کہتے ہیں پرانے وقتوں میں ایک بادشاہ سلامت کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کا حال جاننے کا شوق ہوا۔ انہوں نے اپنے فیورٹ وزیر کو ساتھ لیا اور نکل کھڑے ہوئے، سلطنت گھومنے۔ مشن چونکہ بھیس بدل کر گھومنے کا تھا سو سکیورٹی اہلکار ہمراہ رکھے بھی بہت محدود گئے اور ہدایت بھی انہیں یہ تھی کہ بھیس بدل کر کچھ فاصلے سے ہمراہ رہیں۔ دوران سفر بادشاہ سلامت کے انگوٹھے پر چوٹ لگ گئی۔ چہیتا وزیر جھٹ سے بولا ’’بادشاہ سلامت ! اس میں کوئی خیر ہی ہوگی‘‘ درد سے کراہتے بادشاہ سلامت نے خفیہ والوں کو اشارے سے پاس بلایا اور ان سے کہا ’’وزیر صاحب کو جیل میں ڈال آؤ‘‘ خفیہ والے وزیر کو لے کر جیل روانہ ہوگئے۔ بادشاہ سلامت کچھ وقت تک تو ان کے لوٹنے کا انتظار کرتے رہے، مگر پھر سوچا کہ خفیہ والوں کی کیا حاجت ؟ بھیس تو ویسے ہی بدلا ہوا ہے کیوں نہ عام شہری کی حیثیت سے سلطنت تنہا گھوم لی جائے۔ یہ خیال آتے ہی وہ ملک کا طول و عرض ناپنے نکل کھڑے ہوئے۔ اس سفر میں وہ توہمات کے شکار ایسے علاقے میں جا پہنچے جہاں کسی جعلی پیر نے کہہ رکھا تھا کہ علاقے سے نحوست کے خاتمے کے لئے لازم ہے کہ قصبے میں صبح سویرے داخل ہونے والے اجنبی کی بلی چڑھائی جائے۔ شومئی قسمت کہ قصبے میں صبح سب پہلے داخل ہونے والا اجنبی بادشاہ سلامت ہوئے اور وہ بھی کسی سکیورٹی حصار کے بغیر بھیس بدلے ہوئے۔ قصبے کے مکین تو نصف شب سے ہی اجنبی کی تاک میں بیٹھے تھے سو بادشاہ سلامت قصبے میں قدم رنجہ ہوتے ہی دبوچے گئے۔ عین اس وقت جب بادشاہ کی بلی بس چڑھائی ہی جانے والی تھی، پیر صاحب کی نظر ان کے زخمی انگوٹھے پر پڑ گئی۔ پیر صاحب یکدم چلائے ’’ٹھہرو ! ٹھہرو ! نیچے اتارو اس اجنبی کو !‘‘ لوگوں نے بادشاہ کو نیچے اتارا اور لگے پیر صاحب کو حیرت سے تکنے۔ پیر صاحب بولے ’’یہ اجنبی زخمی ہے، داغی اجنبی کی قربانی کار گر نہ ہوگی، کوئی بے داغ اجنبی درکار ہے، جس کے لئے اب کل کا ہی انتظار کرنا ہوگا‘‘ جان کی امان پاتے بادشاہ سلامت کو فورا چہیتے وزیر۔ کا جملہ یاد آگیا کہ ’’بادشاہ سلامت ! اس میں کوئی خیر ہی ہوگی‘‘ بادشاہ حیران رہ گیا کہ چوٹ تو واقعی باعث خیر ثابت ہوئی۔ وہ فورا دارالحکومت لوٹا اور وزیر کو جیل سے رہا کروا کر محل میں بلوالیا۔ چہیتا وزیر پیش ہوا اور بادشاہ اسے سارا ماجرا سنا کر یہ کہتے ہوئے خاموش ہوا ’’اور یوں انہوں نے میری جان بخش دی‘‘ تو شیخ صاحب ایک بار پھر گویا ہوئے ’’بادشاہ سلامت ! اس میں بھی خیر ہی تھی‘‘ یہ سن کر بادشاہ نے سوالیہ نظروں سے شیخ صاحب کو دیکھا تو شیخ صاحب بولے ’’اگر وہ آپ کو نہ چھوڑتے تو میری رہائی ممکن نہ ہوتی؟‘‘ بادشاہ مزید حیران ہوا مگر ساتھ ہی یہ نتیجہ بھی اخذ کر بیٹھا کہ ان کا چہیتا وزیر کوئی بہت ہی پہنچا ہوا ’’صاحبِ خیر‘‘ ہے۔ بادشاہ نے اعلان کردیا کہ وہ بس اس خاص وزیر کی کار کردگی سے ہی مطمئن ہے۔ وزیر موصوف کو ہیرے جواہرات سے ہی نہ نوازا بلکہ ترقی کے احکامات جاری کرتے ہوئے لاڈلے وزیر مملکت کو وفاقی وزیر کا درجہ بھی دیدیا اور ساتھ ہی یہ سوچ کر پالیسی سازی میں صرف اسی کی رائے کو اہمیت دینے لگا؛ کہ ان کے کہے یا بتائے ہوئے ہر کام میں خیر ہی ہوتی ہے۔ خود کو صرف لاڈلے وزیر تک محدود کرنے کا نتیجہ پھر وہی نکلا جو اس طرح کے کاموں کا نکلا کرتا ہے۔ بہت جلد بادشاہ اور اس کے لاڈلے کو رعایا کے غیض و غضب سے بچنے کے لئے پناہ کی تلاش میں دوست ریاستوں کا رخ کرنا پڑا۔ جائے پناہ پاتے ہی بادشاہ نے چہیتے وزیرسے عوامی ردعمل پر رائے مانگی تو وہ بولا ’’بادشاہ ! سلامت اس میں بھی خیر ہی ہوگی‘‘ یہ سنتے ہی بادشاہ نے چہیتے کو اسی جگہ زندہ گاڑ دیا مگر تب تک جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا تھا۔ وطن عزیز میں مثبت خیالات، مثبت گفتار اور مثبت خبروں کا رواج فروغ چاہتا ہے۔ ادھر اپنی کوتاہ نظری کہ کچھ مثبت نظر نہیں آتا اور تخلیقی صلاحیت کی تنگ دامنی کہ یہ نہیں جانتا کہ ڈالر ایک سو بیالیس روپے کا ہوجائے تو اس میں بھی کوئی خیر کیسے ڈھونڈی جائے اور کیسے کہا جائے کہ اس میں بھی کوئی خیر ہوگی ؟ خدا علیم ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بہادر سے کسی خیر کی امید ہم نے کرکٹ کے میدانوں کے علاوہ کبھی ویسے بھی نہیں رکھی، لیکن جس قسم کے اقدامات اور بیانات پچھلے تین ماہ کے عرصے میں ان کی جانب سے دیکھنے اور سننے کو ملے، وہ ہمارے وہم و گمان سے اتنے ہی دور تھے جتنے زمین سے وہ ستارے جو ابھی ناسا نے بھی نہیں دیکھے۔ چونک تو ہم بہت بری طرح اسی دن گئے تھے جب وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسیں نیلام کرنے کا فیصلہ ایک عظم مثبت ۔خبر کے طور پر سامنے آیا تھا، مگر یہ توسوچا بھی نہ تھا کہ اب ہر قدم ایک لطیفہ ثابت ہوتا چلا جائے گا۔ بھینسوں کی نیلامی ؟ اور وہ بھی براہ راست وزیر اعظم پاکستان کے زیر نگرانی ؟ حد تھی، بخدا حد تھی ! جب آپ تبدیلی کے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ پانچ سال تک ایک ایسی حکومت کے خلاف سرگرم رہے ہوں جس نے ڈالر کی قیمت کو پورے پانچ سال مستقل لگام ڈالے رکھی ہو، پیٹرولیم کی قیمتوں کو بے قابو نہ ہونے دیا ہو، اور نتیجہ یہ کہ مہنگائی قابو رہی ہو اور معیشت نے بھی اس عرصے میں ترقی کا سفر طے کیا ہو تو ایسے میں آپ کے برسر اقتدار آنے پر آپ سے بہت ہی غیر معمولی کرشماتی اقدامات کی توقع رکھی جاتی ہے۔ اور وزیر اعظم پاکستان کا بھینسیں نیلام کرنے سے مشن کا آغاز کرنا پی ٹی آئی میں ضرور کرشماتی قدم سمجھا جا سکتا ہے مگر اہل خرد کے لئے یہ صرف انگلی دانتوں میں دبانے کے کام ہی آسکتا تھا جو آیا بھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تعبیر الرؤیا یعنی خوابوں کی تعبیر والے علم میں بھینس ’’خیر‘‘ کی علامات میں سے نہیں۔ اب یہ غور آپ ہی فرمالیجئے کہ اقتدار سنبھالتے ہی بھینسوں کی نیلامی جیسے اقدام میں الجھنے والی حکومت کے لئے یہ بھینسیں بھیانک خواب ثابت ہوئیں کہ نہیں ؟ اب تو نوبت باایں جا رسید کہ یہ کچھ معقول بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو تماشا اس کا بھی تضحیک کی صورت لگتا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی حکومت ہے جس کا ہنی مون پیریڈ پورا ہوتے ہی اس کے جانے کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ خان صاحب کو اپنے لاڈلے وزیروں کے اثرسے فوری نکلنا ہوگا ورنہ بہت جلد یہ لاڈلے ان کے حکومت کے خاتمے پر بھی یہی کہتے پائے جائیں گے کہ اس میں بھی خیر ہوگی !