بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے یا اپوزیشن کے بھاگوں اسد عمر مستعفی ہوجائے، ہر دو صورت میں ایک سا ماحول بنتا ہے۔ لپکتی غراتی زبان لپلپاتی کھسیانی بلیاں جو اب تک کھمبا نوچنے پہ مجبور تھیں ،پنجے تیز کئے دانت نکوسے چھینکے پہ پل پڑیں اور گھڑی بھر میں اپنی دانست میں میدان مار لیا۔ کوئی ان کھسیانی بلیوں سے صرف دو سوال کیوں نہیں کرتا؟بہت نہیں صرف دو سوال۔ایک۔کیا اسد عمر کو اپنی ناکامی پہ استعفی نہیں دینا چاہئے تھا؟ڈٹے رہنا چاہئے تھا؟بالآخر کرپشن کے الزامات پہ عدلیہ سے نااہل ہوجانا چاہئے تھا؟استعفی سے انکار کردینا چاہئے تھا؟پھر علاج کے بہانے لندن فرار ہوجانا چاہئے تھا؟دوسرا سوال۔اسد عمر کیا ٹھیک کرنے آئے تھے جو ناکام ہوئے؟بیڑا غرق معیشت جسے اسحاق ڈارنے اس انجام کو پہنچایا ؟میثاق جمہوریت کے تحت باری باری، باری لینے والی دو پارٹیوں نے معیشت کو جس نہج پہ پہنچا دیا،کیا یہ کھسیانی بلیاں تسلیم کرتی ہیں کہ اسے ٹھیک کرنا اسد عمر کی ذمہ داری تھی جسے نبھانے میں وہ ناکام ہوئے؟اگرایسا تھا تو پہلے اپنا جرم تسلیم کرنا غیرت کی نشانی ہوگی۔ اس کے بعد اسد عمر پہ غرانا کسی حد تک مناسب ہوگا۔ اب اگر اسد عمر ناکام تھے تو کیا ناکام شخص کو استعفی نہیں دینا چاہئے؟یہ جرأت آج سے قبل کس حکومت کے کس وزیر نے دکھائی؟معلوم ہوتا ہے اس قوم کو مستعفی نہیں بھگوڑے وزیروں کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ایسا ہمارے یہاں تھوڑی ہوتا ہے۔یہ کون سی نئی رسم ڈالی جارہی ہے۔ ایسے دستور کو ہم نہیں مانتے۔ جس پہ کرپشن کے الزامات ہوں اسے خیر سگالی کے طور پہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئرمین لگایا جاتا ہے۔ اربوں کی کرپشن میں لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت پہ ضمانت ملتی چلی جاتی ہے۔ منی لانڈرنگ میںملوث خواتین پہ ہاتھ ڈالا جائے تو وہ شور مچتا ہے کہ بالآخر نیب کو گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں اور سوالنامہ گھر پہ ارسال کرنا پڑتا ہے۔عدالت کو مطلوب وزیر خزانہ علاج کے بہانے لندن رہ پڑتا ہے۔بار بار طلب کرنے پہ بھی پیش نہیں ہوتا البتہ لندن کی سڑکوں پہ بگٹٹ بھاگتا دکھائی دیتا ہے۔ چھینکا ٹوٹتے ہی اعلان کرتا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پہ ایکٹیو ہوکر عوام کو اس حکومت کی معاشی نااہلیوں سے آگاہ کرے گا۔ کوئی اس سے یہ نہیں پوچھتا کہ آپ واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کب کریں گے؟میری مانیں تو اسد عمر کو کسی صورت مستعفی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ کیا معیشت کی گاڑی لشتم پشتم حسب سابق کھینچی نہیں جاسکتی تھی؟اس جگ ہنسائی کی آخر ضرورت کیا آن پڑی تھی؟پہلے ہی اس حکومت کو ہزارروگ لگے ہیں۔مناسب ہوتاعمران خان، اسد عمر کو پیار چمکار کے مناسب ٹیوننگ کے ساتھ چلاتے رہتے۔پانچ سال تو گزار ہی لینے تھے۔کیا ضرورت تھی آئی ایم ایف کو اتنی مدت ہری جھنڈی دکھانے کی کہ معاملات اپریل تک کھینچ کر لے آئے۔ کچھ اپنے پیش روئوں سے سبق سیکھا ہوتا جو ہاتھ میں کشکول لئے بس حلف اٹھانے کا انتظار کررہے تھے بلکہ حلف بھی اسی کشکول میں اٹھا رکھا تھا۔ کیا ضرورت تھی طویل مدتی معاشی پالیسیاں اپنانے کی؟کیا پڑی تھی دردر پھر کر دوست ملکوں سے سرمایہ کاری کی بھیک مانگنے کی کہ آئی ایم ایف کو ٹال مٹول کرکے بہلایا جاتا رہے۔ آخر ہوگیا نا اس کے صبر کا پیمانہ لبریز۔ کس نے کہا تھا زرعی اصلاحات کرنے اور لینڈ مافیا سے زرعی زمینیں بچانے کو؟کچھ سابق صدر سے سیکھا ہوتا جو ملک کے سب سے بڑے رئیل اسٹیٹ سرمایہ کار کے ساتھ جوائنٹ وینچر چلا رہے ہیں۔