چند کور بڑی دلیر خاتون تھی۔ اس نے شاہی خواتین کی طرح پردہ نہیںکیا اور سکھ سرداروں جیسی پگڑی پہن لی۔ وہ فوجی دستوں کا معائنہ کرتی۔ یہ جملہ اسی نے کہا تھا کہ ’’میں وہ کچھ کیوں نہیں کر سکتی جو ملکہ وکٹوریہ انگلستان میں کر سکتی ہے‘‘۔ چند کور کو امید تھی کہ اس کے مرنے والے انیس سالہ بیٹے نونہال سنگھ کی حاملہ بیوی صاحب کور لاہور کے تخت کو نیا وارث دے گی۔ جولائی 1841ء میں صاحب کور نے مردہ بچے کو جنم دیا ‘اس سے چند کور کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ دھیان سنگھ نے مہارانی چند کور کی وفادار ملازمائیں ہٹا کر اپنی وفادار عورتیں تعینات کر دیں جنہوں نے اسے کھانے میں زہر ملا کر مارنے کی کوشش کی۔ کچھ واقعہ نگار بتاتے ہیں کہ مہارانی اس سے پہلے ہی مار دی گئی تھی جب بالکونی سے ایک پتھر اس کے اوپر گرا یا گیا اور پھر باورچی خانے میں پڑے لکڑی کے دستوں سے اس کا سر کوٹ دیا گیا۔ دھیان سنگھ نے تمام ملازمائوں کی زبانیں بعدازاں کاٹ دیں تاکہ وہ کسی کو مہارانی کے قتل کے منصوبے سے متعلق آگاہ نہ کر سکیں۔ کچھ عرصہ بعد دھیان سنگھ کو احساس ہوا کہ زبانیں کٹنے کے بعد بھی یہ ملازمائیں اس کے کردار کو بے نقاب کر سکتی ہیں اس لئے منصوبے میں شریک اور سازش سے آگاہ تمام ملازمائوں کو قتل کرا دیا گیا۔ مہارانی کی پراسرار موت کی اطلاع پا کر سندھاںوالیہ آیا اور مہاراجہ بنے شیر سنگھ سے، اس کے نوجوان فرزند سے اور وزیر دھیان سنگھ سے چند کور کے قتل کاانتقام لیا۔ کنہیا لال نے 1884ء میں ان تینوں سمادھیوں کا ذکر کیا ہے۔ طویل عرصہ یہ سمادھیاں گمنامی میں رہیں۔ اس دوران بھارتی مقبوضہ جموں کے علاقے میں مہارانی چند کور کی ایک یادگار تعمیر کی گئی جسے ان کی سمادھی کا درجہ حاصل ہو گیا۔2012ء تک جموں میں سمادھی کے ساتھ ایک چھوٹا سا گوردوارہ تھا۔ سکھ سنگت کی اجازت سے جموں والی سمادھی کو منہدم کر دیا گیا اور گوردوارے کی خوبصورت عمارت کو توسیع دیدی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ یہاں یاتریوں کے لئے قیام گاہ تعمیر کی گئی۔یہ گوردوارہ جموں شہر کے وسط میں جیول چوک کے قریب ہے۔ سارا سال یاتری یہاں آتے رہتے ہیں۔ دھیان سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا وزیر تھا‘ وہ رنجیت سنگھ کے بعد اس کے چار وارثوں کے دور میں بھی وزیر رہا۔بطور وزیر وہ پچیس برس تک پشاور سے لے کر ملتان تک کی وسیع سلطنت کے معاملات دیکھتا رہا۔دھیان سنگھ اسی گلاب سنگھ کا بھائی تھا جس کے ہاتھ انگریز نے کشمیر کی قسمت دیدی۔اس کے تیسرے بھائی سوچیت سنگھ نے بھی انگریز راج کی خدمت کی۔تینوں کو ڈوگرہ برادرز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔رنجیت سنگھ کا پوتا نونہال سنگھ جب زخمی ہوا تو ایک امریکی کرنل الیگزنڈر گارڈنر اس کے ساتھ تھا۔ کرنل گارڈنر کا کہنا ہے کہ 5گھوڑ سوار سپاہی نونہال سنگھ کو دھیان سنگھ کے حکم پر قلعہ میں لے گئے۔ان سپاہیوں میں سے 2پراسرار حالات میں مر گئے جبکہ دو کو رخصت پر بھیج دیا گیا اور وہ پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے ‘ ایک لاپتہ ہو گیا۔ رانی چند کور کے وفادار اجیت سنگھ سندھاں والیہ نے 1843ء میں دھیان سنگھ کو قتل کر کے اس کے ٹکڑے کر دیے۔ اگلے دن دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ نے باپ کے تمام قاتل قتل کر کے خود کو پانچ سالہ دلیپ سنگھ کا وزیر مقرر کر لیا۔اسی ہیرا کے نام پر لاہور کی ہیرا منڈی آباد ہوئی۔شرکا بیج ہمیشہ فسادی ہی بوتے ہیں۔ دھیان سنگھ کی حویلی موری دروازہ کے قریب ہے۔ اس حویلی کو بھاٹی اور لوہاری دروازے سے بھی راستہ جاتا ہے۔ یہ حویلی مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے پوتے نونہال سنگھ کے لئے تعمیر کرائی تھی اس لئے حویلی کو نونہال سنگھ کی حویلی بھی کہتے ہیں۔نونہال سنگھ کی حویلی میں ایک خوبصورت باغیچہ ہوا کرتا تھا۔ اسی باغیچے کے پاس موری گیٹ تھا‘ اس وقت یہ گیٹ کچی مٹی سے بنا تھا۔ اس زمانے میں لاہور کی گلیوں میں یہ بات عام بول چال میں ہوتی کہ ڈوگرہ خاندان کے ظلم اور جادو نے رنجیت سنگھ دی نسل مکادتی۔اس حویلی کی پانچ منزلیں ہیں۔ بالائی منزل مختلف رنگوں سے مزین ہونے کی وجہ سے رنگ محل کہلاتی ہے۔ چھتیں اونچی ہیں۔اس حویلی میں کھڑک سنگھ کے قیام کے وقت وہ مشہور جملہ تخلیق ہوا۔ کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں۔کئی بار ابہام محسوس ہوتاہے کہ مہارانی جنداں اور مہارانی چند کور کیا ایک ہی شخصیت تھی۔ ایسا نہیں‘ مہارانی جنداں 1863ء تک زندہ رہی‘ وہ رنجیت سنگھ کی زندہ بچ جانے والی آخری بیوہ اور دلیپ سنگھ کی ماں تھی۔ دلیپ سنگھ کو ملکہ وکٹوریہ نے انگلستان منگوا لیا اور جنداں ساری عمر دلیپ سنگھ سے ملاقات کو ترستی رہی‘ دونوں کو ایک بار ملاقات کا موقع ملا۔دلیپ سنگھ نے عیسائیت قبول کر لی تھی۔ اسی دلیپ سنگھ کی ایک بیٹی بمباں سوتھرلینڈ لاہور میں جیل روڈ کے گورا قبرستان میں دفن ہے۔ ماڈل ٹائون میں رہتی تھی بمباں پاکستان بننے کے کئی سال بعد فوت ہوئی۔رنجیت سنگھ خاندان کا اقتدار کمزور کرنے میں انگریز نے ڈوگرہ خاندان کو خوب استعمال کیا۔جانے تاریخ نے کتنی شخصیات کو ان تین سمادھیوں کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ پرنسپل پروفیسر اسلم رانا‘ وائس پرنسپل ڈاکٹر اختر حسین سندھو‘ میرے والد چودھری محمد شریف‘ علامہ عنایت اللہ مشرقی کے پوتے اور محقق حامد مشرقی، سینئر وکیل امجد شیرازی‘ لاہور ریڈیو کے پروڈیوسر نوید اسلم اور باقی احباب کب چبوترے پر آئے اور کب سیڑھیاں اترے مجھے پتہ ہی نہ چلا‘ تاریخ کے اہم کردار رہنے والی ان خواتین کی سمادھیوں کی حالت زار دیکھتے دیکھتے میں صاحب کور کی سمادھی میں داخل ہو گیا۔ دروازہ پوری طرح کھلا تھا۔ جنگلی کبوتروں نے چند کور اور راج کور کی سمادھیوں کے روشندانوں کو گھر بنا رکھا تھا۔ صاحب کور کی کوکھ کی طرح سمادھی کا آنگن بھی خالی تھا۔ احباب نے آواز دی تو یوں لگا ٹائم مشین نے پھر سے 2021ء میں لا پھینکا ہے۔ نہ راج کور ‘چندکور نہ صاحب کور‘ شان و شوکت‘ جاگیر‘ وفاداروں کا ہجوم دھواں ہو گیا۔ بے چارگی کی یادگاریں ہیں جنہیں محکمہ آثار قدیمہ نے مزید کچھ برس فراموش رکھا تو بس کہانیاں رہ جائیں گی جیسے شام جیسی گھنی چھائوں کی کہانی رہ گئی۔