سجا کر نہیں دے گا۔ آپ کو یہ نعمت اپنے زور بازو سے حاصل کرنا ہوگی۔‘‘ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے؟ اس کے بارے میں سردھڑ کی بازی لگانے والے کشمیریوں سے پوچھئے یا پھر اپنے ہی گھر میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں سے پوچھئے۔ ان کے لیے شکاری روز نئے سے نیا دام ہم رنگ زمیں لاتے ہیں مگر وہ آزادی سے کم کسی شے پر راضی نہیں ہوتے کیونکہ آزادی ان کا حق ہے۔ ہندوستان میں مسلمان گزشتہ کئی صدیوں سے پہلے اپنوں کے غلام تھے پھر باہر سے آنے والے انگریزوں کے غلام بن گئے اور ہندوستان کی آزادی کے موقع پر اس بات کا شدید خدشہ تھا کہ اب وہ کہیں ہندوئوں کے غلام نہ بن جائیں۔ جس نے اس خطرے کو تاریخ کی تہہ میں اتر کر سب سے پہلے نہایت شدت کے ساتھ محسوس کیا وہ ہستی علامہ اقبالؒ کی تھی۔ ہندوئوں کی تنگ نظری اور ان کی اصنام پرست تہذیب و ثقافت اور ان کی مسلم مخالف سیاسی ریشہ دوانیوں کو دیکھتے ہوئے اقبال اس نتیجے پر پہنچے کہ ان دو قوموں کا ساتھ ساتھ رہنا بہت مشکل ہے۔ آغاز شاعری میں تو علامہ اقبال کشور ہندوستان کے گن گاتے تھے۔ اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستان چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں مگر پھر آہستہ آہستہ ملت کا تصور ان کے ہاں واضح ہوتا گیا ہے۔ یہ تصور مکاں سے ماورا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ جہاں جہاں کوئی مسلمان ہو گا وہاں وہاں پاکستان ہوگا۔ تبھی تو اقبال نے ارشاد فرمایا تھا۔ رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے قیام پاکستان کے لیے جس طرح فکری و عملی اسباب یکجا ہوتے چلے گئے انہیں دیکھتے ہوئے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سراسر ایک آسمانی اہتمام و انتظام تھا۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال نے ہمیں محض تصور پاکستان دیا یا ایک نئی اسلامی ریاست کا تخیل دیا جبکہ تحریک پاکستان کا بغور مطالعہ کریں تو آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اقبال نے ہمیں ایک نہیں تین تحفے دیئے ہیں۔ انہوں نے ہمیں ٭ نظریہ پاکستان دیا ٭ نقشہ پاکستان دیا ٭ بانی پاکستان دیا اقبال نے دو قومی نظریہ بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ اجاگر کیا اور مغربی نظریہ وطنیت و قومیت کو مذہب کا کفن قرار دیا اور ارشاد فرمایا جدا ہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی انہوں نے اپنی شاعری اور اپنے خطبات و مقالات سے یہ بات مسلمانان ہند کو سمجھائی کہ قومیں اوطان سے نہیں عقائد سے بنتی ہیں اور ارشاد فرمایا کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے دسمبر 1930ء میں علامہ اقبال نے الٰہ آباد میں صدارتی خطبہ ارشاد کرتے ہوئے پہلی بار ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خطے کا مطالبہ کیا جہاں وہ اپنی زندگی کو اپنے نظریے کے مطابق گزار سکیں۔ اس موقع پر اقبال نے فرمایا! ’’دین اسلام محض چند عقائد اور رسوم کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یورپ میں مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے جو انسانی وحدت کو دو متصادم حصوں روح اور مادہ میں تقسیم کرتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں خدا، کائنات اور ریاست و کلیسا ایک دوسرے سے منسلک ہیں یعنی تمام مسلمان ایک قوم ہیں۔‘‘ اقبال نے نہ صرف نظریہ پاکستان اور نقشہ پاکستان دیا بلکہ یہ رہنمائی بھی کردی کہ اس کاروان آزادی کی سربراہی جس میر کارواں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، اس کے اوصاف کیا ہیں۔ فرمایا نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے قائداعظم محمد علی جناح انگلستان سے بیرسٹری کا امتحان پاس کرکے واپس ہندوستان آ گئے اور انہوں نے 1900ء میں ممبئی کو مستقبل کا ٹھکانا بنایا۔ 1915ء میں محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ مسلسل تیس برس تک قائداعظم نے ہندوستان میں اپنی وکالت، اپنی قانونی مہارت اور اپنی اصول پسند سیاست کا سکہ منوایا مگر 1930ء میں غیروں کی عیاری اور اپنوں کی کوتاہ نظری سے بیزار ہو کر لندن چلے گئے اور وہاں انہوں نے بحیثیت وکیل پریکٹس شروع کردی۔ ہندوستان واپس جانے کا ارادہ نہ رکھتے تھے۔ 1930ء کی پہلی گول میز کانفرنس میں قائداعظم نے بھرپور کردار ادا کیا اور ہندوستان کی آزادی کے لیے قانون و سیاست کے اسلحے سے لیس ہو کر زبردست جنگ لڑی۔ البتہ اس دوران ہندوئوں کے رویے سے ان پر یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ گویا مسلمانوں کو ’’نومین لینڈ‘‘ میں بے آسرا چھوڑ دیا گیا جہاں ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ قائداعظم نے ہیمپ سٹیڈ میں ایک وسیع اور خوبصورت گھر خریدا اورانگلستان میں ایک برٹش جنٹلمین جیسی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔ 1931ء میں دوسری رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کی لندن میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اقبال نے قائداعظم کو مسلمانان ہند کی ایک علیحدہ ریاست کے حصول کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی اور انہیں واپس ہندوستان آ کر مسلمانان ہند کی رہنمائی کرنے پر مائل کرنے کی سعی کی۔ اس وقت تک محمد علی جناح متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کو یقینی بنانے کی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ بہرحال قائداعظم 1934ء میں واپس ہندوستان آ گئے۔ 1937ء میں بھی علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے درمیان نئی اسلامی ریاست کے خدوخال کے بارے میں خط و کتابت ہوتی رہی۔ 23 مارچ 1940ء کو جب منٹو پارک لاہور میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کی قرارداد منظور ہوئی جسے بعد میں قرارداد لاہور کا نام دیا گیا۔ اس موقع پر قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ آج اقبال زندہ ہوتے تو وہ دیکھتے کہ ہم نے وہی کچھ کیا جو چاہتے تھے یعنی مسلمانان ہند کے لیے ایک علیحدہ وطن۔ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ پاکستان کے بارے میں قائداعظم محمد علی جناح کے تصورات بڑے واضح تھے۔ ایک ریسرچ سکالر کی تحقیق کے مطابق قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل تقریباً 101 بار یہ اعلان کیا کہ نئی مملکت کی بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار کی جائیں گی۔ 14 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنا رول ماڈل قرار دیا۔ فروری 1948ء میں انہوں نے امریکی عوام کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست ہوگی۔ پاکستان کا دستور جمہوری طرز کا ہوگا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ قائداعظمؒ ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں رشوت ستانی نہ ہو، چور بازاری نہ ہو، اقربا پروری نہ ہو اور ناانصافی نہ ہو۔ 24 اپریل 1943ء کو مسلم لیگ کے اجلاس نیو دہلی سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا ’’یہاں میں ان جاگیرداروں، زمینداروں اور سرمایہ داروں کو وارننگ دینا چاہتا ہوں کہ جو غریبوں کا استحصال کر کے امیر تر ہو گئے ہیں جبکہ دیہاتوں میں یہ دیکھ کر مجھے شدید رنج ہوا کہ لاکھوں کو صرف ایک وقت کی روٹی بمشکل ملتی ہے۔ مجھے امید ہے یہ لوگ نئے ملک میں اپنے رویے بدل لیں گے۔ اگر انہوں نے اپنے رویے نہ بدلے تو خدا ان کی حالت پر رحم کرے مگر ہم ان پر کوئی ترس نہیں کھائیں گے۔ گزشتہ روز مسلسل تیسری بار نئی پارلیمنٹ نے حلف اٹھا لیا۔ متوقع حکومت نے قائداعظم کا پاکستان لوٹانے کا وعدہ کیا ہے جس پاکستان کی ایک جھلک ہم نے اوپر پیش کی ہے۔ یاد رکھئے نظریاتی و سیاسی آزادی کے لیے معاشی آزادی ازبس ضروری ہے۔