پروفیسر آس محمد مصطفوی

اسلام دین ِفطرت اور مکمل ضابطہ ٔحیات ہے ،جو اپنے ماننے والوں کو زندگی کے تمام پہلوؤں اورجہتوں کے بارے میں مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم ترین مقصدمعاشرے میں امن واستحکام کا  قیام ہے، جو کہ عدل وانصاف کو فروغ اور ظلم وزیادتی کی بیخ کنی کرکے ہی ممکن ہے۔جس کا منشاء یہ ہے کہ اچھے اعمال و افعال بجالانے والوں کو انعام واکرام سے نوازا جائے جبکہ جبر واستبداد سے کام لینے والوں کو نشانِ عبرت بنایا جائے اور یہ دونوں کام احتساب کے بغیر ممکن نہیں ۔کیونکہ کسی بھی کام یا شخص کا احتساب ہی ہمیںاس کے حسن و قبح کے بارے میں آگاہی فراہم کرتا ہے۔قرآن و سنت کی واضح ہدایات کی روشنی میں اسلامی نظام احتساب کے اہم اصول درج ذیل ہیں:

سب کا احتساب

اسلام کے نظامِ احتساب میں امیروغریب ، عالم و جاہل ، گورا و کالا اور حکمران و عوام سب برابر ہیں،نہ تو کسی کی ذات پات اس میں رکاوٹ بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی کا حسب نسب اسے بچا سکتا ہے،جو بھی اسلامی قوانین اور جرائم کا مرتکب ہوگا،اسے اس کا خمیازہ خود بھگتناہوگا۔رسولِ کائنات ﷺ کی نظرِ احتساب سے کوئی نہ بچ پاتا تھا بلکہ جو جتنا قریب ہوتا اسے اتنے ہی سخت احتساب کا سامنا کر نا پڑتا۔سابقہ امتوں کے زوال کے اسباب میں ایک اہم ترین سبب یہ بھی تھا کہ وہ صرف منتخب لوگوں کا احتساب کرتے تھے،جس کی وجہ سے معاشرے میں جرائم و فسادات بڑھتے چلے گئے۔

محتسب خود بھی قابل احتساب ہے

اسلام کے نظام احتساب کا یہ بھی سنہرا اصول ہے کہ اگر عامل کے خلاف کوئی عام آدمی بھی شکایت کردے تو اس کا فورا ًازالہ کیا جائے،اس سلسلے میں اسے کسی قسم کا کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ جیساکہ ایک مرتبہ ایک شخص نے سیدنا عمرفاروقb سے شکایت کی کہ آپ کے فلاں عامل نے مجھے بے قصور کوڑے مارے ہیں۔ آپ b نے فوراتحقیق کرائی جب الزام ثابت ہوگیا تو حکم دیا کہ مجمع عام میں اس عامل کو بھی کوڑے مارے جائیں۔

حضورسرور ِ عالمﷺ عمال پر کڑی نظر رکھتے تھے، یہاں تک کہ جب کوئی عامل اپنے دورے سے واپس آتا تو رسول اکرم ﷺ بہ ذات خود اس کا محاسبہ فرماتے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک صحابی کو وصولی کے لیے بھیجا، جب وہ واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے اس کا محاسبہ خود فرمایا۔ صحابی نے عرض کیا کہ یہ آپ ﷺ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ ملا ہے۔یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا، تم کو گھر بیٹھے یہ ہدیہ کیوں نہ ملا ؟ چناں چہ ان سے وہ ہدیہ لے کر بیت المال میں جمع کرادیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ایک عام خطبہ دیا اور تمام لوگوں کو اس قسم کا مال لینے سے سختی سے منع فرمادیا۔

 احتساب کامقصد

احتساب کا مقصد محض کسی مجرم اور غلط عمل کرنے والے کو سزا سنانا ہی نہیں بلکہ اس کا اصل مقصد قابل احتساب جرائم کے مرتکب کوقرار واقعی سزا دے کر دوسروں کے لیے نشانِ عبرت بناکر ان کے تکرار کا سد باب کرنا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ احتساب کا عمل فوری اور نتیجہ خیز ہو، تاکہ اس جرم کے ارتکاب کے متعلق سوچنے والے کی آنکھوں میں ہی گزشتہ مجرم کا انجام گھوم جائے اور وہ اس سے باز آجائے۔اسی لیے اسلام اس بات کا قائل ہے کہ مجرم کو سب کے سامنے سزا دی جائے،تاکہ وہ باقی سب کے لیے بھی نشانِ عبرت بن جائے،قرآن حکیم میں سابقہ اقوام کے واقعات بھی اسی مقصد کے تحت جابجا بیان کیے گئے ہیں۔علاوہ ازیں گذشتہ اقوام کے تباہ شدہ علاقوں کا وجود بھی اسی بات کا متقاضی ہے کہ ان جیسے افعال قبیحہ سے اپنا دامن پاک وصاف رکھا جائے۔

