وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت سے مذاکرات کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ بھارت اگر باعزت طریقے سے بات کرے تو پاکستان اس کے لئے تیار ہے۔غالباً باعزت طریقے سے مراد بات چیت سے کوئی وقتی فائدہ اٹھانے کی بجائے اصل مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ سوچ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے‘ کشمیر پر حکومتی پالیسی کو بعض اپوزیشن حلقے مشکوک اندازمیں پیش کرتے ہیں ،اس سے ایک ابہام اور بد اعتمادی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے ،اسی کیفیت کی غمازی کرتے ہوئے کشمیر کے سودے جیسے کڑوے سوال پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم سوداگر نہیں جو کشمیر کا سودا کر دیں۔ تنازع کشمیر کی دو جہتیں ہیں جن پر بات ہوتی ہے‘ پہلا رخ اس تنازع کی قانونی حیثیت اور پاکستان و بھارت کا قانونی دائرے میں رہ کر اس پر بات چیت پر آمادگی ہے۔ دوسرا پہلو اس تنازع کو عوامی سطح پر پیش کرنا ہے۔ بھارت جب یہ کہتا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے تو اس کا مطلب اپنے عوام کو مطمئین کرنا ہوتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کشمیر پر عوامی بیانیے کو قانونی بیانیے کے قریب لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس سے دونوں ممالک کے عوام میں غیر حقیقی توقعات نے جنم لیا۔کشمیر پر جو جذباتی ماحول پایا جاتا ہے اس میں کوئی حکمران عوام کے خلاف جانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ اس صورت حال کا ہر حکمران کو اندازہ ہوتا ہے ۔ اپنی سیاسی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے وہ درست صورت حال سامنے لانے سے گریز کرتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر کے متعلق جو کچھ کہا وہ مختلف مواقع پر سامنے آتا رہا۔ مثلاً انہوں نے بھارت کے عام انتخابات کے موقع پر یہ کہا کہ مودی جیتے تو تنازع کشمیر حل ہونے کی امید ہو گی۔2019ء کے ان انتخابات سے پہلے پاکستان بھارت کے دو طیارے مار گرا چکا تھا۔ ان حالات میں اس بیان کو پاکستان میں عجیب معنی پہنائے گئے۔ بعدازاں نریندر مودی دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے اور 5اگست 2019ء کو انہوں نے بھارتی آئین میں کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا تو پاکستان میں اپوزیشن نے وزیر اعظم پر تنقید شروع کر دی کہ انہوں نے مودی کے جیتنے کی دعا کی تھی۔ پاکستان کی موجودہ حکومت نے پہلے دن سے کشمیر کے تنازع کو اس کے قانونی دائرے میں طے کرنے کی بات کی۔ وزیر اعظم نے تنازع کو کشمیری باشندوں کی خواہش کے مطابق حل کرنے کی بات بھی کی،یہ بات اس ادراک کے بعد عمل میں آئی کہ مسلح جدوجہد کو بھارت و امریکہ دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر پیش کرتے ہیں۔پاکستان نے بھارت کو دعوت دی کہ وہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لئے مذاکرات کی میز پر آئے۔ اعتماد سازی کی خاطر پاکستان نے کرتار پور راہداری کھول دی‘ پاکستان نے کئی بار بھارت کی اشتعال انگیزی پر تحمل کا مظاہرہ کیا۔اس دوران بھارت ایل او سی پر مسلسل گولہ باری کرتا رہا۔ دو سال میں پاکستان کے سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کی خاصی تعداد بھارتی فائرنگ سے شہید ہوئی۔ رواں برس کے آغاز میں پاکستان و بھارت کے مابین خفیہ مذاکرات کی اطلاعات آنے لگیں۔ معلوم ہوا کہ امریکہ‘ سعودی عرب و عرب امارات کی کوششوں سے دونوں ملکوں نے عرب امارات میں ایک دوسرے سے رابطے کئے ہیں۔ بتایا گیا کہ دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس سربراہ تنازعات پر اپنا اپنا موقف ایک دوسرے کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ چند روز تک یہ خبریں آتی رہیں اس دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی عرب امارات پہنچے اور خفیہ مذاکرات کی بجائے معمول کی سفارتی مشینری سے پاک بھارت تنازعات کو طے کرنے کی بات کی۔ پاکستان میں اس بات پر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا گیا کہ بھارت نے سرکاری طور پر کشمیر سمیت تمام تنازعات پر بات کرنے کی حامی بھر لی تاہم بھارت نے ساتھ ہی یہ اپیل کی کہ پاکستان کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے حوالے سے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کو واپس لینے کی شرط سے دستبردار ہو کر مذاکرات میں شریک ہو۔ پاکستان نے شرط عائد کی ہے کہ جب تک بھارت اگست 2019ء کے اقدام کو واپس نہیں لیتا اس سے بات نہیں ہو سکتی۔ تب سے اس معاملے پر دونوں جانب سے خاموشی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس بار تنازع فلسطین پر پاکستان کا موقف پیش کرنے امریکہ آئے تو فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کے ساتھ ساتھ ساتھ کشمیر کی حیثیت‘ مذاکرات کے مستقبل اور حکومت کے عزائم کے حوالے سے ان کا موقفجاننے کی کوشش کی گئی ۔ بھارت کئی بار مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر کے پیچھے ہٹتا رہا ہے۔ بھارت کے غیر یقینی طرز عمل نے مذاکرات کی حیثیت کو بھی غیر یقینی پن کا شکار بنا رکھا ہے۔ اس صورت حال میں اعتماد سازی کے اقدامات کی ذمہ دای بھی بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ بھارت اس وقت اقوام متحدہ‘ انسانی حقوق کمشن‘ یورپین ہیومن رائٹس کونسل‘ جینوسائیڈ واچ اور انسانی حقوق کے لئے سرگرم علاقائی اداروں کی سخت تنقید کی زد میں ہے۔ کورونا کی وبا نے بھارت کی معاشی ، سماجی و انتظامی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ بھارت کو دنیا میں بگڑتے تشخص کو بحال کرنے کے لئے ایک وقفہ درکار ہے‘ پاکستان کو بھی خدشہ ہے کہ مذاکرات پر آمادگی فقط ماندگی دور کرنے کا وقفہ نہ ہو۔