رب الکریم نے ہمیں یہ عظیم سعادت نصیب فرمائی کہ ہمیں محمدﷺ کا امتی بنادیا۔ امت وسط قراردیکرہم پربہت بڑی ذمہ داریاں بھی عائدکردی گئی ہیں۔ پر افسوس کہ آپؐ کے امتی ہونے کے باوجود ہم طبقوں اورٹولیوں میںمنقسم ہیں ،ہماراشیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ مشکل اوردگرگوںحالات میں ہم گھرے ہوئے ہیں لیکن اسکے باوجود ہم اپنامحاسبہ کرنے کے لئے تیارنہیں۔ محاسبہ کرتے تولگ پتا جاتا کہ ہماری ذلت اورپستی کا واحدسبب یہ ہے کہ جب ہم اللہ کی غلامی اور اسوہ حسنہ اورسیرت طیبہؐ سے منہ موڑچکے ہیں توذلت ہمارا مقدرٹھہری اوراغیار نے ہمیں اپنا غلام بنادیاہے۔ یہ بات پلے باندھ لینی چاہئے کہ اسوہ حسنہ کی پیروی میں ہماری نجات مضمر ہے ۔یہ اسوہ حسنہ سے روگردانی ہی کانتیجہ ہے کہ من حیث ملت ہم پرذلت اورمسکنت مسلط ہے ۔آج ہماری مجموعی حالت یہ ہے کہ صفیں کج ، دل پھٹے ہوئے اورارادے کمزور ہیں۔ ہمتیں شکستہ اورنگاہیں پست ہیں۔آرزو مردہ اور دل آزردہ ہیں۔آخرت ہماری منزل نہیںرہی ۔ امید ہماری سواری نہیںرہی۔یقین ہمارا زادِ راہ نہیںرہا۔ حوصلہ ہمارا رفیق نہیںرہا۔وحدت ہمارا شعار نہیں رہا۔ اتحاد ہماری قوت نہیں رہی۔ غیرت ہماری پہچان نہیں رہی۔ تعاون ہمارا شیوانہیںرہا۔مساجدتو اللہ کے گھر ہیں، پر ہم نے ان کو فرقوں کے قلعوں میں تبدیل کر لیا اور اپنے اپنے فرقے اورطبقے کے بورڈ مساجد پر آویزاں کئے، ہم آپؐ کی ذات مبارکہ سے عشق کا دعویٰ تورکھتے ہیں،پر آپؐ کی سنتِ مطہرہ سے آنکھیں موندی ہوئی ہیں۔ہماری بدبختی کانتیجہ ہے کہ آج آپؐ کا اسوہِ حسنہ ہمارا مرکزاتباع نہیں۔ آپؐ کی تعلیمات ہمارا معیار عمل نہیں۔آپؐ کے ارشادات ہمارے لیے چراغِ راہ نہیں۔ہم خواہشاتِ نفس کے غلام ،ہم حرص و ہوس کے بندے ۔ہمارا دعویٰ ہے ایمان کا ،لیکن وہ قرآن، وہ پیغام ، وہ تعلیم جو آپؐ لے کر تشریف لائے ہم اس کے مطابق زندگی گزارنے سے گریز اںہیں۔آپؐ نے اچھے اخلاق کو ایمان کی کاملیت کی دلیل بتایا ،پر ہم اخلاقی گراوٹ سے اوپر اٹھنے پر آمادہ نہیں ،اس لیے دولتِ ایمان سے بھی خالی ہیں۔آپؐ نے ایمان کے رشتے کو ہماری اخوت کی بنیاد بنایا،پر ہم نے ذات، قوم قبیلے ، رنگ، نسل اور زبان کو اپنے لیے وجہ افتخار بنا لیا۔ہم نے آپؐ کے لائے ہوئے خالص دین میں فرقے نکال کر اسے پارہ پارہ کر دیا۔ آپؐ نے تلقین فرمائی تھی کہ پیغام حق لے کر اٹھو اور دنیا پرچھاجائو ،پر ہم آپس میں دست وگریبان ہو کر منظرپہ چھاگئے ۔آپ نے مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کے قتل کو کفر اور مسلمان کی زبان سے دوسرے مسلمان کو گالی گلوچ کو فسوق یعنی کھلا اور بھاری گناہ قراردیا تھا،پر ہمارے ہاں بھائی کے ہاتھوں بھائی کا قتل معمولی چیزبن چکی ہے۔آج دنیا میں سب سے زیادہ کمزور ہیں تو آپؐ کے یہ نام لیوا، جانیں سب سے سستی ہیں تو آپؐ کے امتیوں کی، خون سب سے زیادہ ارزاں ہے تو خونِ مسلم ہے، باطل سامراج کا سب سے پسندیدہ مشغلہ مسلمانوں کا شکار ہے،ذلت و نکبت مقدر ہے تو اہلِ اسلام کا، زوال و ادبار قسمت میں لکھے ہیں تومسلمانوں کے، بے بسی اور ضعف کی علامت ہیں تو وہ جو آپؐ سے نسبت رکھتے ہیں۔ افلاسِ مال، افلاسِ فکر اور افلاسِ عِلم کا شکار ہیں تو ہم جو دنیا میں عِلم و آگہی کی روشنی پھیلانے آئے تھے۔ عقل و فراست زنگ آلود ہے تو ہماری ،جن کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ ’’ ڈرو مومن کی فراست سے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔ آج خدا کی زمین پرتنکے سے بھی ہلکی کوئی مخلوق ہے تویہ ڈیڑھ ارب امت جس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا تھا کہ ’’ تنہا ایک مومن کا وزن ایک جماعت کے برابر ہوتاہے‘‘۔حاکموں اور رعایا کی منزل جدا جدا ہے۔ معیارات الگ ہیں۔ حکمران عدل سے رو گرداں اور ظلم شعار ہیں۔ رعایا کی بدترین حالت پر ان کا دل نہیں پسیجتا ۔نا اہلی،جہل وبے علمی، خود غرضی، حرصِ اقتدار، بدعنوانی، زرپرستی، خیانت اوربے ضمیری، دین فروشی ان کا طرہِ امتیاز ہے۔ امت کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔امت راکھ کا ڈھیر بن چکی ہے ۔مسلم امہ کا نام و نشان مٹانے اور اس کے انگ انگ پروار کرنے پر غیر مسلموں کے ساتھ ان کا یارانہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔بخداقلم بھی عاجزہے کہ اس پرنوحہ لکھ ڈالے۔ ربیع الاول کے ماہِ مقدس کی یہ مبارک ساعتیں ہمیں سیرتؐ پر عمل پیرا ہونے کا پیغام دیتی ہیں۔برقی قمقموں سے دیواریں روشن کرنے کے ساتھ ساتھ، آفتابِ فاران کی کرنوں سے اپنے دلوں کی اجاڑبستیوں کو اجالنے کا اہتمام بھی کرلو۔ شہر کی دیواریں روشن ہوں اور دل کا نگر ظلمت گزیدہ وتاریک رہے۔ تویہ چراغاں چہ معنی دارد؟ محبوبِ کائناتؐ کی حیات مبارکہ کو خالق کائنات نے اسوحسنہ سے تعبیر کیا ہے اورفرمایالقد کان لکم فی رسول للہ اسوہ حسنہ۔کلامِ مجید فرقانِ حمید میں تو ربِ کائنات کے اس فرمود اور فرمان کا مطلب و مقصد یہ بتانا ہے کہ سیرتِ طیبہؐ کا بیاں محض سماعت کیلئے نہیں بلکہ اس کے سامنے اپنی زندگیوں کامتکبرسر نگوں کرکے سراسر اطاعت وپیروی کیلئے ہے۔سیرت طیبہؐ کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے گزشتہ کا احتساب اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرکے فلاح و صلاح انسانیت کے لئے ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ مشغول ہو جانے کاعزم کرنا سیرت طیبہؐ کاعملی مطالبہ ہے۔ آپؐ کی سماجی، سیاسی،معاشی، معاشرتی اور عائلی زندگی کے تابناک گوشوں کوسمجھنے اورپھر بامقصد عملی زندگی اختیارکرنے، آپؐ کی رحم دلی، احترام انسانیت، حقوق اللہ و حقوق العباد ،دعوت اسلام،سماجی بائیکاٹ، ترک وطن و ہجرت، کفار و مشرکین اعدائے دین، کفار و مشرکین کی طرف سے ناقابل برداشت ظلم و ستم، عناد و دشمنی پرآپؐ تلواربکف ہوئے پھربدر،احد،احزاب اورحنین کے معرکے اسوہ حسنہ کے ایک ایک سبق کو یاد دلاتے ہیں کہ سیرت طیبہؐ کے جملہ دروس کے عنوانات کون کونسے ہیںاورانکے کیاکیاتقاضے ہیں۔آپؐ کی رواداری ومساوات، خواتین کے حقوق و احترام، بچوں کی تعلیم و تربیت و ذہنی تعمیر۔حق کی پاسداری اور برائیوں کی بیخ کنی کے دلنشین طریقے ۔آپسی اخوت اورپڑوسیوں کے حقوق۔ ان سب کے حوالے سے سیرت طیبہؐ سے مکمل رہنمائی حاصل کرناماہ ربیع الاول کاہم سے عملی مطالبہ ہے ۔ہماری صورت اورہماری سیرت اسوہ رسولؐ سے کوئی میل نہیں کھاتی پھربھی ہم یہ کہیں کہ ہمیں ہرجگہ اورہرمحاذ پرمارکیوں پڑرہی ہے آج اس پرغوروفکر کرنے کی اشدضرورت ہے اگر ہم اپنی صورت اور سیرت اسوہ رسولؐ کے سانچے میں ڈھال لیں تواس میں کوئی شک نہیں کہ ہم عظمت رفتہ کوبحال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