 قانونی تقاضوں کی تکمیل 

کتاب و سنت کی واضح ہدایات کے مطابق’’جائز عملِ احتساب‘‘ کے لیے قانونی تقاضوں کی تکمیل بہت ضروری ہے۔ جلد بازی ، غیر موزوں شہادت ، وہم یا شک کی بنیاد پر کبھی احتساب کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔کسی کے احتساب کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے خلاف ٹھوس شہادت،عادل گواہ اور حالات وواقعات کی جرم سے ہم آہنگی وغیرہ موجود ہو،ہر لحاظ سے مکمل اطمینان کے بعد عمل احتساب کیاجائے کیونکہ اس کے اچھے برے اثرات صرف ایک شخص نہیں بلکہ پورے معاشرے پر ہوں گے۔ آپ ﷺ کا مبارک طریقہ یہ تھا کہ اگر کوئی مجرم اقرار جرم کرتا تو آپ ﷺاس سے کئی سوالات کرتے تاکہ اطمینان ہو جائے کہ اس کا اقرار کسی دبائو ، خوف یا بیماری کا نتیجہ نہیں ہے اور بعض اوقات تو ایک سے زائد نشستوں میں اقرار کرواتے اور مہلت دیتے تھے، لیکن قانونی تقاضوں کی تکمیل کے بعد احتساب اور انصاف سے گریز نہ کرنا اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے

 یکساں عملِ احتساب 

سابقہ امتوں کی تباہی وبربادی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب’’عملِ احتساب‘‘ میں فرق کرنا بھی تھاکہ جب کوئی غریب جرم کرتا تو اسے دھر لیا جاتا اور اگر مجرم بااثر یا امیر ہوتا تو اسے کھلم کھلا چھوڑ دیا جاتا اسی طرح مجرم کے حاکم ہونے کی صورت میں اس کاکوئی مواخذہ نہ ہوتا جبکہ عام انسان کو سولی پر لٹکا دیا جاتا۔یہ دوہرا معیار قوم ،ملک ،معاشرے اور خاندانوں کے لیے زہرِ قاتل سے ہر گز ہرگز کم نہیں۔اسی لیے اسلام عمال کواس بات کاسختی سے احساس دلاتا ہے کہ وہ مخلوق خدا کے حاکم نہیں بلکہ خادم ہیں، ان میں اور عوام الناس میں صرف اتنا فرق ہے کہ ان کے پاس اختیار کے حوالے سے ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔چنانچہ فرمان رسول ﷺ ہے کہ قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے۔

قومی خزانہ اور احتساب

آج کل ارباب اختیار واقتدار اور صاحبان علم و فضل قومی خزانے اور دوسروں کے مال کو کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرجاتے ہیںاور اپنے آپ کو ہر قسم کی جواب دہی اور احتساب سے بالا گرد اتنے ہیں۔ جبکہ خلیفۂ ثانی سیدنا عمرفاروق اعظمb کی خود احتسابی ملا حظہ ہو کہ بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا تواسے تلاش کرنے خود مارے مارے پھرنے لگے، کسی نے پوچھا اتنی تکلیف کیوں اٹھارہے ہیں، کسی غلام کو کہہ دیا ہوتا، بولے مجھ سے بڑھ کر غلام کون ہو سکتا ہے، اور تم نہیں جانتے کہ ایک اونٹ میں کتنے غریبوں کا حق ہے۔

 حکام اور احتساب 

سیدنا عثمان غنی b فطری طور پر نہایت حلیم الطبع، نرم خو اور خطا پوش تھے، طبیعت میں عفوودر گزر کا عنصر غالب تھا اس لیے مواخذہ و احتساب میں عہد فاروقی جیسی سختی نہ تھی۔ پھر بھی کسی ایسی بدعنوانی کو نظر انداز نہ کرتے تھے جس سے اصولِ اسلام، اخلاقِ عامہ اور حکومت کے نظام پر کوئی اثر پڑتا ہو، جب کبھی کسی والی کے خلاف اس قسم کی شکایت ملتی، فوراً معزول کر دیتے۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاصb کو بیت المال کا قرض نہ ادا کرنے کے الزام میں معزول کر دیا، ولید کو شراب نوشی کے جرم میں عہدہ سے برطرف کر کے حد جاری کی،حضرت سعد بن العاصb اور حضرت ابو موسی اشعریbکو رعایا کی شکایت پر عہدوں سے علیحدہ کر دیا۔ حج کے موقع پر تمام عمال طلب کیے جاتے اور اعلان عام ہوتا کہ جس شخص کو کسی عہدیدار کے خلاف کوئی شکایت ہو، اسے پیش کرے، پیش کردہ شکایتوں کا فوری تدارک فرماتے تھے۔

سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم بڑے شد ومد کے ساتھ عمال کے احتساب کا فوری نوٹس لیتے تھے۔ والی اصطحر منذر بن جارود کے متعلق شکایت ملی کہ اپنا زیادہ وقت سیر وشکار میں صرف کرتے ہیں اور فرائض منصبی پر دھیان نہیں دیتے۔ انہیں لکھا:’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اپنے فرائض چھوڑ کر سیرو شکار پر نکل جاتے ہو اور کتوں سے کھیلتے ہو، اگر یہ صحیح ہے تو میں تم کو اس کا بدلہ دوں گا، تمہارے گھر کا جاہل بھی تم سے بہتر ہے‘‘ چناںچہ انہیں معزول کر دیا۔ایک اور عامل کے متعلق شکایتیں ملیں تو اسے ایک طویل خط لکھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو:’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم عیش و تنعم کی زندگی بسر کرتے ہو، روغنیات کا زیادہ استعمال کرتے ہو۔ تمہارے دستر خوان پر الوان نعمت ہوتے ہیں، منبر پر تم صد یقین کا وعظ کہتے ہو اور خلوت میں اہل لباحت کا عمل ہے۔ اگر یہ شکایتیں صحیح ہیں تو تم نے اپنے نفس کو نقصان پہنچایا اور مجھے تادیب پر مجبور کیا۔ تم بیواؤں اور یتیموں سے حاصل کئے ہوئے مال سے عیش و تنعم میں ڈوب کر خدا سے صالحین کے اجر کی توقع کس طرح رکھتے ہو؟ گناہوں سے توبہ کر کے اپنے نفس کی اصلاح کرو اور خدا کے حقوق ادا کرو‘‘۔

 خلفائے راشدین کا نظریۂ احتساب 

مزید برآںخلفائے راشدین کے طرزِ حکمرانی اور نظریۂ احتساب کے سلسلے میں مصر کے نامزد گورنر مالک اشتر کے نام سیدنا علی  المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے مشہور فرمان کے چند اقتباس ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں، گو مالک اشتر منصب سنبھالنے سے پہلے ہی وفات پاگئے، مگر ان کے نام یہ فرمان تاریخ کا حصہ بن گیا۔ لکھا:’’اے مالک! کاروبارِ حکومت کے لیے ایسے افراد کا چھان پھٹک کر انتخاب کرو، جو نیک گھرانوں کے چشم و چراغ، غیرت مند، آزمائے ہوئے اور اسلامی خدمات کی بجاآوری میں پیش پیش ہوں، پھر ان کو کشادہ دلی سے پوری پوری تنخواہیں دو تاکہ وہ زیردست کے مال پر نظر ڈالنے سے بے نیاز ہو جائیں‘‘۔مزید برآں تحریر کیا:’’اللہ کے بندوں کے حقوق کو انصاف کے ساتھ پورا کرو،جو حکمران مخلوق پر ظلم ڈھاتا ہے تو خود خالق اس کا مخاطب بن جاتا ہے اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک وہ حکمران ہتھیار ڈال کر اللہ سے توبہ نہ کر لے، حاجت مندوں کی درشت مزاجی اور ان کے قوت بیان کی کمزوری کو تحمل سے برداشت کرو اور ان سے تنگ آ کر کہیں کج خلقی اور تکبر کا شکار نہ ہو جانا‘‘۔

اسلام کے نظامِ احتساب کے اس مختصر تذکرہ کے بعد جب ہم اپنے گردو پیش پر نظر دوڑائیں تو ہر طرف اک لوٹ مچی ہوئی ہے۔ جس کا جس قدر داؤلگتا ہے، نہیںچھوڑتا۔ ایک دوسرے کا حق مارنے کے ساتھ ساتھ ریاستی وسائل بھی خوب تختہ مشق بنے ہوئے ہیں۔ نتیجتاً معاشرے میں معاشی انصاف ختم ہوتاجارہاہے، امیر اور غریب کی خلیج و سیع ہوتی چلی جارہی ہے۔

ہمارا یہ طرزِ عمل اصل میں اسلامی تعلیمات و اقدار سے دوری کا نتیجہ ہے، ہم مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں، لیکن چلتے کسی اور ہی راستے پر ہیں ۔ اسلام ایثارو قربانی کا درس دیتا ہے لیکن ہم چھینا جھپٹی میں ثانی نہیں رکھتے۔ اسلام خدمتِ خلق کی تلقین کرتا ہے مگر ہم خلقِ خدا کی ایذا رسانی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسلام سادگی اور فروتنی کی بات کرتا ہے مگر ہم کبر و نخوت میں پاگل ہو جاتے ہیں۔ اسلام اخوت و بھائی چارے کا کہتا ہے اور ہم خونی رشتوں کی پہچان بھول بیٹھے ہیں۔ اسلام کڑے احتساب کا حکم دیتا ہے اور ہم چور دروازوں کی تلاش میں ثانی نہیں رکھتے۔مزید برآںیہ بھول جاتے ہیں کہ ہم اپنے اس طرزِ عمل سے محض اپنی ذات کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ آپ کس سے چھپارہے ہیں؟ اللہ کی ذات تو علیم و خبیر ہے ، وہ تو ہمارے ارادوں تک سے آگاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہِ اعتدال پر چلنے اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