کیا بتائوں تجھے کیسا ہے بچھڑنے والا ایک جھونکا ہے جوخوشبو سی اڑا جاتا ہے میرے معزز قارئین! میرا آج کا کالم کسی مرقد پر رکھے ہوئے اس چراغ کی طرح ہے جس سے شعلہ بھی بنتا ہے اور دھواں بھی۔ عمر رواں کے ساتھ ایک احساس یہ بھی جاں گزیں رہتا ہے کہ ’’کچھ دیر تو اٹھتا ہے چراغوں سے دھواں بھی‘‘ بعض اوقات خیالوں کا شیرازہ بکھر بکھر جاتا ہے۔ اپنے کولیگ اور دوست کا مرثیہ لکھنا کچھ آسان نہیں ہوتا‘ ایسے میں آپ قسط وار معدوم ہوتا محسوس کرتے ہیں۔ خیر یہ فنا تو انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے‘ اسے پگھلاتی رہتی ہے میں جو قمر ذی شان کی رخصتی کے حوالے سے لکھنے جا رہا ہوں تو یہ روٹین یا فارمیلٹی ہرگز نہیں۔ یہ مجھ پر فرض بھی ہے اور قرض بھی کہ میں نے اس عظیم الشان استاد کو اپنی آنکھوں میں اپنے فرائض منصبی نبھاتے دیکھا تھا۔ میں اس کی وفات کے بعد اس احساس سے مس نہیں ہوا کہ رسم دنیا نبھانے بیٹھ جائوں۔ مجھے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ اپنی ریٹائرمنٹ پر اپنے لکھے گئے کالم میں، میں نے لکھا تھا کہ میں نے اپنے کیرئر میں ایسا لاجواب استاد نہیں دیکھا۔ دیکھیے‘ آئیڈل یا مثالیت صرف افلاطونی نظریہ یا خیال نہیں‘ کبھی کہیں آپ کو یہ خوبی کہیں نظر بھی آ جاتی ہے مجھے معلوم تھا وہ موذی مرض کا شکار ہے۔ میں اس سے ملتا تو تسلی کے چند لفاظ اپنی بساط کے مطابق اسے ضرور کہتا۔ میں اس کی مقبولیت کا ذکر کرتا۔ کیوں نہ کرتا کہ میں روز اسے اس کی کلاس میں جھانکتا کہ اس میں لڑکے ٹھسے ہوئے ہوتے تھے۔ اس کی کلاس میری کلاس کے ساتھ ہی تھی۔ میں رشک بھری نظروں سے دیکھتا کہ کیسے لڑکے اسے شہد کی مکھیوں کی طرح گھیرے رہتے ہیں یا جیسے پروانے شمع کے اردگرد۔ یہ سب ایسے نہیں تھا کبھی کبھی میں خود کو حوصلہ دیتا کہ آج اس کا وقت ہے۔ کبھی ہم بھی ذوق شوق سے لڑکوں کو پڑھاتے تھے اور ان میں گھل مل جاتے ایک مرتبہ پرنسپل پائندہ ارمغان ملک نے میری کلاس دیکھ کر کہا تھا کہ ’’یار تم کلاس میں لطیفے سناتے ہو جو ایسے اکٹھ ہوتا ہے‘‘۔ قمر ذی شان کے سامنے مگر ہمارا چراغ ٹمٹابھی نہیں رہا تھا۔ میرے پیارے قارئین! شاید آپ یقین نہ کریں کہ وہ دو دو اور اڑھائی اڑھائی سو بچوں سے بھی مخاطب ہوا۔ مجھے یہ فخر ہے کہ میں اس کا کولیگ تھا۔ اور میں اس کو دل و جان سے خراج تحسین پیش کر رہا ہوں اور اللہ سے اس کے محبوب کے صدقے اس کی بخشش کا طلب گار ہوں۔ میں اسے روکتا اور اس کی ہردلعزیزی کی بات کرتا تو وہ شرما جاتا۔ یہ کتابی چہرے والا جوان استاد آنکھیں جھکا کر مسکرانے لگتا اور کہتا’’سر یہ آپ کی محبت ہے‘‘ اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا تھا جو فطری طور پر ہوتا ہے کہ اس کی عزت و شہرت بعض لوگوں کے لئے شاید رسوائی اور بے عزتی کے مترادف تھی۔ اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں پھیلا دی جاتی تھیں۔ اصل میں وہ ٹیوشن کے خلاف تھا‘ اس کے اندر پرانے عظیم استادوں جیسی روح تھی۔ یعنی حمید احمد خاں جیسے استاد جو ایک بچے کو بھی باقاعدہ گائون پہن کر پڑھاتے تھے۔ ادھر تو طلباء کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ یقینا قمر نے کہہ رکھا تھا کوئی جب چاہے اس سے رابطہ کرے۔ کیا آپ اس بات پر بھی یقین کریں گے کہ صرف کالج کی دوسری کلاسوں ہی سے نہیں بلکہ مختلف کالجوں سے بھی بچے آ جاتے۔ میرا منجھلا بیٹا زبیر بن سعد اس کے قصیدے پڑھتا بعض اوقات صرف اس کی کلاس لینے کالج جاتا۔ وہ جب بھی ملتا‘ اس کے ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل ہوتی اور تھوڑا سا جھک کر چلتا۔ شاید وہ اپنے عارضے کے باعث کوئی تکلیف بھی محسوس کرتا ہو گا مگر چہرے پر تو باقاعدہ مسکراہٹ ہوتی اور کہتا‘ علاج جاری ہے انشاء اللہ جلد ٹھیک ہو جائوں گا۔ میں حیران ہوتا کہ اس مرض میں تو لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں‘ ایک پژمردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ کتنی تندہی اور باقاعدگی سے کلاسیں پڑھاتا۔ جب کلاس سے باہر نکلتا تو بچے بکری کے بچوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے۔ اللہ جانتا ہے کہ منظر بہت پرلطف لگتا تھا اور ایک حسرت سی جاگتی تھی کہ اے کاش‘ استاد کو تو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ وہ پسینے میں شرابور ہوتا۔ چلتے چلتے لڑکوں کے سوالوں کا جواب بھی دیتا جاتا۔ میں تلخ باتوں کا تذکرہ چھوڑ رہا ہوں کہ اسے ستایا بھی گیا‘ دھمکایا بھی گیا مگر وہ تو طلبا کی محبت میں جیتا تھا۔ ایسے ہی مجھے منیر نیازی کی وہ نظم یاد آ رہی تھی کہ ’’میں نے اس کو دیکھا تھا‘ گرم خو مہینوں میں‘ اک طرف کھڑے تنہا‘‘ واقعتاً قمر ذیشاں بہت مختلف و منفرد تھا۔ ایسے لگتا جیسے وہ مثال سی بھیجی گئی تھی کہ استاد ایسے ہوتے ہیں۔ میں یہ مانتا ہوں کہ اس کی وجہ سے دوسروں کی کلاسیں متاثر ہو رہی تھیں کہ لڑکے اس کی کلاس کی طرف رش کرتے تھے۔ آپ کیا کر سکتے ہیں۔ طلباء کو جہاں سے کچھ ملتا ہے وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں سب ٹیوشن پڑھنے کی سکت بھی تو نہیں رکھتے۔ قتیل شفائی نے شاید قمر کے لئے کہا تھا: اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سرِعام رکھ دیا ایک شعر مجھے اپنا بھی یاد آیا جو اس کے لئے زیادہ مناسب ہے: ہر طرف اک شور برپا اور لوگوں کا ہجوم ہم نے گویا شہر سارا اپنی جانب کر لیا دکھ تو یہ ہے کہ وہ اچانک غائب ہو گیا تھا شاید لوگوں کے رویوں کی وجہ سے ایک آدھ مرتبہ خیریت معلوم ہوئی چند روز پہلے سوشل میڈیا پر اس کے طلباء کی پوسٹ لگی تو سیف صاحب یاد آئے: مرنے والوں پہ حیرتیں کیسی موت آسان ہو گئی ہو گی میرے پیارے قارئین! آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں قمر کی تعریف میں شاید مبالغہ کر گیا ہوں۔ ایک پوسٹ میری بات کی تصدیق کرنے کے لئے کافی ہے جس میں معروف افسانہ نگار اور اسلامیہ کالج سول لائنز کے اردو شعبہ کے چیئرمین جمیل احمد عدیل نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے اکیس بائیس سالہ کیریئر میں ایسا استاد نہیں دیکھا کہ جس پر طلبا ایسے فریفتہ ہوں۔ یہ پوسٹ کا مفہوم ہے وہ لکھتے ہیں کہ کلاس روم کے دروازوں کے باہرتک طالب علم جم غفیر بن کر موجود رہتے۔ نیچے غالب کا شعر لکھا تھا جو اس نے اپنے عارف کی موت پر لکھا تھا: ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور اس مرثیے کا ایک اور شعر بھی تو کتنا برمحل لگ رہاہے: تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے پھر کیوں نے رہا گھر کا وہ نقشہ کوئی دن اور جیمز ہلٹن نے مسٹر چپس پر گڈبائی مسٹر چپس جیسا عظیم ناول لکھا۔ وہ قمر ذیشان کو دیکھتا تو ایک اور ناول لکھتا۔ گزارش ہے کہ ہمارے اس عظیم دوست کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا ضرور کر دیجئے گا ہاں ایک بات ضروری یہ کہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز کے پرنسپل رانا اسلم کو چاہیے کہ کم از کم وہ ذیشان کے نام پر کالج کا کوئی بلاک ضرور مختص کر دیں۔