9/11کے بعد مسلم امہ کے خلاف ترتیب دیئے گئے ناپاک منصوبوں کے تحت عرب دنیاپرمسلط حکمرانوں کواس طرح زیرکرلیاگیا کہ وہ سیدھے امریکہ کی جھولی میں آگرے اوراسرائیل کے ساتھ انہوںنے ایک جائزمخاصمت کوختم کرکے مشرقِ وسطی کوامریکہ اوراسرائیل کے رحم وکرم پررکھ دیا ہے۔اب پورے عربستان میں اخوان المسلمین کاپیش کردہ نظریہ اورفلسطینی مجاہدین کافلسفہ متروک ہوگیا۔جس کامطلب یہ ہے کہ بیت المقدس کی بازیابی اورانبیاء کی مقدس سرزمین کی یہودسے آزادی اورنجات کے لئے بالواسطہ کوئی کوشش کرنابھی اب عرب حکمرانوں کے ایمان کاحصہ نہیں رہاہے بلکہ ان تمام باتوں کو وہ ازکارِرفتہ اور معدوم نظریات سمجھتے ہیں۔اس طرح کاخوفناک یوٹرن لینااس امرکوواضح کرتاہے کہ بھارت جس طرح بھی چاہے مقبوضہ کشمیرکے نوے لاکھ مسلمانوں ساتھ سلوک کرے،اورکروڑوں بھارتی مسلمانوں کوجب چاہے جلاوطن کرے ،میانمارجیسے چاہے روہنگیاکوموت کے گھاٹ اتارے۔ علیٰ ہذاالقیاس مشرق سے مغرب تک دنیائے کفراپنے ممالک کی مسلم اقلیت یامقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں سے جیسے چاہے نمٹ لے اوراس کے خلاف عربستان سے کوئی صدااورکوئی گرجدارآوازبلندنہیں ہوسکتی۔چنانچہ عربستان سے ترتیب پانے والے اس بیانیے نے ’’او آئی سی‘‘کوایک ایسابے کارفورم بنادیاہے کہ جو آج تک مسلم دنیا کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے کا کوئی درست میکانزم پیش نہیں کرسکا ہے۔ عربستان کے نئے بیانئے نے جناب اردوان اورجناب مہاتیرمحمد کوپریشان کیاہی تھاکہ اس دوران نیویارک میں اقوام متحدہ کی 74ویں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں27ستمبر2019 ء کو عمران خان نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں 50منٹ کی طویل تقریر کی تقریرکوکچھ زیادہ ہی سیریس لیااورانہیں عمران خان کے پیکرخاکی میں بھٹوثانی نظرآنے لگا۔عمران خان کوبھٹوکی طرح گرجتے دیکھ کر ترکی کے صدراردوان اورملائیشیاکے وزیراعظم نے کشمیرکازپرنہ صرف پاکستان کے بنیادی موقف کی کھل کر حمایت کردی بلکہ ملائیشیانے بھارت کے ساتھ اپنے اربوں ڈالرکی تجارت کوبھی پھونک ڈالا۔بھارت نے جب ملائیشیاکے کشمیرپرپاکستان کی کھلی حمایت کی توبھارت نے اس کے ساتھ تجارتی مقاطع کیا ۔جس پرمہاتیرمحمدسے سوال کیاگیاکہ کیاآپ کشمیرپردیئے گئے اپنے بیان کوواپس لیں گے توان کاواضح جواب تھاکہ ہم اپنے دماغ سے بولتے ہیں، اپنی بات سے پھرتے ہیں نہ واپس لیتے ہیں، کشمیریوں کو اقوام متحدہ نے حق دیا ہے۔ اس کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہونا تو پھر اس کا کیا فائدہ؟ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حاشیے پر تینوں کی نشست ہوئی اورتینوں کے مابین طے پایاکہ امہ کے مسائل کے حوالے سے تازہ کوششیں کریں گے۔ سلسلہ کلام کوبڑھاتے ہوئے تینوں لیڈروں کے درمیان طے پایاکہ ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں 18دسمبر2019ء سے سہ روزہ کانفرنس منعقد کی جائے گی تاکہ سوچ وبچارکے ذریعے کوئی مشترکہ پالیسی وضع کی جاسکے۔ لیکن ہوایوں کہ جناب عمران خان عین موقع پرجناب مہاتیرمحمداورجناب اردوان کے ساتھ ہاتھ کرگئے کیونکہ سعودی عرب نے انہیں کانفرنس میں شرکت کرنے کے سنگین نتائج سے آگاہ کیاجس کی پوری تفصیل پاکستان کے الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیاپرآچکی ہے ۔لیکن پاکستان کی عدم شرکت کے باوجودکوالالمپور میں کانفرنس منعقدہوئی ۔