کراچی میں کامیاب پلی بارگین کے بعد ذرا چکر تو لگا آئیں۔انگھتی ٹھیلتی مارکیٹ میں کیا ہلچل مچی ہوئی ہے۔دھڑا دھڑ پلاٹ خریدے جارہے ہیں۔لینڈٖٹرانسفر آفس جو عام حالات میں چار بجے بند ہوجایا کرتا تھا آٹھ آٹھ بجے تک کھلا ہوتا ہے۔پراپرٹی ڈیلروں کے پاس کچھ بھی کھجانے کی فرصت نہیں۔ یہ کس کی بلیک منی راتوں رات وائٹ ہورہی ہے؟یہ کام ہوتے ہیں کرنے والے۔ آپ بیڑا غرق معیشت کو طویل المدتی پالیسیوں سے درست کرنے میں لگ گئے۔پھر مستعفی ہوگئے۔ایسے تھوڑی ہوتا ہے۔ ایک کام اور بھی ہوسکتا تھا جوآج اسد عمر پہ دانت نکوسنے والے ارسطو خاموشی سے کرگئے۔ وہ تھا ملکی ادارے اور بڑے پروجیکٹس گروی رکھنالیکن کچھ بچا ہو تو گروی رکھیں۔ان بزرجمہروں نے کچھ گروی رکھنے کو بھی نہیں چھوڑا۔جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ نواز شریف کے گزشتہ دور میں صرف 182 ملین روپے کے عوض پہلی بار گروی رکھا گیا۔ اس کے بعد اسی دور میں مزید دو بار 117 ملین کے عوض گروی رکھاگیا۔بھاری سرمائے سے بنائی گئی موٹر وے اپنے ہی قرضوں کے باعث گروی رکھ دی گئی۔ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔ ریڈیو پاکستان کی عمارت کو تحریک انصاف نے پرائیوٹائز کرنے کا اشارہ دیا تو وہ شور مچا کہ جیسے یہ ظلم بس ابھی ہونے جارہا ہو ۔کیا ریڈیو پاکستان کے ملازمین اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان کا ادارہ پہلے ہی گروی رکھا جاچکا ہے۔آخر میں صرف جوہری اثاثے بچے تھے جو ان کی دست برد سے محفوظ تھے۔اگر ملک کے اثاثے گروی رکھ کر قرضے ادا کئے جارہے تھے اور ادائیگی کا توازن بہتر بنایا جارہا تھا تو معیشت کا بیڑا غرق کیسے ہوا۔ یقینا یہ عمران خان کے 123 روزہ دھرنے کا نتیجہ ہوگا ورنہ اسحاق ڈار تو گھر کے برتن بیچ کر معیشت بحال کرنے میں دن رات جتے ہوئے تھے۔یہ ملک کو ایسے جال میں پھنسا گئے ہیں کہ ایک اسد عمر کیا اسد عمروں کی فوج بھی اسے نہیں نکال سکتی۔ اس پہ یہ حیا سے عاری لوگ بھپتیاں کستے اور ٹھٹھے اڑاتے ہیں۔مجھے حیرت تو ایف اے ٹی ایف جیسے اداروں پہ ہوتی ہے جو پاکستان پہ گرے لسٹ کی تلوار لٹکائے اس کے گرد شکنجے کستے جاتے ہیں لیکن پاکستان کے منی لانڈرنگ کرنے والے سیاست دانو ں کو سیاسی پناہ بھی وہی دیتے ہیں۔ اسحاق ڈار جیسے قومی مجرم کیسے لندن میں دندناتے پھرتے ہیں؟قومی خزانے اور عوام کے ٹیکس پہ ڈاکہ ڈالنے والے مجرم کس عافیت کے ساتھ لندن میں علاج اور عیادت کے بہانے چھٹیوں سے لطف اندوز ہوتے اور اپنی دولت ٹھکانے لگا کر واپس آجاتے ہیں۔ چھپن کمپنیاں ہوں یا ہزاروں جعلی اکاونٹس ، فی الحال تو کسی کا کچھ نہیں بگڑا۔ایف آئی اے جس جانفشانی کے ساتھ جعلی اکاونٹس کا سراغ لگاتی ہے،اسی آسانی کے ساتھ یہ قومی مجرم اپنے کالے دھن کے ساتھ سفید ہوکر وکٹری کا نشان بناتے نکل آتے ہیں۔ایسے میں اسد عمر کے پاس دو ہی آپشن تھے۔ خاموشی سے آئی ایم ایف کے در پہ بیٹھ جاتا ،قرضے چکانے کے لئے مزید قرضے لیتا اور اطمینان سے پانچ سال گزارتا۔ نہ جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوتا نہ معیشت کو۔اب بالآخر حفیظ شیخ کی سواری باد بہاری آن تو پہنچی ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کے لئے ان سے بہتر کون ہو سکتا ہے ۔موصوف نجکاری کے بھی شیدائی ہیں اور ارجنٹینا میں پانچ بڑے قومی منصوبوں کی نجکاری کی حمایت میں مفصل رپورٹ لکھ چکے ہیں۔ہمارے گروی رکھے منصوبوں کی نجکاری کون کرے گا؟عمران خان کب تک عالمی مالیاتی اداروں کا دباو برداشت کرسکیں گے؟اس پہ ٹھٹھے اڑانے والوں کوکب حیا آئے گی؟