یارو ایک بات تو بتائو۔ عوامی نمائندہ کسے کہتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں آپ غالباً یہ فرمائیں گے کہ عوامی نمائندہ وہ ہوتا ہے جسے عوام الیکشن میں ووٹ دے کر منتخب کریں درست ارشاد ہوا۔ اب آگے چلیے فرض کیجیے ایک حلقے میں تین چار امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں ایک امیدوار ایک بہت بڑا فیوڈل ہے جس کی سیٹ فولاد سے بھی زیادہ مضبوط ہے اس نے ہر حال میں منتخب ہو جانا ہے اس کے مقابلے میں کوئی عام شخص الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بظاہر تو وہ قانون ساز اسمبلی کا ممبر بننے جا رہا ہے لیکن اسے نہ تو قانون سازی کی سمجھ ہے اور نہ ہی اس کی اپنی زندگی کسی قانون کے تابع ہے وہ ایک ایسے فیوڈل خاندان کا فرد ہے جس کے ماحول میں انسانیت قانون انسانی ہمدردی رحم عوام دوستی مذہبی اقدار اور شعور جیسے عناصر سرے سے ہی موجود نہیں ہیں وہ ایک خودسر ضدی بگڑا ہوا رئیس ہے۔ آمرانہ مزاج رکھتا ہے۔اس نے زندگی میں بہت بندے مروائے ہوتے ہیں لیکن ایک بار بھی اس کا نام کسی ایف آئی آر میں درج نہیں ہوا اس نے ہزاروں عزتیں لوٹی ہوتی ہیں لیکن وہ اپنے علاقے کا معزز ترین فرد سمجھا جاتا ہے اس کے علاقے کی پولیس اس کے ماتحت ہوتی ہے علاقے کے بڑے بڑے بدمعاش ہمہ وقت اس کے ڈیرے پر موجود رہتے ہیں وہ کسی قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ایسے لوگ پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ سندھ کے وڈیرے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے خان اور ملک پنجاب کے فیوڈل لارڈز یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں ایسے ہی اختیارات رکھتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی طاقت اور دولت میں بے پناہ اضافہ کر لیا ہے۔ جو پہلے صرف دیہاتی علاقوں میں زمیندار تھے اب وہ شہروں میں سرمایہ دار بھی ہیں۔ شہروں کے سرمایہ داروں نے زمینیں خرید رکھی ہیں اور اب وہ زمیندار بھی ہیں اصل طاقت انہی طبقات کے پاس ہے یہی لوگ حکمران بنتے ہیں اور آئندہ بھی بنتے رہیں گے۔ غریب کا تو صرف نام ہے ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ع سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ سننے اور کہنے کی حد تک یہ بات ٹھیک ہو گی لیکن حقیقت سلطانی سلطانی کا رہتا ہے زمانہ‘ زیادہ صحیح بات ہو گی۔ یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ The Meek Shall inHerit the Earth یعنی ایک وقت آئے گا جب کمزور لوگ زمین کے وارث بنیں گے خود کو دھوکہ دینے والی بات ہے ۔کمزور کو کون پوچھتا ہے۔ کمزور کی حیثیت ہی کیا ہے اسے وراثت میں زمین نہیں بلکہ غربت محرومی اور مرگ مفاجات ہی ملتی ہے۔ زمین کے وارث تو ہمارے سامنے ہیں ۔ کس کے قبضے میں ہے زمین؟کون ہے زمین کا وارث؟آپ آنکھیں کھول کر دیکھیں آپ کو زمین کے وارث نظر آ جائیں گے۔غریب لوگ وہ اینٹیں ہیں جن کو جوڑ کر ایک سیڑھی بنائی جاتی ہے جو ان طاقتور لوگوں کو اقتدار کے ایوان بالا تک لے جاتی ہے۔ استحصالی طبقے کے لئے کتنا آسان ہے حکمران بننا جب کہ غریب کے لئے اقتدار کا خواب دیکھنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ غریب ناخواندہ‘ پسماندہ‘ سیاسی شعور سے عاری مجبور اور کئی طرح کی غلامیوں میں جکڑے ہوئے عوام سے ووٹ لینا کون سا مشکل کام ہے ۔