’’ اسلامی اداروں کی تاریخ اور کورونا وائرس ‘‘ اس عنوان کا مقصد یہ نہیں کہ کورونا وائرس اور اسلامی اداروں کی تاریخ کا آپس میں کوئی تعلق ہے ، بلکہ اول مقصد یہی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو اسلامی اداروں کی تاریخ کے بارے میں بتائیں ، کورونا کا تذکرہ اس لئے شامل ہوا ہے کہ اس سے اقوام عالم کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام مسلم ملک بھی متاثر ہوئے ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ مسلم ممالک خصوصاً مسلم اداروں کا کورونا وائرس کے خاتمے اور متاثرین کی امداد کے حوالے سے کیا کردار رہا ۔ مسلمان ممالک کا ایک پرانا ادارہ ہے موتمر عالمِ اسلامی ، ہم اس کی تاریخ کے بارے میں بھی بتائیں گے اور اسلامی سربراہی کانفرنسوں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اسلامی سربراہی مینار کا بھی تذکرہ ہوگا مگر اس سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی ممالک یا اسلامی اداروں کے ساتھ ساتھ مسلمان ملکوں میں دینی مدارس اور اسلام کے نام سے دیگر ادارے جیسا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ، اسلامیہ یونیورسٹی ، اسلامیہ کالج ، مسلم کالج، مسلم سکول، مسلم کمرشل بینک ، اسلامی جمعیت ، اسلامی جمہوری اتحاد اور اسی نام کے ہزاروں ادارے موجود ہیں، بدقسمتی سے کسی بھی ادارے نے انسانی فلاح، سائنس و ایجادات کے حوالے سے کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا جسے ہم دنیا کے سامنے ماڈل کے طور پر پیش کرسکیں ۔ کہنے کو تو ہمارے وفاقی دارالحکومت کا نام اسلام آباد ہے مگر وہاں یہ کہاوت مشہور ہے کہ یہاں اسلام کے سوا باقی سب کچھ ہے ۔ اسی طرح اسلام آباد کی قدیم مقامی پوٹھوہاری زبان کی کہاوت زبان زدِ عام ہے کہ ’’ زمین ہموار نئیں ، درخت پھلدار نئیں ، موسم دا اعتبار نئیں تے بندے وفا دار نئیں ۔‘‘ قیام پاکستان سے پہلے ہندو سہوکار سود لیتا تھا اور اسی بناء پر مسلمان اس سے نفرت کرتے تھے ، قیام پاکستان کے بعد مسلم اور دیگر مالیاتی ادارے وجود میں آئے تو سود دوگنا ہو گیا۔ یہ صرف کوئی ایک آدھ مثال نہیں بلکہ ایک لا متناہی سلسلہ ہے جس پر غور کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں نے خصوصاً آج کے کورونا عذاب کے موقع پر کیا کردار ادا کیا ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ عرب کے شیوخ اور دیگر مسلم ممالک کے سرمایہ دار اپنی ایک رات رنگین کرنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کر ڈالتے ہیں مگر آج وہ کیوں خاموش ہیں ؟ اسلام کے نام کو ذاتی اغراض کے لئے جس طرح استعمال کیا گیا کہ دل خون کے آنسو روتا ہے ، اس سلسلے میں شاکر شجاع آبادی کی غزل پیش کرنے سے پہلے میں اپنے موضوع کی طرف آؤں گا کہ ہمارے طالب علموں اور ریسرچ اسکالروں کو اسلامی اداروں کی تاریخ کا علم ہو سکے ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہم اپنی نئی نسل کو تاریخ کے بارے میں ضرور آگاہ کریں ۔ 1926ء میں ’’موتمر عالمِ اسلامی ‘‘ شاہ عبدالعزیز ابن سعود کی دعوت پر مکہ معظمہ میں منعقد ہوئی ۔ انڈونیشیا سے عمر شوکرو ، ہندوستان سے مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی ، مفتی کفایت اللہ ، علامہ سید سلیمان ندوی ، فلسطین سے مفتی اعظم امین الحسینی ، لبنان سے علامہ رشید رضا و الحاج شیخ اسماعیل ، ترکی سے ثروت بے اور دیگر اکابرین شریک ہوئے ۔ معتمرِ عالم اسلامی کا مقصد مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد و اتفاق اور مسلمان ممالک میں بسنے والے لوگوں کی فلاح قرار پایا ۔ 1931ء میں مفتی اعظم فلسطین کی دعوت پر دوسری کانفرنس فلسطین میں منعقد ہوئی اور تیسری کانفرنس 1949ء میں علامہ شبیر احمد عثمانی و دیگر عمائدین کی دعوت پر کراچی میں منعقد ہوئی ۔ چوتھی کانفرنس بھی 1951ء میں کراچی میں منعقد ہوئی ۔ بعد میں یہ کانفرنسیں 1964ء میں بغداد، 1965ء میں صومالیہ ، 1967ء میں اومان میں منعقد کی گئیں مگر بد قسمتی سے مسلمانوں کے حالات جوں کے توں رہے اور اس میں کوئی بہتری نہ آئی ، اس دوران چھوٹے سے ملک اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا ۔ قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود انہوں نے سائنسی علم اور معاشی استحکام کے بل بوتے پر عربوں کو ناکوںچنے چبوا دیئے ۔ 21 اگست 1969ء کو اسرائیل نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کو آگ لگا دی ۔ چار دن بعد 25 اگست کو قاہرہ میں عرب لیگ کے چودہ رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا ، دوسری باتوں کے علاوہ اس میں یہ بھی طے پایا کہ عرب ممالک کی بجائے مسلم ممالک کا اجلاس بلایاجائے ، چنانچہ 22 ستمبر 1969ء کو اسلامی ممالک کی سہ روزہ کانفرنس منعقد ہوئی ، کانفرنس کے فیصلے کے مطابق جدہ میں اسلامی سیکرٹریٹ کے نام سے صدر دفتر قائم ہوااور یکے بعد دیگرے قریباً سات کانفرنسیں منعقد ہوئیں جیسا کہ 1974ء میں لاہور، 1981ء میں مکہ مکرمہ ، 1984ء میں مراکش ، 1987ء میں کویت ،1991ء میں سنیگال ، 1994ء میں بلانکہ اور 1997ء میں اسلام آباد ، مگر افسوس کہ ’’ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد ‘‘ کے مصداق مسلم اداروں اور مسلم ممالک کا کردار وہیں کا وہیں موجود ہے ۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں جو اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرائی تو اس کی یاد میں لاہور میں ایک مینار تعمیر کرایا ، جس کا افتتاح انہوں نے خود کیا ۔ اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرانے کے جرم میں بھٹو صاحب کو امریکا نے تخت سے تختہ دار تک پہنچا دیا ۔ ہم اسلام کے نام لیوائوں نے اپنے دین کے نام کو روزی روٹی اور ہوس زر کا ذریعہ بنالیا ہے، اسی حوالے سے شاکر شجاع آبادی کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک شعر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ خدایا خود حفاظت کر تیڈا فرمان وکدا پے کتھائیں ہے دین دا سودا کتھائیں ایمان وِکدا پے اتھا لیڈر وپاری ہن سیاست کارخانہ ہے اتھا ممبر وِکائو مال ہن اتھاں ایوان وِکدا پے کتھائیں ملاں دی ہَٹی تے کتھائیں پیراں دے شوکیس اِچ میڈا ایمان اے بدلیا نی مگر قرآن وِکدا پے میڈے ملک اچ خدا ڈالر میڈے ملک اچ نبی پیسہ اتھاں ایمل نہ کئی آوے اتھاں مہمان وِکدا پے نی ساہ دا کئی وِساہ شاکر ولا وی کیوں خدا جانے ترقی دی ہوس دے وچ ہر اِک انسان وِکدا پے