اسلام آباد،لاہور (خبر نگار،نامہ نگارخصوصی)سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشدملک سے متعلق ویڈیوسکینڈل کیس نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اس مرحلے پر معاملے میں مداخلت سپریم کورٹ کیلئے مناسب نہیں ۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اورجسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے ویڈیو سکینڈل کیس کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے قرار دیا کہ معاملہ اپیل کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے ،ہائی کورٹ از خود یادرخواست کے ذریعے معاملے کا جائزہ لے سکتی ہے ۔چیف جسٹس نے جمعہ کو ایک اور بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے جج ارشد ملک سے متعلق معاملہ نمٹانے کا اعلان کیا اور کہا کہ زیر غور درخواستوں میں ہمارے سامنے 5سوالات تھے کہ کو نسی عدالت یا فورم معاملے کا جائزہ لے سکتا ہے ؟ کیا ویڈیو مستند ہے ؟ اصلی ہے تو اسے کس فورم پر کیسے ثابت کیا جائے ؟ویڈیو کے نواز شریف کی سزا پر اثرات کیا ہونگے ؟ جبکہ پانچواں سوال جج کے طرز عمل سے متعلق تھا ،ہم نے فیصلے میں پانچوں سوالات کا تفصیلی جواب دیا ۔سپریم کورٹ آفس نے 25 صفحات پر مشتمل فیصلہ ویب سائٹ پر جاری کیا جو چیف جسٹس نے لکھا ۔جس کے مطابق اس مرحلہ پر سپریم کورٹ ویڈیو اور اسکے اثرات کے معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتی،بالخصوص جب متعلقہ ویڈیو کا تعلق اسلام آباد میں زیر التوا اپیل سے ہے ،اس مرحلے پر حکومت یا سپریم کورٹ کی طرف سے کسی بھی انکوائری کی حیثیت محض رائے کی ہوگی ۔ مبینہ ویڈیو کا نواز شریف کو اس وقت تک فائدہ نہیں پہنچ سکتا جب تک ویڈیو کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت اپیل میں قانون کے تحت مناسب طریقے سے پیش نہ کیا جائے ۔ فرانزک تجزیہ کرکے ویڈیو کی اصلیت معلوم کی جاسکتی ہے جبکہ معاملے پر ایف آئی اے نے تفتیش بھی شروع کر دی ہے ۔ کوئی آڈیو ،ویڈیو مستند ثابت ہوجائے تو قانون شہادت کے تحت بطور ثبوت استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ہائی کورٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ خود یا مجسٹریٹ کے ذریعے اضافی شواہد ریکارڈ کرے ، ویڈیو ریکارڈ کرنیوالے شخص کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے ۔ جج کے کنڈکٹ کے قابل اعتراض ہونے کا فیصلہ ہائی کورٹ نے کرنا ہے ، ہائیکورٹ شہادتیں یا ٹرائل جج کے کنڈکٹ سے متاثر ہونے کا فیصلہ کریگی، ہائی کورٹ کا اختیار ہے کہ وہ شہادتوں کا دوبارہ خود جائزہ لے کر اپیلوں کا میرٹ پر دستیاب شہادتوں سے فیصلہ کرے یا معاملہ از سر نو جائزہ کیلئے ٹرائل کورٹ کو بھیج دے ۔ ارشد ملک کے طرز عمل کو چونکا دینے والا قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس سے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور ہزاروں ایماندار ججوں کے سر شرم سے جھک گئے ، ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی انکے خلاف فرد جرم ہے ۔ادھر رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ ہمایوں امتیاز کے مطابق ارشد ملک نے لاہور ہائیکورٹ رپورٹ کر دیا جسکے بعد انہیں معطل کردیا گیا ہے ، ارشد ملک کو انکوائری کا سامنا کرنا پڑیگا۔اس ضمن میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایڈمنسٹریٹو کمیٹی کا اجلاس 26 اگست کو طلب کرلیا ، اجلاس میں معطل جج ارشد ملک کیخلاف ویڈیو سکینڈل پر غور کیا جائے گا۔