یہ کتاب جس میں کوئی شبہ نہیں‘ ہدایت ہے تقویٰ والوں کے لیے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں نیز جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے انفاق (اللہ کی راہ میں دوسروں پر خرچ ) کرتے ہیں۔سورہ بقرہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے۔ سب مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس کے ایک عضو میں تکلیف ہو تو وہ سارے جسم کو محسوس ہوتی ہے۔قران مجید بار بار انفاق کی تعلیم دیتا ہے‘ تاکید کرتا ہے یعنی ـجو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس میں سے ضرورت مندوں پر خرچ کروـ۔لیکن ہماری عملی زندگی میں اسلام کی اس بنیادی تعلیم کاپرتو بہت کم نظر آتا ہے۔معاشرہ میں چار سُوشرمناک غربت پھیلی ہے۔ سماج امیر غریب میںتقسیم ہے۔ ہمارے ملک میں کم سے کم گیارہ کروڑ لوگ انتہائی غربت کی چکی میںپِس رہے ہیں۔ یہ لوگ دو وقت کا مناسب کھانا نہیں کھاسکتے‘ کپڑے‘ علاج معالجہ‘ بچوں کی تعلیم ‘ دیگر ضروریات پوری کرنا تو دُور کی بات ہے۔ لوگ قرآن اور سنّت پرعمل پیرا ہوںتوامیر غریب کا اتنا فرق ‘ اتنی غربت اور محرومی نہیں ہوسکتی جتنی اس وقت ہمارے معاشرے میں ہے۔دیہات اور شہروںکی غریب بستیوں میں جائیں تو گلیوں میں غلیظ پانی بہہ رہا ہے۔ نکاسی ِآب نہیں۔ کچی پکی‘ ٹوٹی پھوٹی گلیاں اور سڑکیں ہیں۔ ملک میں چار کروڑ لوگ ٹائلٹ استعمال نہیں کرتے ‘کھُلی جگہوں پر رفع حاجت کرتے ہیں۔ بیشتر آبادی کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ ایک کروڑ خاندانوں کے پاس اپنا مکان نہیں۔ سوا دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سوا کروڑ بچے گھروں‘کارخانوں ‘ ورکشاپوں‘ دُکانوں میں کام کرتے ہیں۔ بین الا قوامی معیار یہ ہے کہ اگر کسی انسان کواپنے اخراجات کے لیے روزانہ دو ڈالر یعنی تین سو دس روپے سے کم دستیاب ہیں تو وہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہے۔ ہمارے دیہات میںکروڑوں لوگ چھ سات ہزار روپے ماہانہ اور شہروں میں آٹھ دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پرمزدوری کررہے ہیں۔ میاں بیوی دونوں بھی کام کریں تو اُن کی مجموعی اُجرت چھ سات سو روپے روزانہ سے زیادہ نہیںبنتی ۔ اسی رقم میںانہیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں اور بوڑھے ماں باپ کا پیٹ بھی پالنا ہوتا ہے۔یہ محنت کش لوگ موٹا جھوٹا کھانا کھاتے ہیں ۔ انڈے‘ گوشت کا استعمال ان کے لیے ایک تعیش ہے۔ سردی میںان کے پاس پہننے کو سویٹر‘ جیکٹ تک نہیں‘ گھروں کو گرم رکھنا تو دُور کی بات ہے۔ لوگ بوسیدہ چادریں اوڑھے نظر آتے ہیں‘ یخ سردی میں انکے پائوںمیں موزے ‘ بند جُوتے تک نہیں ہوتے۔ بیمار ہوجائیں تو علاج معالجہ نہیں کراسکتیـ ‘دوائیں نہیں خریدسکتے۔ یہ معاشرہ کے ڈسپوزایبل انسان ہیں‘ ٹشو پیپرز کی طرح ان سے کام لے کرفارغ کر دیا جاتا ہے۔ کیا انسانی ضمیر اور اسلامی شعور اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میںظلم کی حد تک بڑھی ہوئی ایسی غربت ہو؟ ہم اپنے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنّت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کاموں میں کوشش کرتے ہیں کہ سیرتِ نبویؐ کی پیروی کریں۔ ایک اہم سنّت یہ بھی ہے کہ کمزور اورصاحب ِحیثیت لوگوں میں اُخوت کا رشتہ قائم کیا جائے۔ جب مسلمان مکّہ سے ہجرت کرکے مدینہ گئے تو مہاجر بے سرو سامان تھے۔ مدینہ کے مسلمان خوشحال تھے۔ پیغمبر اکرمؐ نے مدینہ کے مسلمانوں اور مکّہ کے مہاجروںکے درمیان بھائی بھائی کا رشتہ قائم کردیا ۔ اُخوت کا رشتہ قائم ہوتے ہی مدینہ کے انصار مسلمانوں نے مہاجر بھائیوںکو اپنے وسائل میں شریک کرلیا۔ جب مہاجر خود کفیل ہوگئے تو انہوں نے انصار سے مدد لینا بند کردی۔اس واقعہ میںمسلمانوں کے لیے سبق ہے‘ نظیر ہے کہ اگر مسلمانوں کا ایک طبقہ کمزور‘ پسماندہ ہو تو خوشحال مسلمان انہیں اپنے وسائل میں شریک کریں ‘اُن کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے میں مدد فراہم کریں۔اگراس سنّت پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کا ایک خوشحال خاندان ایک غریب خاندان کا ہاتھ پکڑ لے توہمارے ملک میں دس پندرہ سال میں غربت ختم ہوجائے یا بہت کم رہ جائے۔ دُور نہ جائیں‘ اپنے رشتے داروں‘ برادری میںمالی طورپر کسی کمزور خاندان کوخاموشی سے اس طرح سہارا دے دیں کہ اس کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔کبھی کبھارچھوٹا موٹا صدقہ ‘ خیرات دینے سے کام نہیں چلے گا۔ غریب خاندانوں کو مستقل طور پر محرومی کی دلدل سے باہر نکالنے کی ضررت ہے۔ سب سے بُراحال ان لوگوں کا ہے جو ہنرمند یا تعلیم یافتہ نہیں۔ اگر ہر گائوں‘ قصبہ اور شہر میںمفت ہنر سکھانے کے مراکز کھول دیے جائیں تو لوگوں کو باعزت روزگار کمانے کے مواقع مل سکتے ہیں۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آسودگی دی ہے وہ مل جُل کر اپنے اپنے علاقوں میںفی سبیل اللہ فنی تعلیم کے مراکزبناسکتے ہیں۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی خاندان کا ایک بچہ تعلیم حاصل کرلے تووہ اپنے پُورے خاندان کو سنبھال لیتا ہے۔ اگر کوئی آسودہ حال شخص کسی خاندان کے ایک بچے کے اخراجات اوراسکی تعلیم کا ذمہ سنبھال لے تومعاشرے میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ بعض نیک لوگ یہ کام کررہے ہیں لیکن ان کی تعدادضرورت سے کم ہے ۔ ہمارے معاشرہ میںغربت اتنی زیادہ ہے کہ ریاست اکیلے اِسے ختم نہیں کرسکتی۔ یُوں بھی حکومت کوئی کام شروع کرتی ہے تو بدعنوانی کی نظر ہوجاتا ہے۔جن کا حق بنتا ہے وہ محروم رہ جاتے ہیں‘ غیرمستحق سیاسی بنیادوں پر فائدہ اُٹھالیتے ہیں۔اس ملک میں ایک چوتھائی آبادی امیر اوراعلیٰ متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا پُرتعیش طرزِ زندگی ہے۔ بحیثیت مسلمان اس طبقہ کے افراد کی ذمہ داری ہے کہ معاشرہ کے جو لوگ کسی وجہ سے پس ماندہ رہ گئے ہیں ان سے اسلامی اُخوت کا رشتہ استوار کریں‘ انہیںاُوپر اٹھائیں۔ قرآن و سنّت کی یہی تعلیم ہے۔