جدید مغربی تہذیب جو اس وقت دراصل پوری دنیا کے لیے ایک سٹینڈرڈ یعنی مسلمہ معیار کا درجہ حاصل کر چکی ہے اس کی ترقی و نشوونما اسکے قائم کردہ سودی عالمی مالیاتی نظام کی مرہون منت ہے۔ اس مالیاتی نظام نے مسلم امہ کے اربابِ فکر و فقہہ کے سامنے ایک بہت بڑا سوال رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس عالمی مالیاتی نظام کو جو سراسر غیر اسلامی ہے یکسر مسترد کردیا جائے یا پھر اسی نظام میں تھوڑی بہت تطہیر کرکے اسے کسی حد تک اس قابل کر لیا جائے تاکہ تھوڑا سا اطمینان قلب نصیب ہوجائے ۔جیسے کسی سینما گھر یا تھیٹر میں نماز کا وقفہ بھی ہو اور نماز پڑھنے کا اہتمام بھی ہو جائے۔ پوری دنیا میں گزشتہ پچاس برسوں سے آہستہ آہستہ منزلیں طے کرتی ہوئی ''اسلامی بینکنگ'' دراصل اس عالمی سودی مالیاتی نظام کو قائم و برقرار رکھتے ہوئے اس میں اہل ایمان کی تسکین کے لیے چند تبدیلیاں کرتی ہے، لیکن اس بڑے نظام کو چیلنج نہیں کرتی۔یہ نظام جو دراصل سود، سودی بینکاری، کارپوریٹ سرمایہ کاری، انشورنس، سٹہ بازی، قمار بازی اور دیگر لا تعداد غیر اسلامی معاشی تصورات کا مجموعہ ہے۔ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے بھی اپنے وقت کے رائج مالیاتی نظام کو چیلنج نہیں کیا تھا بلکہ اسی کے اندر رہتے ہوئے سود اور جوا وغیرہ کو حرام قرار دے کر اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق قرار دے دیا تھا۔ یہ ہے وہ خشت اول جو جدید سودی مالیاتی نظام کو اسلامی بینکنگ کا جبہ دستار پہناتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ جدید مالیاتی نظام کی ساری عمارت ہی ایک جعلی غیراسلامی کرنسی پر کھڑی ہے۔ یہ جعلی کاغذی کرنسی ایک دن میں تخلیق نہیں ہوگئی۔ اس کے لئے ایک طویل منصوبہ بندی کی گئی۔ دراصل کاروباری حضرات نے سولہویں صدی کے آغاز میں چوری کے خوف سے اپنے ساتھ سونے اور چاندی کے سکے لے جانا چھوڑ دیے اور جب کسی دوسری جگہ اپنا مال بیچتے تو مال خریدنے والا انہیں ایک کاغذی رسید دیتا جس سے وہ اپنے ملک میں موجود تاجر جسکا خریدنے والے سے کاروباری تعلق ہوتا اسے وہ رسید دکھا کر سونا چاندی یا اشیاء وغیرہ حاصل کر لیتے۔ یہ رسید دراصل دو تاجروں کے درمیان ایک معاہدے کی صورت تھی جس کا عام فرد سے کوئی تعلق نہ تھا۔ آہستہ آہستہ انگلینڈ کے یہودی سناروں نے لوگوں کا سونا اپنے پاس رکھ کر لوگوں کو ایسے ہی کاغذ جاری کرنا شروع کردیئے جس پر لکھا ہوتا کہ وہ اتنے سونے کے برابر خریداری کرسکتا ہے۔ انہیں وہ دوکاندار کو دے کر سودا خریدتے اورپھر دکاندار ایک دن جاکر ان رسیدوں کے بدلے یہودی سنار سے سونا یا چاندی وصول کرلیتا۔ آہستہ آہستہ صرف یہ کاغذ ہی لوگوں کے پاس گھومنا شروع ہوگئے اور سونا سناروں کی تجوریوں میں پڑا رہا۔ برطانیہ فرانس کے ساتھ جنگ میں ایسا تباہ و برباد ہوا کہ حکومت چلانے کے لیے اسے ان یہودی سناروں سے قرض لینا پڑا جس پر وہ بھاری سود وصول کرتے تھے۔ ان قرضہ دینے والوں میں ارل آف ہیلی فیکس چارلس مونٹیگو تھا۔ اس نے برطانیہ سے یہ معاہدہ کیا کہ قرض کے بدلے شراب کی فروخت سے حکومت کو جو آمدنی حاصل ہوگی وہ قرضے کے سود کے طور پر وصول کی جائے گی۔ یہ دنیا میں حکومتوں کے اندرونی قرضہ جات internal Borrowing کی پہلی مثال تھی۔ حکومت کے قرضہ اور سود ادا کرنے کے لیے عوام پر ٹیکس لگایا۔ اس معاہدے کے ساتھ ہی اس نے ایک اور سنگ میل طے کرلیا۔ اس نے 1694ء میں بینک آف انگلینڈ کی بنیاد رکھی، حکومت سے اسکے چارٹر کی منظوری لی اور ساتھ ہی مقروض بادشاہ سے یہ اختیار بھی حاصل کرلیا کہ بنک اپنے پاس موجود سونے کے بدلے میں کاغذی رسیدیں (Promissory note) جاری کر سکے گا،جس کے بدلے لوگ لین دین کر سکیں۔ یوں سودی مالیاتی نظام کا ابتدائی چکر مکمل ہوگیا۔ لوگ اپنا سونا تحفظ کے لئے بینک میں جمع کراتے۔ بینک اس سونے کی بنیاد پر حکومت کو قرض دیتا اور پھر حکومت اسی عوام پر ٹیکس لگا کر قرض اور سود واپس کرتی۔ لوگوں کو سرمایہ کاری کے ذریعے گھر بیٹھے سود کمانے کی ترغیب کیلئے ساتھ ہی سٹاک مارکیٹ بھی تخلیق کی گئی۔ فرانس میں جس کمپنی نے پہلی بار اپنے حصص جاری کئے وہ ''مسس سپی'' کمپنی تھی اس کی شریک انگلستان کی ''ساؤتھ سی ''کمپنی تھی جن سے سٹاک مارکیٹ وجود میں آئی۔ یہ دونوں 1711ء میں قائم ہوئیں اور 1720 میں یہ دونوں کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں اور یوں جدید مالیاتی نظام کا پہلا سٹاک مارکیٹ بلبلا (Buble) پھٹا، جس نے یورپ کے بہت سے کھاتے پیتے افراد کو ڈبو کر رکھ دیا۔ لیکن یہ ساری دولت سود خور بینکاروں کے بینکوں میں منتقل ہوگئی۔ یہ دونوں کمپنیاں دراصل افریقہ اور جنوبی امریکہ سے عورتوں، مردوں اور بچوں کو اغواء کرکے امریکہ میں بیچتی تھیں۔ دس سال سے بڑے غلام کی قیمت آٹھ پونڈ اور سولہ سال سے بڑے غلام کی قیمت دس پونڈ تھی۔ لیکن 1718ء کی برطانیہ اور سپین کی جنگ میں غلام پکڑنا اور خرید و فروخت کرنا مشکل ہوگیا،غلام مہنگے داموں فروخت ہونے لگے اور اسٹاک ایکسچینج کی افواہ سازی سے جنگ کے دوران کمپنیوں کا حصص ایک ہزار پاؤنڈ تک جا پہنچا۔لیکن جنگ کی شکست کی خبر آتے ہی یہ ایک دم 120 پاؤنڈ رہ گیا۔لوگ برباد ہو گئے۔یوں اس منصوبہ سازی سے تمام سرمایہ بینکوں کی تجوریوں میں منتقل ہوگیا۔ لوگوں کو اب کاغذ کے نوٹوں کی عادت سی ہو گئی تھی۔ اس کا استعمال اسقدر بڑھا کہ عام آدمی کاغذ کے نوٹ کے بدلے سونا لینے کے لیے سنار کے پاس نہ جاتا بلکہ اس کاغذ سے گندم، چاول، کپڑے وغیرہ خرید لیتا، حجام سے بال کٹوا لیتا یا مزدور کو مزدوری دے دیتا۔ آج کے نوٹ پر لکھی ہوئی یہ عبارت دراصل سنار کے اس نوٹ یار سید کی عبارت ہوتی تھی جس پر لکھا ہوتا کہ اس کاغذ کے بدلے اتنا سونا یا چاندی ہمارے پاس موجود ہے جس کے نیچے سنار کی مہر ہوتی تھی۔ ایک سو سال تک کا عرصہ ان رسمی تحریروں کے تحت کاروبار میں گزرا۔ لیکن جب جنگ عظیم اول چھڑی تو لوگوں کو اپنے سونے اور چاندی کی فکر ہوئی مگر بینک آف انگلینڈ میں اس کے متبادل سونا یا چاندی موجود ہی نہ تھا،اس نے دینے سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔ 1914ء سے 1925ء تک کا عرصہ ایسا ہے کہ جب ان فراڈ بینکوں کے پاس لوگوں کو جاری کردہ نوٹوں کی مالیت برابر سونا اور چاندی بینکوں میں سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ حکومتوں نے 1925 میں اعلان جاری کیا کہ بینک کے کرنسی نوٹوں کو متبادل بینک کے پاس سونا ہونا چاہیے ۔ لیکن بینکاروں کا دباؤ اس قدر تھا کہ صرف چھ سال بعد 1931ء میں یہ حکم واپس لے لیا گیا اور نیا حکم جاری کیا گیا کہ ان نوٹوں کے پیچھے سونا ہونا ضروری نہیں۔ چنانچہ اب نوٹ سونے کے متبادل ہی نہیں رہے بلکہ ایک وعدہ بن کر رہ گئے یعنی ان پر یہ تحریر لکھی جانے لگی کہ بینک طلب کرنے پر (عندالطلب) پر ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ ایسی صورت کہاں آتی ہے کہ لوگ ایک ساتھ سونا مانگنے آنکلیں۔ ہر کوئی اس ڈر سے دبکا رہا کہ کہیں بینک انکار نہ کر دے۔اسی خوف پر بینکاری کی سودی عمارت کھڑی ہے۔1931ء میں جب کاغذی نوٹوں کا تعلق سونے سے ختم کیا گیا تو بینک زیادہ سے زیادہ یہ کرتے تھے کہ ان کاغذ کے پرزوں کے بدلے دیگرکاغذی پرزے دے دیتے یا اگر بہت مہربان ہوتے تو چاندی دے دیتے۔ چاندی دینے کی منصوبہ بندی بھی 1705ء ہی سے کر لی گئی تھی جب ارل آف ہیلی فیکس نے مشہور سائنسدان نیوٹن کو برطانوی ٹکسال کا سربراہ لگوایا۔ قدرت نے سونے اور چاندی کے درمیان ایک اور بیس کی نسبت رکھی ہے اور یہ تبادلے کی شرح صدیوں سے قائم تھی۔1717ء میں نیوٹن نے یہ شرح ایک کے بدلے 15.5 کردی اور اسے سرکاری تحفظ دے دیا۔ یوں سونا چاندی کے مقابلے سستا ہوگیا اور چاندی کی طلب میں اضافہ بھی ہوگیا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کو بے معنی کر کے کاغذ کے نوٹ جاری ہوگئے جن کی پشت پر کوئی حقیقی سرمایہ نہ تھا بس ایک تحریر درج تھی۔ (جاری ہے)