یورپ اور امریکہ میں ، عام طور پر اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ اور دائرہ فکر وعمل سے خوف اور مسلمانوں سے نفرت کے لیے ’’اسلامو فوبیا‘‘کالفظ استعمال ہوتا ہے، جو اگرچہ، گذشتہ نصف صدی سے مستعمل ہے، تاہم گذشتہ چند سالوں بالخصوص نائن الیون کے بعد سے، اس کے استعمال میں کثرت کے ساتھ ساتھ۔۔۔ شدّت بھی پیدا ہوگئی ہے، جس کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ اسلام ایک متعصب اور متشدّد دین ہے، اس کے ماننے والے ،مسلمانوں کا رویہ غیر مسلموں کے ساتھ انتہائی تشدّد آمیز اور تکلیف دہ ہے۔۔۔ یہ کہ مسلمان ہر اُس امر کو مسترد کر دیتے ہیں، جو اسلام سے مطابقت کا حامل نہ ہو، نیز اسلام ایک انتہا پسندانہ مذہب ہے، جس کے مزاج میں مساوات (Equality)، تحمل مزاجی (Tolerance)، انسانی حقوق (Human Rights) اور جمہوریت (Democracy) کے مغربی تصوّرات و نظریات کی کوئی گنجائش نہیں۔ فوبیا "Phobia"دراصل ایک نفسیاتی مرض ہے ، جس میں مریض ہر اجنبی چیز کو دیکھ کر ڈر اور خوف محسوس کرتا ہے، جیسے بعض لوگ اونچائی اور بلندی سے خوف محسوس کرتے ہیں، جِسے "Acrophobia" کہتے ہیں، اسی طرح شورو شغب سے خوفزدگی کو "Atarophobia"، تنہائی سے خوف کو "Autophobia" اور گفتگو اور بولنے سے خوف زدہ ہونے کو "Doxophobia"کہا جاتا ہے۔’’ اسلاموفوبیا‘‘ سے مراد ، اسلام کیلئے وہ منفی تاثرات ہیں، جن کا اظہار اہل مغرب کے لٹریچر اور ذرائع ابلاغ میں کیا جارہا ہے‘ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اسلام اور مسلمان… روادارانہ فلاحی نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور پُرامن بقائے باہمی کے بنیادی عناصر… جیسے مساوات، رواداری، انسان دوستی، اخوت، بھائی چارہ ، تحمل اور برداشت جیسے جذبوں اور تصوّرات سے لاعلم اور نابلد ہیں، اسلامی کانفرنس تنظیم (آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس)جسے او آئی سی بھی کہا جاتا ہے، کے وزرائے خارجہ کونسل کے حالیہ اجلاس نے پاکستان کی جانب سے پیش کی جانیوالی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے، ہر سال 15مارچ کو ’’اسلاموفوبیا‘‘کے بڑھتے ہوئے ، تشویشناک رحجانات کے خلاف ’’عالمی دن‘‘کے طور پرمنانے کی منظوری دی ہے، جس سے یقینا عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیوں کے تدارک کے امکانات بڑھیں گے، اور بین المذاہب مکالمے اور رابطے کو فروغ میسر آئیگا۔ بلاشبہ وزیراعظم پاکستان کو اس سلسلے میں پہلے بھی سبقت میسر آ چکی ہے، اور وہ ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس منعقدہ ستمبر2019ء میں عالمی قائدین اور سربراہانِ مملکت کے سامنے بھی نہایت مؤثر اور بلیغ پیرائے میں اس پر بات کر چکے ہیں، جس میں انہوں نے واضح انداز میں کہا تھا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں اور نہ ہی اس کو کسی مذہب سے جوڑا جائے ، اس موقع پر انہوں نے ’’ہولوکاسٹ‘‘، ہٹلر اور یہودیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ’’ہولوکاسٹ‘‘ کا لفظ مغرب کیلئے "Taboo" یعنی ممنوع ہے، تو ’’اسلاموفوبیا‘‘ کا لفظ بھی مشرق و مغرب میں ممنوع ہونا چاہیے، دو سال قبل، اسلام آباد میں انٹرنیشنل سیرت النبی ﷺ کانفرنس میں بھی وزیر اعظم نے مذاہب کی توہین روکنے کیلئے بین الاقوامی کنونشن کی تیاری اور سربراہانِ مملکت اور عالمی قائدین کے دستخطوںسے انٹرنیشنل لاء کی ضرورت پر زور دیا تھا، جس کا مقصد ’’آزادی اظہار‘‘کی آڑ میں ، سوا ارب مسلمانوں کی دل آزاری کا تدارک تھا، ماضی میں بھی بین الاقوامی سطح پر ایسے معاہدات معرضِ عمل میں آتے رہے ، جن کا مقصد دنیا میں پائیدار امن کا قیام ہے۔ اسلام سے خوف یعنی’’اسلاموفوبیا‘‘نے مغرب میں اس وقت جو سنگین اور خوفناک صورت اختیار کر لی ہے، وہ محض داخلی احساسات تک محدود نہیں، بلکہ اس میں مغربی ذرائع ابلاغ اور دیگر مختلف ادارے ایک منظم اور مؤثر پیرائے میں سرگرمِ عمل ہیں، بالخصوص نائن الیون کے بعد سے ، تاحال یہ سلسلہ جاری ہے کہ آئے روز مختلف مغربی اخبارات میں ایسی خبریں اور رپورٹیں بکثرت شائع ہوتی رہیں ، جن میں بلاتفریق… ہر خطے اور ہر ملک کے مسلمانوں کو مغربی دنیا کا دشمن اور جہاد کے جذبے سے سرشار ظاہر کیا جاتا رہا ۔ افغانستان ہو یا فلسطین یا وسط لندن… مسلمان برادری کو ہر جگہ ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں برطانیہ کے سرکردہ اخبارات’’ڈیلی میل‘‘اور ’’ڈیلی ایکسپریس‘‘ کے کردار سب پر عیاں ہے ، یہ اخبارات برطانوی قوتِ مقتدرہ کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں، اور برطانیہ ، بالخصوص لندن میں یہ دونوں اخبارات "اسلامو فوبیا"کے فروغ اور تشہیر میں ہمیشہ پیش پیش رہے، ان کی شہ سُرخیاں افغانستان ، فلسطین اور پاکستان کی ایسی خبروں پر مشتمل ہوتی رہیں ، جو مسلمانوں کے امریکہ مخالف جذبات پر مبنی تھی۔ ان خبروں میں مشتعل نوجوانوں کوبندوق لہراتے، امریکہ مخالف نعرے لگاتے پیش کیا جاتا رہا اور پاکستان کے مختلف شہروں کی گلیوں کی ایسی منظر کشی کی جاتی رہی جہاں چھوٹے چھوٹے بچے مختلف نوعیت کے پلے کارڈ اور جہادی سلوگن کیساتھ ، امریکہ اور مغربی دنیا کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اس سب کچھ سے یہ تاثر قائم کرنا ہرگز مقصود نہیں کہ مغرب میں ’’اسلاموفوبیا‘‘کی تشہیر اور ترویج میں محض میڈیا اور بالخصوص اخبارات ہی سرگرمِ عمل ہیں، بلکہ یقینا بعض اخبارات و جرائد ذمہ داری کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں اور ایسی خبروں کی اشاعت سے گریز کرتے ہیںجس سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال پیدا ہو۔ بہرحال اس سلسلے میں بالخصوص مغربی میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، انہیں یہ روش ترک کرنی چاہیے کہ جب بھی کوئی مسلمان ناپسندیدہ سرگرمیوں میں پکڑا جاتا ہے ، تو اُس کی گرفتاری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور پھر اس کو مسلم کمیونٹی کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن وہ مسلمان جو دہشتگردی کیخلاف ہیں، دہشتگردی کی مذمت بھی کرتے ہیں اور خود بھی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہوں، ان کو کبھی نمایاں انداز میں پیش نہیں کیا جاتا۔ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق مغربی معاشرت اور صحافت کے رویّے ، معاشرتی اور مذہبی ہم آہنگی کیلئے مضر اور انتہائی نقصان دہ ہیں، مغربی اخبارات میں پیغمبرِ اسلامﷺ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز اور اشتعال انگیز کارٹون شائع کیے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ آزادی صحافت اور آزادی اظہار کی آڑ میں کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ سب کچھ نجی اور انفرادی سطح پر ہوتا تھا لیکن گزشتہ کربناک واقعہ ایک متمدن اور جدید ریاست کی طرف سے ، انکی سرپرستی میں معرضِ عمل میں آیا۔ جہاں ملک کے سربراہ نے سرکاری اور ریاستی سطح پر ان توہین آمیز خاکوں کی نہ صرف سرپرستی کی، بلکہ ان گستاخانہ خاکوں کو سرکاری عمارتوں پر آویزاں کروایا، جس پر مسلمانوں کا مشتعل ہونا اور احتجاج کرنا ایک فطری امر ہے، اور اس پر جب احتجاج ہوتا اور غم و غصہ کا مظاہرہ ہوتا ہے تو پھر کہا جاتا ہے کہ مسلمان انتہا پسند اور دہشتگرد ہیں، دنیا آخر اس بات کو کیوں نہیں سمجھتی اور سمجھنے کی کوشش کرتی کہ ایک مسلمان اپنے عمل میں خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، مگر وہ اپنے نبی ﷺ کی شان میں ادنیٰ سے ادنیٰ توہین کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