ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو نہرو حکومت کے ساتھ ان کا’ ورکنگ ریلیشن شپ‘ بن گیا۔سندھ طاس معاہدہ ہوا۔ کشمیر پر بات چیت کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی۔ بھارت اور چین کی جنگ کے دوران اگرچہ امریکی دبائو کے زیرِ اثر ہی سہی، پاکستان نے موقع سے کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی۔ مشرقی پاکستان کے باب میں ایوب خان کا خیال تھا کہ اگر بنگالی اپنا راستہ چننا چاہتے ہیں تو انہیں اس کا اختیار ہے۔دوسری طرف ایوب خان کشمیر کے معاملے پربھی پاک بھارت جنگ چھیڑے جانے کے حق میں نہیں تھے۔ اس امر میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ کشمیر میں ’انفلٹریشن‘ اور بعد ازاں مقبوضہ کشمیر میںکلیدی شاہراہ کو کاٹنے کے لئے کئے جانے والے آپریشنز اس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے محکمے کے سیکرٹری کے ذہنوں کی اختراع تھے۔ بھٹو کا خیال تھا کہ بھارت بہت جلد ایک بڑی اقتصادی اور عسکری قوت بن جائے گا ۔ چنانچہ کچھ برسوں بعد بھارت پر کشمیر کے حل کے لئے دبائو ڈالنا ممکن نہیں رہے گا۔فوج کے اندر بھی کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو چند ماہ پہلے ہونے والی سرحدی لڑائی کے بعد بہت پر اعتماد نظر آرہے تھے۔اس سب کے باوجود صدر ایوب کسی ’ایڈوینچر ‘کے حق میں نہیں تھے۔چنانچہ بتایا جاتا ہے کہ جب آپریشن جبرالٹر کے آرڈرز لکھے جا رہے تھے تو ایوب خان سوات روانہ ہو گئے تھے۔بھارت نے جنگ پھیلائی تو بین الاقوامی دارلحکومتوں کو جانے والی رپورٹوں کے مطابق پاک فوج کو پہلے ہفتے میں بھارت پر برتری حاصل تھی۔تاہم ایک طویل جنگ لڑنے کی پاکستانی صلاحیت پر شکوک وشبہات کااظہار کیا گیا تھا۔ سیز فائر ہوا تو دونوں ملکوں نے سوویت یونین کی ’چھڑی‘ کے نیچے مذاکرات کئے۔فریقین میںاتفاق ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر سمیت جنگ بندی سے پہلے والی سرحدی صورت حال بحال کر دی جائے ۔ یہ بھی اتفاق ہوا کہ دونوں ملک مستقبل میں ایک دوسرے کے خلاف جارحیت کا ارتکاب نہیں کریں۔بھٹو صاحب دوسرے نقطے کو تحریری معاہدے کا حصہ نہیں بنانا چاہتے تھے۔ ایوب خان بے ثمر جنگ کے نتیجے میں آنے والی معاشی تباہی کا عالم دیکھ کے آزردہ خاطرتھے۔جنگ کے نتیجے میں ’سبز انقلابی عشرے‘ کا ہی نہیں، ’سنہرے ایوبی دور‘ کا بھی خاتمہ شروع ہوچکا تھا۔ وزیرِ خارجہ بھٹو فوجی آمرکے زوال کے آثاربھانپ چکے تھے۔چنانچہ’قومی مفادات‘ پر اختلافات کوعذر بناتے ہوئے صدر ایوب کے چہیتے وزیرِ خارجہ ہی سب سے پہلے کابینہ سے مستعفی ہوئے۔ جنگ کے ہی نتیجے میں پیدا ہونے والی کساد بازاری، مہنگائی،، صدر ایوب کی گرتی ہوئی صحت اور سیاسی بے یقینی جیسے عوامل کے باعث ملک کے طول وعرض، بالخصوص مشرقی پاکستان کے اندر جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔سال 65کی پاک بھارت جنگ کو بڑے کینوس پر دیکھا جائے تو بقول ممتاز سکالرشجاع نواز،’اس جنگ کی نوعیت دو امیچور باکسرز کے درمیان ہونے والی slug festسے زیادہ کچھ نہیں‘۔ پاکستان آرمی کی تاریخ لکھنے والے اکثرملکی و غیر ملکی سکالرز متفق ہیں کہ جہاں جنگ کے مختلف محاذوں پر پاک ا فواج کے افسروں اور جوانوں نے جرات اور بے مثال بہادری کی ان گنت انفرادی مثالیں رقم کیں ،وہیں وجوہات جو بھی ہوں،سینئر قیادت نا صرف آپریشن جبرالٹراورآپریشن گرینڈ سلیم کے نتائج کا درست اندازہ لگانے میں ناکام رہی بلکہ جنگ کے اہداف مقرر کرنے اور انہی کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگ کی سمت متعین کرنے کی اہلیت سے محروم نظر آئی۔ بالآخر صدر ایوب خان اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اس کے بعد کے برسوںکی افسردہ کر دینے والی تاریخ کا دہرایا جانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ صرف ایک دو برس کی بات نہیں، لگ بھگ تین عشروں پر محیط داستان تھی جو6 1دسمبر 1971ء والے دن اپنے المناک انجام کو پہنچی ۔ افسوس کہ پانچ عشروں بعد بھی وہی خود غرضی، مفاد پرستی اور رعونیت پر مبنی رویے عام ہیں۔ آج بھی اقلیت کو اکثریت پر مسلط رکھے جانے کی کوششیں جاری ہیں۔ افسوس کہ ہر کوئی ایک دوسرے کو سقوطِ ڈھاکہ سے سبق سیکھنے کا درس دیتا ہے لیکن خود کوئی اس سانحے سے عبرت پکڑنے کو تیا ر نہیں۔ آدھا ملک ہم سے جدا ہو گیا۔ مائوں کے سینکڑوں لختِ جگر تاریک راہوں میں مارے گئے۔ افواج پاکستان کے پینتیس ہزار افسر اور سجیلے جوان بے سرو سامانی کے عالم میں ہتھیار ڈالنے پر مجبورہوئے۔ سانحہ مشرقی پاکستان مگر ایک عسکری ناکامی ہر گز نہیں ۔ایک سیاسی گانٹھ بھی نہیں کہ جو کھولی نہ جا سکتی ہو۔ خود قائدِ اعظم نے سہروردی کوآزاد متحدہ بنگال کا وزیرِ اعظم بننے کے لئے کانگرس اور مائونٹ بیٹن سے براہِ راست بات چیت کی اجازت دی تھی۔ قائد کا خیال تھا کہ متحدہ بنگال اگر پاکستان میں شامل نہ بھی ہوا تو خطے میں پاکستان کو ایک قریبی اتحادی دستیاب رہے گا۔انتخابات میں کامیابی کے بعد شیخ مجیب بھی جنرل یحییٰ کو مسلسل یقین دلاتے رہے کہ ان کا ملک توڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔تاہم اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کئے جانے میں بھٹو صاحب کلیدی رکاوٹ اوراپنے عزائم کی تکمیل کے لئے فوجی صدر پر پوری طرح حاوی رہے۔آپریشن ’سرچ لائٹ‘ کا فیصلہ فوجی جنتا نے کیا تھا۔تاہم اس آپریشن کو بھٹو صاحب کی مکمل تائید حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان توڑنا ایک بھارتی منصوبہ تھا۔بھارت سے خیر خواہی کی امید رکھنا عبث ہے۔تاہم بتایا جاتا ہے کہ مارچ 1971ء تک اندرا گاندھی پاکستان توڑنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھیں۔درحقیقت ،شیخ مجیب کے اکثریتی لیڈر بن کر سامنے آنے پروہ مطمئن تھیںکہ جس کی بنیادی وجہ ایک بنگالی کے اقتدار میں آنے سے ’پنجابی اسٹیبلشمنٹ‘ کے اثرورسوخ کم ہونے کی توقع تھی کہ جس کا پہلا نتیجہ کشمیر کا مسئلہ پسِ پشت چلے جانا ہوتا۔حقیقت تو یہ ہے پاکستان کسی اور نے نہیں،خود ہم نے اپنے ہاتھوں سے دو لخت کیا۔ جنرل کمال متین الدین اپنی کتاب ٹریجڈی آف ایررز‘ مرتب کرنے کے سلسلے میں بنگلہ دیش گئے تو وہاں صدر مملکت سے بھی ان کا انٹرویو طے تھا۔میزبان نے اپنے مہمان اور سابقہ ہم وطن سے پوچھا،’ کس زبان میں بات کرو گے؟‘ جنرل صاحب بولے،’چونکہ آپ کو اردو نہیں آتی اور میں بنگالی نہیں بول سکتا، تو چلیںانگریزی میں بات کرتے ہیں‘۔بزرگ سٹیٹسمین نے انگریزی میں جواب دیا،’یو سی،یہی وہ ایک بنیادی وجہ ہے کہ ہم ایک ساتھ نہیں رہ سکے۔‘ سقوطِ ڈھاکہ ہماری مختصرملکی تاریخ میںایک المناک حادثہ ہے۔ پاکستانی میڈیا پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا۔سوشل میڈیا کاوجود نہیں تھا۔ آزاد ذرائع سے حقائق جب پہنچنا شروع ہوئے تو پاکستانی عوام پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ یحییٰ خاںسمیت ان کا ٹولہ مگرکمال ڈھٹائی سے اب بھی بچے کچھے ملک پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہا تھا۔ بھٹو صاحب نے’اِدھر والے پاکستان‘ کا اقتدار سنبھالا تو جسم و جان پر گہرے گھائو لئے ہمارے پینتیس ہزار افسر اور جوان بھارت کی قیدمیں جا چکے تھے۔ افواجِ پاکستان دل شکستہ اور اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی تھیں۔ (جاری ہے)