کانفرنس کی میزبانی کرتے ہوئے اپنے افتتاحی خطاب میں ملائیشین وزیراعظم جناب مہاتیر محمد نے مسلمانوں کی موجودہ حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوالالمپور کانفرنس کے انعقاد کا مقصد اسلام، مسلمانوں اور ان کی ریاستوں کو درپیش بحران کی حالت، بے بس اور اس عظیم دین سے دوری کے حوالے سے درپیش مسائل کو سمجھنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام کے بارے میں دنیا کے تاثرات، اسلامو فوبیا کے عروج، اسلامی تہذیب کے زوال اور مسلم اقوام کو درکار حکمرانی میں اصلاحات پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے اوریہ کہ ہم کسی کے ساتھ تفریق نہیں کررہے یا کسی کو الگ تھلگ نہیں کررہے۔ ملائشیا کے وزیراعظم جناب مہاتیرمحمد کی دعوت پر کوالالمپور میں اکٹھے ہونے والے قائدین کرام کو یہ بھی تشویش لاحق ہے کہ او آئی سی پر سیاسی اسلام کا اثر ورسوخ ماند پڑتا جا رہا ہے۔ او آئی سی نے ایک اسلامی طاقت کے طور پر ایک بین الاقوامی ادارے کی حیثیت میں اپنا کردار جاری رکھا ہوا ہے۔اس لیے ان لیڈروں کو ایک ایسے ادارے کی اشد ضرورت تھی جو ان کی متروک انقلابی سوچ کو فروغ دے سکے۔چنانچہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر ایسے ممالک ہیں کہ جہاں رونما ہونے والی بنیادی تبدیلی نے نظریاتی حرکت پذیری اور نظریاتی استحصال کو بالکل معدوم کردیا ہے۔سعودی عرب کاکہناہے کہ اس کے نوجوان لوگ سعودی عرب میں رونما ہونے والی بڑی سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں کو قبول کر رہے ہیں۔عراق اور لبنان میں نوجوان معاشی طور پر غیر فعال نظاموں کو مسترد کررہے ہیں۔یہ سب کچھ خطے کی سیاسی نفسیات میں ناقابل تغیر نظریاتی تبدیلی کا مظہر ہے۔ 24اکتوبر، 1945 کواقوام متحدہ یاUnited Nations Organisation معرض وجود میں آیا۔ اس انجمن کا بنیادی کام یہ تھا اور ہے کہ کسی ملک یا قوم کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے پائے۔ مگر اپنے قیام سے آج تک دنیا کے سنگین مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔رنگ، نسل، مذہب کے نام پر خون بہا، انسان کی آزادی کو سلب کیا گیا۔ عرصہ دراز سے اس انجمن میں مسائل کا انبار لگا ہے۔ مگر ہوا کچھ بھی نہیں۔کئی جنگیں ہوچکیں، لاکھوں انسان مارے گئے، گولا بارود میں بھسم کر ڈالے گئے ،شہر کے شہر کھنڈر بن گئے ، اتنی تباہی اتنی بربادی! مگر کوئی فلسفہ کوئی تدبر، کوئی عقل و دانش، کچھ بھی کام نہ آیا۔سارے ضابطے اورسارے اصول دھرے کے دھرے رہ گئے اور جن کے پاس جتنے زیادہ مہلک ہتھیارتھے وہ کمزور ممالک کو دباتے رہے۔ انھیں اپنے اشاروں پر چلاتے رہے اور اقوام متحدہ بالکل خاموش، بے سدھ، گونگی، بہری، اندھی، لنگڑی لولی، مگر صرف غریب ممالک کے لیے اس انجمن کی ساخت ہی ظالمانہ ہے۔ دنیا کے آٹھ بڑے بڑے طاقتور ممالک ہیں، جن کے پاس ویٹو پاور ہے۔ ان آٹھ ممالک میں سے اگر کسی ایک نے بھی نہیں (NO)کہہ دیا، تو وہ کام نہیں ہوسکتا، چاہے وہ کام بنی نوع انسان کے مفاد میں ہی کیوں نہ ہو۔امریکا ان آٹھ ویٹو پاور ممالک کا سرغنہ ہے۔ باقی ممالک امریکا کے بغل بچے ہیں، سوائے روس اور چین کے۔ ساری دنیا پر ان ہی آٹھ ممالک کا زور چلتا ہے۔ اس کی جارحیت کا شکار پوری غریب دنیا ہے۔ انگولا، کانگو، ویت نام، فلسطین، سارے افریقی ممالک اور حالیہ چند سال میں امریکا نے مصر، لیبیا، عراق، شام کو بھی ٹارگٹ بنا رکھا ہے، لیبیا اور عراق افغانستان برباد ہوچکے ہیں۔