ووٹ خریدے جاتے ہیں دھونس اور دھاندلی سے لئے جاتے ہیں،بدمعاشی سے لئے جاتے ہیں ،بے ایمانی اور سرکاری مشینری کے تعاون سے لئے جاتے ہیں، منفی خدمات کو ابھار کر لئے جاتے ہیں ،تعصبات کو اجاگر کر کے لئے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں غریب لوگ الیکشن لڑ ہی نہیں سکتے اس لئے اسمبلیوں میں غریبوں کی نمائندگی صفر کے برابر ہوتی ہے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت عوام کی حکومت ہوتی ہے، عوام کے لئے۔ جب اسمبلیوں میں عوام پہنچ ہی نہ پائیں گے تو ان کی حکومت کیسے ہو گی۔ زمینداروں‘ سرمایہ داروں‘ مذہبی سوداگروں اور ان کے گماشتوں کی حکومت عوام کی حکومت کیسے ہو گئی یہ لوگ غیر ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اپنی دولت اس طریقے سے چھپاتے ہیں کہ الہ دین کا جن بھی اس دولت تک نہیں پہنچ سکتا۔ بیرونی ممالک میں پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت کا 20فیصد حصہ بھی حکومت پاکستان کو مل جائے تو سارے قرضے ادا ہو سکتے ہیں۔ غریب کی زندگی بدل سکتی ہے بے شمار ہسپتال‘ سکول کالج اور یورنیورسٹیاں کھل سکتی ہیں بے روزگاری دور ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ ڈاکو اور لٹیرے ایسا کیوں چائیں گے؟ ان کے سینے میں دل نہیں پتھر دھڑکتے ہیں، دنیا جہان کی ہر نعمت ان کے تصرف میں ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ قیمتی گاڑیاں‘شاندار محلات‘ دولت کے انبار کون سی نعمت ہے جو انہیں میسر نہیں۔ ان لوگوں کو پاکستان کے وہ کروڑوں بچے نظر نہیں آتے جو سکول کی شکل تک نہیں دیکھ پاتے، جو ہوٹلوں‘ کوٹھیوں ،ملوں، دکانوں اور ورکشاپوں میں زندگی کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ جو دن رات جرائم پیشہ لوگوں کا شکار بنتے ہیں وہ معصوم بچے جنہیں پینے کے لئے دودھ کے دو گھونٹ بھی کبھی ملتے ہیں کبھی نہیں ملتے ،شدید سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے بچے‘ سڑکوں پر معمولی چیزیں بیچنے ہوئے بچے‘ ہاتھ پھلا کر مانگتے ہوئے بچے بھوک اور بیماری سے مرتے ہوئے بچے۔ ان لوگوں کی دنیا ہی اور ہے ان کے مسائل ہی مختلف ہیں ان کی ترجیحات انوکھی ہیں۔ یہ کرپشن کو کرپشن نہیں بلکہ سیاست سمجھتے ہیں۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ ہم نے ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی۔ ٹھیک ہی کہتے ہیں ان کے نزدیک کرپشن عبادت ہے۔ یہ قانون سازی کے نام پر اپنے طبقات اور دولت کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ جھوٹے وعدے نہیں کرتے بلکہ کامیابی سے انتخابی مہم چلاتے ہیں تو صاحبو‘ یہ ہیں ہمارے نمائندے! میں اپنے صاحبان فکر و دانش سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا اسلامی جمہوریہ مملکت خداداد پاکستان ان جیسے حکمرانوں کے لئے بنی تھی؟ کیا اس ملک میں کبھی وہ لوگ حاکم نہیں بن سکیں گے جو ایماندار ہیں۔ محب وطن ہیں۔ نیک نیت ہیں۔ جن کے دامن پر کوئی داغ نہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں 60سال کی عمر میں ناکارہ قرار دے کر ایک طرف کر دیا جاتا ہے۔ معاشرے میں ان کی حیثیت عضومعطل کی کر دی جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے تجربے اور علم سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ریٹائرڈ جج‘ سینئر ایڈووکیٹ‘ انجینئرز‘ ڈاکٹرز‘ ریٹائرڈ پولیس افسران‘ ریٹائرڈ سفارت کار‘ سول افسران‘ اساتذہ کرام‘ علمائے دین‘ مصلحین ‘ ادیب ‘ جرنلسٹ ۔کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ جو صحیح معنوں میں ملک و ملت کا سرمایہ ہیں، نظر انداز کر دیے جاتے ہیں اور مسند اقتدار پر جاہل ‘ کرپٹ‘ بے ضمیر‘ بے شعور ‘ نالائق ‘ بدنیت اور غریب دشمن لوگ براجمان ہو جاتے ہیں۔ ع کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں